ذہانت (12) ۔ رائے/وہاراامباکر

ہم عام طور پر خود اپنے بارے میں یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم اپنا آزاد ذہن اور رائے رکھتے ہیں۔ غیرمحسوس حربوں سے ہماری رائے پر فرق نہیں ڈالتے جب کہ اس کے ساتھ ہی ساتھ دوسروں کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں کہ انہیں آسانی سے manipulate کیا جا سکتا ہے۔ (خاص طور پر وہ لوگ جو سیاسی یا نظریاتی مخالف ہوں)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو پھر حقیقت کیا ہے؟
یہ ان دونوں کے بیچ میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جانتے ہیں کہ فیس بک پر پوسٹ ہمارے جذبات پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ لیکن کیا ہمارے اعمال پر بھی؟
ایسا ایک (متنازعہ) تجربہ 2013 میں 689,000 لوگوں پر فیس بک کے ملازمین نے کیا۔ انہیں بے خبر رکھ کر ان کی نیوزفیڈ میں کچھ ترمیم کی گئی۔ تجربہ کرنے والوں نے کچھ لوگوں سے ان کے دوستوں کی طرف سے آنے والی ایسی پوسٹس نیوزفیڈ سے کم کر دیں جن میں مثبت الفاظ تھے جبکہ منفی الفاظ والی پوسٹ نمایاں کر دیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کے ساتھ اس سے الٹ کیا۔ یعنی ایک گروپ کی ٹائم لائن پر زیادہ منفی مواد تھا اور ایک گروپ کے لئے زیادہ مثبت۔
ایسے لوگ جو زیادہ منفی الفاظ دیکھ رہے تھے، وہ خود اپنی پوسٹ میں زیادہ منفی الفاظ استعمال کرنے لگے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگرچہ ہم خود اپنے بارے میں گمان رکھتے ہیں کہ الفاظ ہمارے اپنے عمل پر اثر نہیں رکھتے لیکن ہمارا یہ گمان درست نہیں ہے۔
اس سے پہلے ایپسٹین یہ دکھا چکے تھے کہ سرچ انجن کے نتائج کی ترتیب کسی کے سیاسی خیالات پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اور ایسے کئی تجربات یہ دکھا چکے ہیں کہ ہم manipulate کئے جانے سے محفوظ نہیں ہیں۔
کیمبرج انالٹکا کا کیا گیا کام یہ بتا چکا ہے کہ ہماری شخصیت کو جانا جا سکتا ہے اور اس حساب سے مواد کو ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔
ان سب کو اکٹھا کیا جائے تو اچھا کیس بنایا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی سوچ بدلی جا سکتی ہے اور انہیں ووٹ دینے اور پیسے خرچ کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن نہیں، یہ اتنا آسان بھی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ طریقے کام تو کرتے ہیں۔ ہم لچک رکھتے ہیں لیکن موم کی ناک بھی نہیں۔ ٹھیک ٹارگٹ کیا گیا مواد فرق ڈال سکتا ہے لیکن زیادہ نہیں۔ ہم پراپیگنڈا نظرانداز کر دینے میں اور پیغام میں سے اپنی مرضی کا مطلب نکالنے میں بہت اچھے ہیں۔ ہمیں manipulate کرنے کے لئے ڈیزائن کردہ بہترین مہم بھی بڑا فرق نہیں ڈال پاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنے تو شکست کھانے والوں میں سے جو sore losers تھے، انہوں نے کئی سازشی تھیوریاں بنائیں جس میں سے ایک یہ کیمبرج انالٹکا کو بھی شکست کا ذمہ دار قرار دینا تھا۔ لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ درست نہیں ہے۔
الگورتھم کی دنیا رویوں پر کچھ اثر تو ڈال سکتی ہے لیکن فی الحال ہماری سماجی آراء کی دنیا پر قابض ہونے سے قاصر ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply