بدلہ /علی عبداللہ

پائڈ پائپر کا نام تو تم نے یقیناً سنا ہو گا ۔۔۔۔ اچانک وہ اپنے سامنے سے ایک مشہور افسانوی کتاب کو ہٹاتے ہوئے بولی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

لائبریری کے مرکزی ہال میں کچھ دیر پہلے وہ میرے سامنے والی کرسی پر آن بیٹھی تھی۔ اور وقفے وقفے سے میری جانب دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔میں فلسفے کی ایک کتاب میں مگن تھا سو اسے نظر انداز کر گیا۔ کچھ دیر بعد اس لڑکی نے مجھ سے گفتگو کا آغاز کیا اور کہنے لگی، “پائڈ پائپر کا نام سنا ہے کبھی؟”
میں چپ چاپ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا جہاں گلابی ڈورے اس کے چہرے کی کشش کو مزید بڑھا رہے تھے۔ اس نے فلسفے کی کتاب پر جو میں نے تھام رکھی تھی، نظریں گاڑتے ہوئے کہا، “جانتے ہو پائڈ پائپر نے قصبے والوں کو چوہوں سے نجات دلا کر انہیں طاعون سے بچایا تھا۔ مگر نجانے کیوں لوگوں نے پائڈ پائپر سے کیا گیا وعدہ نہ نبھایا اور بدلے میں قصبے کے ایک سو تیس بچے اس پائپر نے پراسرار ساز چھیڑ کر غائب کر دیے، جن کا سراغ کبھی نہ مل سکا۔ کیا قصبے والوں سے اتنا ظالمانہ بدلہ لینا چاہیے تھا؟
یہ کہہ کر وہ میری جانب سوالیہ انداز میں دیکھنے لگی تو اس لمحے اس کے چہرے کے تاثرات، ہونٹوں پر ماورائی مسکراہٹ اور آنکھوں کی سرخی اسے “سپارٹا کی ہیلن” بنا رہی تھی، جس کی خاطر کوئی بھی”پیرس” پورے ٹرائے کو داؤ پر لگا سکتا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا مقصد سوال کرنا نہیں بلکہ گفتگو کو مزید بڑھانا ہے۔
میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ بدلہ لینا ہر جاندار کی جبلت میں شامل ہے۔ یہ اور بات کہ ہر کوئی اپنے اپنے اختیار کے مطابق اسے سرانجام دیتا ہے۔ قصبے والوں نے معاوضہ ادا نہیں کیا تو پائپر بچوں کو لے کر چلا گیا۔ یہ اس کا حق تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، وہ مسکرا کر کہنے لگی، تو تم اس بات کے قائل ہو کہ بدلہ لینا چاہیے، چاہے وہ کوئی انفرادی شخص ہو یا پھر پوری قوم و نسل؟
بدلہ لینا حق ہے لیکن اختیار کے باوجود معاف کر دینا نہایت اعلی ظرفی ہے۔ میں نے اسے مختصر جواب دیا تو وہ جھنجھلا کر بولی، مجھے اخلاقیات کا درس نہ دو۔
بدلہ لینا ہر کسی کا حق بھی ہے اور اس کی جبلت بھی۔ بدلہ لیے بغیر چین و سکون کبھی نہیں ملا کرتا۔ جیسے کہ پائڈ پائپر یا پھر وہ یونانی جو ٹرائے کو نیست و نابوت کر گئے۔۔۔۔۔۔یا جیسے میں۔۔۔۔!
ایک شخص نے مجھ سے محبت کا دعوی کیا، عمر بھر ساتھ رہنے کا دعوی۔۔۔۔ لیکن ایک روز مجبوریوں کے نام پر وہ چپ چاپ مجھے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ مل کر اپنی فتح کے قصے سنانے لگا۔ تو پھر؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔
بدلہ تو میں بھی لے رہی ہوں۔۔۔۔ دس مردوں کو اپنی محبت میں مبتلا کر کے انہیں سسکتا چھوڑ آئی ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے کتاب اٹھائی اور کرسی دھکیل کر مسکراتے ہوئے دھیرے دھیرے لائبریری کے افسانوں والے سیکشن کی جانب بڑھ گئی۔
میں کتاب پر سر رکھے سوچ رہا تھا کہ بدلہ تو اس نے خوب لیا مگر اسے شاید علم نہیں تھا۔۔۔۔۔ وہ دس نہیں بلکہ گیارہ لوگوں کو اپنی محبت میں مبتلا کر کے واپس جا چکی تھی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply