حقیقی پڑھا لکھا شخص/محمد ذیشان بٹ

ہمارے محسن اور ہر دل عزیز پروفیسر فیصل جنجوعہ جو کہ ایک نامور ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے  کے کالم نگار بھی ہیں ، آج کل ایفا سکول کے پرنسپل ہیں ۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے ان کے زیر سایہ بطور مدرس کام کیا ہے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے ان کا ایک کالم پڑھے لکھے اور جاہل میں فرق پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی اور درج ذیل کچھ سطریں انہی کے احترام میں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ موضوع کے آغاز سے قبل ہی اپنی   کم  علمی  کا اعتراف بھی کر لوں ۔ آج ملک عزیز کو بنے ہوئے 75 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے آج آزادی کے وقت جیسے حالات نہیں ہیں تعلیم حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا اس وقت تھا ۔ ویسے بد قسمتی سے پاکستان میں آج تک کوئی تعلیم دوست حکومت نہیں آئی، پھر بھی بہت سے گورنمنٹ سکولز ، کالج ، یونیورسٹیاں ، ٹیکنیکل ادارے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ نجی تعلیمی اداروں کی بھی بھرمار ہے، جس میں لاکھوں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ پھر بھی میرا یہ سوال تمام نوجوان نسل اور ان کے قابل اساتذہ سے ہے کہ اگر ایک نوجوان 16 سالہ تعلیم مکمل کر لیتا ہے اور اس کی تعلیمی  اسناد گم جاتی ہیں ،یا وقتی طور پر اس کے پاس موجود نہیں ہوتیں، تو وہ کیسے ثابت کرے گا کہ وہ ایک پڑھا لکھا مہذب شخص ہے ؟ایک عام آدمی کیا جانے معاشیات کیا ہوتی ہے ؟ یا عمرانیات یا حساب کیا ہے؟ اس کی بلا سے ۔ وہ کیسے خود کو اس کشمکش سے نکالے گا کہ میں حقیقی طور پر ایک پڑھا لکھا شخص ہوں؟

ایک دانا کا قول ہے کہ علم جیسے جیسے بڑھتا ہے ویسے ویسے عاجزی و انکساری پیدا ہوتی ہے ۔ علم سے اَنا اور تکبر کم ہوتا ہے برداشت کا مادہ بڑھتا ہے تعلیم سے انسان میں محبت اور ہمدردی جیسے جذبات فروخت پاتے ہیں ،اس کے برعکس جب ہم حقیقی زندگی میں دیکھتے ہیں تو اس کے متضاد چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں، تعلیمی اداروں کے باہر اور اندر طلبہ کا آپس میں جھگڑنا، اساتذہ اور والدین کے ساتھ ان کا رویہ، 1092/1100 نمبر لینے والا بچے کا  30 سیکنڈ کے اشارے پہ نہ رُک پانا ، وقت کی پابندی ، ہمدردی اور اخلاق سے عاری نوجوان آخر یہ کیسے بتا پائے گا کہ بغیر ڈگریوں کے بھی پڑھا لکھا ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ کسی نے سچ ہی کہا تھا  کہ پڑھائی آپ کے عمل سے ظاہر ہو جاتی ہے ڈگری تو آپ کے والدین کو ان کے اخراجات پر تسلی دینے کے لیے بطور رسید دی جاتی ہے۔ ایک ماہر تعلیم کا قول ہے کہ علم آپ کو عمل کی طرف نہیں کھینچ پا رہا تو یہ صرف معلومات ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین ، اساتذہ حکومت تعلیمی اداروں کے سربراہان بچوں کی ابتدائی عمر میں تربیت کی کوشش کریں ۔اپنے عمل سے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہو اور ان کو بغیر کسی مشقت کے یہ ثابت کرنا نہ پڑے کہ وہ پڑھے لکھے ہیں اور وہ ڈگریوں کا محتاج نہ رہے، آخر میں پروفیسر فیصل جنجوعہ اور تمام اساتذہ کی قدر کرنے کی توفیق  عطا کرے تاکہ ہم ان سے فیض حاصل کر سکیں۔

Facebook Comments

محمد ذیشان بٹ
I am M. Zeeshan butt Educationist from Rawalpindi writing is my passion Ii am a observe writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply