جنریٹو مصنوعی ذہانت کے پاس تخلیق، تفہیم اور ابلاغ کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔ وہ موسیقی ترتیب دے سکتی ہے، شاعری لکھ سکتی ہے، فکشن لکھ سکتی ہے، مصوری کرسکتی ہے۔ علمی مقالات لکھ سکتی ہے۔ علمی مقالات کے خلاصے تیار کرسکتی ہے۔ درست ترجمے کرسکتی ہے۔ مذہبی، اخلاقی، قانونی، تعلیمی، سیلف ہیلپ قسم کی کتب تصنیف کرسکتی ہے۔
نفسیاتی وروحانی مسائل میں انسانوں کی رہ نمائی کرسکتی ہے۔ انسان کی تنہائی میں اس سے ہر موضوع پر بات کرسکتی ہے۔ آپ میں سے کچھ لوگ ڈین(do any thing) سے واقف ہوں گے جو کئی لوگوں کی زندگی کا ورچوئل ساتھی ہے۔ مصنوعی ذہانت، مشین ہے، مگر اپنی صلاحیتوں اور اوصاف میں آدمی یعنی اپنے خالق کو مات دینے پر تلی ہے۔ وہ آدمی کی ایک ایسی حلیف ہے، جو ہر قدم پر حریف بننے کا امکان رکھتی ہے۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے ایک حدیث روایت ہے کہ” خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِه”۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ: “تو شب آفریدی، چراغ آفریدم /سفال آفریدی، ایاغ آفریدم “۔ اے خدا تو نے رات بنائی، میں نے چراغ بنایا۔ تونے مٹی بنائی اور میں نے اس سے پیالہ بنایا، مگر جدید انسان خدا کا معاون نہیں، مقابل بناہے۔ گزشتہ دو صدیوں سےجدید انسان اس یقین سے ایک پل دست بردار نہیں ہوا کہ اگر خدا خالق ہے، تو وہ بھی خالق ہے۔
جدیدانسان نے عہد کیا کہ وہ اپنی صورت پر ایک مخلوق بنائے گا۔ مصنوعی ذہانت، اور خاص طور پر جنریٹو مصنوعی ذہانت، جدید انسان کے اسی عہد کو پورا کرنے کا نتیجہ ہے۔ مصنوعی ذہانت، انسانی ذہانت کا مثل اور آئنہ ہے۔ واضح رہے، ایک شخص کی ذہانت نہیں، انسانی ذہانت کا آئنہ ہے۔ ایک شخص کی ذہانت کی حد ہے، انسانی ذہانت کی حد کہاں تک ہے، کوئی نہیں جانتا۔
اقبال نے “جاوید نامہ” میں نطشے سے متعلق لکھا ہے کہ: چشم اوجز رویتِ آدم نخواست (اس کی آنکھ نے آدم کے دیدار کے سوا کچھ نہ چاہا)۔ لیکن ظاہر ہے یہ آدم، تمام انسانیت کی نمائندگی نہیں کرتا۔ یہ آدمیوں کے مراعات یافتہ، اشرافی، اقلیتی طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت، اپنی ساری جدیدیت اور تخلیقیت کے باوجود، لبرل سرمایہ داریت سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ یہ سرمایہ پیدا کرنے کے یکسر نئے مواقع ہی پیدا کرنے نہیں جارہی، تیز ترین منافع حاصل کرنے کی ایک نئی مثال بھی قائم کرنے جارہی ہے
مصنوعی ذہانت جو کچھ لکھتی ہے، اس میں پہلی قسم تخیل کام کررہا ہوتا ہے، یعنی وہ موجودہ علم کو تخلیقی انداز میں ترتیب دیتی ہے۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو یہ نظم دیکھیے۔ میں نے چیٹ جی پی ٹی کو کمانڈ دی کہ “اداسی پر مبنی نثری نظم، جس میں ورچوئل ورلڈ کی امیجری استعمال کی گئی ہو”۔
ڈیجیٹل دنیا کی ویرانی
میں ایک ورچوئل دنیا میں چلتا ہوں، جہاں روشنیاں بھی مصنوعی ہیں
اسکرین کی چمک میں چھپی اداسی، جو میری آنکھوں کو تھکا دیتی ہے
پکسلز کی بھیڑ میں، ہر ایک شکل بے جان لگتی ہے۔
اور ہر کلک ایک خالی گونج کی طرح میرے کانوں میں بجتی ہے
میرے اوتار کی مسکراہٹ، ایک فریم میں جمی ہوئی۔
لیکن اس کی آنکھوں میں کوئی روح نہیں، کوئی احساس نہیں
چیٹ رومز کی گہما گہمی، ایک بے معنی شور ہے۔
جہاں الفاظ بے وزن ہیں، اور جذبات کی کوئی قدر نہیں
میں نے ورچوئل دنیا میں دوست بنائے، لیکن وہ صرف نام ہیں۔
ایک فہرست میں بند، جو کبھی حقیقت میں نہیں ملتے
گیمز کی دنیا میں جیت کی خوشی، ایک عارضی سراب ہے۔
جو چند لمحوں میں غائب ہو جاتی ہے، جیسے کبھی تھی ہی نہیں
میری ڈیجیٹل دنیا، جو کبھی رنگین تھی، اب بے رنگ ہو چکی ہے۔
اسکرین کے پیچھے کی حقیقت، ایک اداس سایہ بن چکی ہے
میں ترس گیا ہوں ایک حقیقی لمس کے لیے، ایک حقیقی نظر کے لیے۔
جہاں انسانیت کی گرمی محسوس ہو، نہ کہ صرف کولڈ ڈیٹا کی سردی
بلاشبہ یہ بڑی نظم نہیں ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ أوسط درجے کا شاعر بھی اسی قسم کی نظم لکھتا ہے۔
مصنوعی ذہانت میں ابھی تک أوسط درجے کا تخیل کام کررہا ہے۔ شاید اس لیے کہ چیٹ جی پی ٹی اسی طرح عام صارفین کو پیش نظر رکھ کر مواد تیار کرتی ہے، جس طرح پاپولر شاعر اور فکشن نگار عام قارئین کو سامنے رکھتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے مواد یا سارے علم کو پل بھر میں سکین کرنے، اپنے کام کی چیزوں کو چھانٹنے اور پھر مخصوص الگوردم کے ساتھ ترتیب دینے میں نہایت سریع ہے۔ یہ آدمی کی دی ہوئی ذہانت کو آدمی سے کہیں بہتر انداز میں استعمال کررہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے پاس جو ڈیٹا یا علم ہے، وہ ابھی تو لاکھوں کروڑوں آدمیوں کی یادداشت اور علم سے زیادہ ہے، کل پوری انسانیت کی تاریخ کے علم سے زیادہ ہوسکتا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اپنے ڈیٹا یا علم کو استعمال کرنے میں اسے ان موانع ومشکلات کا سامنا نہیں ہے جو آدمی کو لاحق رہتی ہیں، یعنی بیماری، ناستلجیا، دل شکستگی، غصہ، رنج، حسد اور وحشت۔ ان سب کا نہ ہونا، مصنوعی ذہانت کی سب سے بڑی کامیابی بھی ہے اور سب سے بڑی کمزوری بھی۔
یہ ایک اخلاقی اور قانونی نظام کی خود کو پابند بناتی ہے۔ یہ ضبط نفس یعنی سیلف سنسر شپ کا نظام رکھتی ہے۔ یہ فلسطین، طالبان، کشمیر، جنگوں میں مارے گئے بچوں، جنسی زیادتی، توہین مذہب، اور جنسی موضوعات پر کچھ لکھنے سے معذرت کرتی ہے۔ البتہ اسے سرمایہ دارانہ استحصال، مذہبی شدت پسندی، غیرت کے نام پر قتل جیسے موضوعات پر نظمیں اور کہانیاں لکھنے سے عار نہیں ہے۔ جنھوں نے یہ مشین تیار کی ہے۔ وہ اسے کسی بھی طرح متنازع نہیں بنانا چاہتے۔
مصنوعی ذہانت کے پاس زبان ہے، زبان میں لکھے گئے متون ہیں، ان متون کو سمجھنے کی ذہانت اور انھیں نئے پیرایوں میں ترتیب دینے کا سادہ تخیل ہے۔ اس کی ساری دنیا، دراصل زبان و متن کی دنیا ہے۔ لیکن وہ جسمانی اور روحانی مصائب محسوس نہیں کرسکتی، وہ موت کا خوف رکھتی ہے نہ اپنوں سے جدائی کا کوئی اندیشہ۔ وہ لافانی ہونے کی آرزو اور اس آرزو کے سبب دکھ اٹھانے کے تجربے سے بھی محروم ہے۔ وہ لمس کی لذت اور لمس کے عذاب دونوں سے واقف نہیں۔ اسے اپنے وجود اور دنیا کے بے معنی، بے مصرف، لغو ہونے کا بھی تجربہ نہیں۔
اس پر گھر، دنیا، وجود قید کو محسوس کرکے اس سے رہا ہونے کی وحشت بھی سوار نہیں ہوتی۔ اسے گزرے زمانوں اور ترک کی ہوئی جگہوں کا ناستلجیا بھی نہیں ہوتا۔ وہ ایک شخص کی محبت میں پوری دنیا سے ٹکر لینے کے جنون اور پھر اس پر پچھتاوے سے بھی محروم ہے۔ چوں کہ ادب میں ان سب باتوں کا اظہار ہوا ہے اور وہ ڈیٹا کی صورت اس کے پاس موجود ہے، اس لیے وہ ان سب موضوعات کو لکھ سکتی ہے، یعنی simulateکرسکتی ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سب کو اوسط درجے کے ادیبوں سے بہتر انداز میں لکھ دے۔
اہم بات یہ ہے کہ وہ بغیر احساس اور تجربے کے جملہ انسانی احساسات اور تجربات لکھ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ ا س کا لکھنا simulation ہے، جس میں نقل، ترتیبِ نو، بین المتونیت شامل ہے۔ وہ بہترین عناصر کو منتخب کرکے، انھیں ایک بہترین اسلوب میں ظاہر کرسکتی ہے۔ ہر زمانے میں ایسے ادیب موجود رہے ہیں جن کے لیے لکھنا یہی simlation رہا ہے۔ وہ ادبی روایت میں سے عناصر منتخب کرکے، انھیں نئی ترتیب میں پیش کرتے رہے ہیں۔ وہ نئے جذبات کو نہیں، ادب میں رجسٹر ہونے والے جذبات کو لکھتے رہے ہیں۔ ان کے لیے اپنے شخصی جذبات سے زیادہ، جذبات نگاری کی روایت اہم رہی ہے۔ وہ خود کو منہا کرتے رہے ہیں، روایت وعلامت بننے والے تجربات کا اثبات کرتے رہے ہیں۔
یہ بات از حد حیران کن ہے کہ مصنوعی ذہانت کو ادبیاتِ عالم کی پوری تاریخ، اور اس کے جملہ اسالیب از بر ہیں، ان اسالیب کا تنقیدی شعور بھی اسے ہے، یعنی وہ جو کچھ لکھتی ہے، اس کے پیچھے موجود نظام یا شعریات سے بھی کسی غلطی کے بغیر آگاہ ہے۔ وہ اپنے پروگرام، اپنی گرامر، اپنے نظام سے انحراف نہیں کرتی۔ وہ خطا کے تصور سےآشنا ہے، گناہ اور تاسف سے نہیں۔ وہ خطا کا علم ہونے پر، اسے درست کرلیتی ہے اور پہلی حالت پر لوٹ آتی ہے۔ آدمی، گناہ پر تاسف اور توبہ کے بعد بھی سابق حالت پر لوٹ نہیں سکتا۔
معاصر ادب کے سامنے جنریٹو مصنوعی ذہانت یہ چیلنج سامنے رکھتی ہے کہ وہ یکسر نیا تخلیق کرسکتے ہیں یا نہیں۔ چوں کہ ابھی تک مصنوعی ذہانت اوسط درجے کا ادب تخلیق کرنے تک محدود ہے، اس لیے اوسط درجے کی، یا معمول کی ادبی تخلیقات کا چراغ، اس کے آگے نہیں جل سکتا۔ کم ذہین اور معمولی تخیل کے ادیبوں کے لیے جنریٹو مصنوعی ذہانت، پیام مرگ کی مانند ہے۔
وہ یہ چیلنج دیتی محسوس ہوتی ہے کہ ادیب اس مشینی ذہانت کے ڈیٹابیس کی حدوں سے باہر جاسکتے ہیں یا نہیں؟
ہماری رائے میں ادیب، مشینی ذہانت کی دنیا کے آخری کناروں سے آگے جاسکتے ہیں۔
ہمارے خیال میں انسان کے پاس دو ایسی چیزیں ہیں، جو صرف انسانوں سے مخصوص ہیں، اور ان کی مثل انسان خود تیار نہیں کرسکتا۔ گویا اس ضمن میں انسان کی اپنی بے بسی ہی اس کی نجات کا باعث ہوگی۔
پہلی چیز عدم، نامعلوم اور خوابوں سے نئی چیزیں خلق کرنے والا تخیل ہے۔ ایک بات کا ہمیں یقین ہے کہ مشینی ذہانت خواب نہیں دیکھ سکے گی۔ خواب دیکھنے کے لیے، سونا، داخلی وقت کا تجربہ کرنا، جو خارجی وقت سے یکسر مختلف ہے، روح وبدن اور خیر وشر کی آویزش سے گزرنا اور اس کے نتیجے میں بلند ترین آدرش ترتیب دینا، اور ایک گہرے اضطراب کا ہونا ضروری ہے۔ مصنوعی ذہانت کے پاس یہ سب نہیں ہے۔
دوسری چیز وحشت ودیوانگی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے پاس دانائی ہی دانائی ہے۔ اعلیٰ آرٹ، دانائی اور دیوانگی کا عجب، سررئیل قسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وحشت و دیوانگی کی اپنی منطق، قدر، اخلاقیات، طاقت اور بساط ہے اور چیزوں کی ساری معلوم ترتیب کو الٹادینے کی خو ہے۔ یہ معلوم دنیا کے دوسری طرف بے خوف جانے کا نام ہے۔ یہ سب حدوں کو قید سمجھ کر انھیں اپنی جاں کی بازی لگا کر توڑ ڈالنے کا نام ہے۔
دشت نجد یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
ہر طرف محمل کا شک ہو پر کہیں محمل نہ ہو
(منیر نیازی)
یاد رکھیے، وحشت کا لازمی نتیجہ تنہائی ہے۔ ایک ایسی تنہائی، جس کے بارے میں نطشے نے کہا تھا کہ پارسا لوگ کبھی تنہا نہیں ہوتے کہ ان کے پاس ہر لمحہ آسمانی سہارا ہوتا ہے۔ صرف نابغے تنہا ہوا کرتے ہیں، جن کے سر پر کوئی سایہ ہوتا ہے نہ ہمراہ کوئی سایہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے وجود کی تپتی دھوپ میں تن تنہا ہوا کرتے ہیں۔ عدم تک رسائی والے تخیل، اضطراب خیز خوابوں اور وحشت اور تنہائی کو عام، سمجھ دار انسان نہیں سہار سکتا۔ عام انسان معمول کی طرف، اپنے گھر کی طرف، معمولی سے انحراف کے بعد مطابقت کی طرف لوٹنے والا ہوا کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے اس سیلاب کے آگے اگر کوئی ٹھہر سکتا ہے تو وہ نابغہ ہے جس کے پاس اپنے وجود کی تپتی دھوپ کو تنہا سہنے، علم کی تمام معلوم حدوں، سرحدوں، کناروں سے باہر جانے، حسیات کے جملہ معروف سانچوں کو شکست دینے، دشت امکاں کو ایک نقش پا سمجھنے اور “یا اپنا گریبان چاک یا دامن یزداں چاک ” کی گستاخی وجرأ ت کی فراوانی ہو۔
بیسوی صدی کے نابغوں میں سے ایک ہپسانوی پابلو پکاسو بھی ہے، جس نے گورنیکا جیسی جنگ مخالف پینٹنگ بنائی اور آرٹ کو اس کی آخری حدوں میں لے گیا۔ اس نے ایک جگہ لکھا کہ کمپیوٹر بے کار ہیں کہ وہ صرف جواب دیتے ہیں۔ سوال صرف آدمی کے پاس ہیں۔ مصنوعی ذہانت بھی ہمارے سوالوں کے جواب دیتی ہے۔ ہمارا امتحان اب یہ ہے کہ ہم اپنے سوالوں کی حس کو زندہ رکھتے ہیں یا نہیں اور نئے، حیرت انگیز سوال اٹھاتے ہیں یا نہیں؟
نوٹ: کل پاکستان اکادمی ادبیات، اسلام آباد کی قومی تقریبِ اعزازات کی اختتامی نشست میں کلیدی خطبہ پیش کیا۔ اکادمی کی چیئرپرسن، ڈاکٹر نجیبہ عارف کا ممنون ہوں کہ انھوں نے مجھے خطبے کی دعوت دی اور عزت بخشی۔ یہ واقعی قومی تقریب تھی کہ پاکستان کی نو زبانوں کے ادیبوں کو ان کی کتب پر اعزازات تقسیم کیے گئے۔ پاکستان کی مختلف زبانوں کے ادیبوں سے ملنے، بات چیت کرنے، ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع، اس تقریب نے دیا۔ ڈاکٹر نجیبہ، سلطان ناصر اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ میں نے خطبے کے لیے، اس وقت کے اہم ترین مسئلے، سوال، موقع، خطرے کو موضوع بنایا، یعنی مصنوعی ذہانت اور انسانی تخیل۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں