تعارف وتبصرہ کتاب: “میری آنکھوں سے دیکھو” مصنف: فیصل عظیم تبصرہ نگار: صادقہ نصیر

زیر نظر کتاب نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے۔کتاب سے پہلے صاحب کتاب کا تعارف ضروری ہے ۔یہ کتاب ٹورونٹو میں مقیم ایک نہایت سلجھے ہوۓ فکرو خیال سے مالا مال اعلی تعلیم یافتہ نوجوان کا شعری مجموعہ ہے۔
فیصل عظیم کا مکمل تعارف یوں ہے کہ وہ صرف اس شعری مجموعے کے خالق ہی نہیں ، ایک شاعر، نثر نگار، کالم نگار ،غزل اور نظم کے علاوہ طنزیہ مضامین اور افسانہ نگار بھی ہیں۔ 1974میں کراچی میں پیدا ہونے والے اس سلجھے ہوۓ تخلیق کار نے این ای ڈی یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجئینرنگ کی ڈگری لی۔ کراچی میں ملازمت کی پھر امریکہ چلے گئے اور بعد ازاں کینیڈا چلے آئے اور یہیں ٹورونٹو میں مستقل سکونت پذیر ہیں۔پہلے سیاسی موضوعات پر طنزیہ مضامین لکھے اور پھر میلان طبع کے تحت اپنا شعری مجموعہ شائع کیا۔ ان کی دیگر ادبی خدمات بھی قابل ذکر ہیں مثلا رسالہ “اقدار” میں معاون مدیر کی خدمات انجام دیں۔ کراچی میں 2001تک مطبوعات اقدار اور “ارباب قلم پاکستان جو ساٹھ کی دھائی میں ان کے شاعر والد شبنم رومانی نے قائم کی تھی ” سے وابستہ رہے۔ اور سب سے بڑا کارنامہ جو قابل ذکرہے وہ یہ کہ2020 میں دوستوں کے ساتھ مل کر “ارباب قلم کینیڈا” کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اور ادبی موضوعات پر مکالمے اور گفتگو پر مبنی پروگراموں کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا۔


ادبی وراثت ا ور ماحول:
اس نوجوان ادیب اور ادبی خدمات سر انجام دینے والے فیصل عظیم کا تعارف فیس بک پر ان کے ادبی اور علمی پروگراموں کی وساطت سے ہوا۔اور تجسس ہوا کہ ان کے ادبی ورثے اور ماحول میں بھی کوئ خاص ہے جو کینیڈا میں رہنے کے باوجود اس نوجوان کو اس عمر میں ادب اور خاص طور پر اردو ادب سے جوڑے ہوۓ ہے۔ جبکہ اس عمر میں روزگار دنیا ہی بہت کافی ہوتی ہے تھکا دینے کو۔ آخر وہ کیا سودا دل میں سمایا ہے۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ وہ ایک بڑے ادبی خانوادے کے سپوت ہیں اور اس سلسلہ عالیہ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ قارئین کے لئے عرض ہے کہ وہ مشہور شاعر شبنم رومانی کے صاحبزادے ہیں۔ یعنی وراثتی ، ماحولیاتی اور خود ان کے اندر موجود شعلۂ تخلیق نے ان کے ادبی افق کو متمول بنا دیا۔ اگرچہ میرے خیال میں کسی بھی دوسری بڑی قد آور شخصیت کا حوالہ کسی تخلیق کار کے ساتھ نہ بھی لگایا جاۓ تو تخلیق کار خود اپنی ذات میں انجمن ہوتا ہے۔۔لیکن شبنم رومانی فیصل کے والد گرامی ہیں۔ جن کا اصل نام مرزا عظیم بیگ چغتائ جو شاہجہاں پور انڈیا میں پیدا ہوۓ اور 1950 میں انڈیا سے ہجرت کرکے کراچی میں سکونت اختیار کی۔اور یہاں آکر ادبی سرگرمیوں کو جاری و ساری رکھنے کے لئے ارباب قلم کا قیام عمل میں لائے جسے فیصل نے کینیڈا میں زندہ رکھا۔ صاحبزادے فیصل عظیم کے تعارف کے ساتھ شبنم رومانی کا تعارف دونوں کے لئے فخر ہے ۔ شبنم رومانی کے لئے خراج تحسین کہ خود ایک بلند پایہ شاعر، ادیب ، کالم نگار،اور ادب کی دنیا میں مانا ہوا نام ہے اور فیصل ان کو زندہ رکھنے والا وجود اور فرزند عظیم۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب آتے ہیں فیصل کی زیرِ تبصرہ کتاب” میری آنکھوں سے دیکھو” کی طرف ۔اس کتاب کی اشاعت اول جنوری 2006 میں ہوئی۔ اس کے طابع فیروز سنز کراچی اور ناشرمطبوعات اقدار 207 گھڑیالی بلڈنگ ،صدر کراچی نمبر ۳ ہیں۔اس کتاب کے حصول کے لئیے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔. سیل: 647 241 7401
انتساب میں ایک شعر درج ہے
سنا ہے پیاس کا دریا ہمیں سیراب کر دے گا
چلو ہم بھی چلیں قسمت آزمائی کو
پھر پروفیسر سحر انصاری کا نوٹ “روشنی کا سفر ” کے عنوان سے ہے
پیش لفظ مصنف نے دست بستہ کے عنوان سے لکھا ہے۔
نظموں اور غزلوں کے اس دلفریب امتزاج سے مزین اس مجموعے میں حمد او رایک نعت بھی شامل ہے۔ کتاب کا ٹائٹل جس جملے سے سجا ہے وہ پہلی ہی نظم ہے ” دورآسمان پر دیکھو ۔۔۔ غور کرو
وہ ایک ذرہ کہ جس کی وسعتوں کو بانٹ کر ہم نے کئی خطے بنا ڈالے۔
اس نظم میں فیصل عظیم کا گہرا غور فکر شامل ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے وہ بنی نوع انسان کی تقسیم کے دکھ سے دوچار ہیں۔اس عمر میں انسان اپنی زندگی کی ذمہ داریوں میں الجھا ہوتا ہے جبکہ فیصل عظیم ایک انسان دوست اور ا نسانیت کے عالمی دکھوں کو قلم بند کرتے نظر آتے ہیں۔دوسرے نمبر پر ایک غزل ہے وہ خواب دیکھتے اوردکھاتے ہوئے کہتے ہیں:
میری آنکھوں میں خوابوں کا نشہ ہے
یہ سرخی تم بھی آنکھوں میں سجا لو
نظم “ان کہی ” ایک عمدہ ا ور اعلی ٰپیغام ہے جو ان کے شعوری سفر اور ذہنی ارتقا کا آئینہ دار ہے۔ کم عمری میں یہ کہنا بڑی بات ہے کہ
“ لفظوں کو بے معنی کرکے
اپنے معنی آپ نکالو”
اسی طرح نظم “پردیس” بھی پڑھنے کے قابل ہے اور اپنے اندر نغمگی لئے ہوئے ہے۔ایک لائن قارئین کی توجہ کے لئیے درج ہے، “کیا ان برف زدہ لوگوں میں اب بھی پیار کی گرمی ہے”
نظم” پہچان” ایک انقلابی آواز ہے جس سے ان کی شخصیت اور خیالات اور تہذیب انسانی میں ظلم واستبداد کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کو وہ اپنے تک نہیں رکھتے بلکہ اظہار کے ذریعہ دوسروں تک پہچاتے ہیں شاید یہ ان کی نظام ظلم کے خلاف عمل کی شعوری تحریک ہے۔ اور یہ بھی لگتا ہے کہ وہ نظام ظلم کا ذمہ دار خود کو اور دوسرے انسانوں کو ٹھہراتے ہیں۔
وہ رقمطراز ہیں کہ” کس نے رکھا ہے فرعون کے سر پر تاج
کیوں نہ رکھی گئی اپنی قدروں کی لاج۔
نظم کی محض یہ لائن ہی نہیں پوری نظم شعور جگاتی نظم ہے۔
غزلوں اور نظموں کے اس امتزاجی مجموعے میں بے حد خوبصورت نظم”گوشۂ تاریک” بھی نظر میں آتی ہے۔
یہ نظم بہت اعلی درجے کے انقلابی شاعروں کی انقلابی نظموں سے کسی طور کم نہیں۔یہ نظم حقیقت میں شعوری ارتقا کے عمل کو تحریک دیتی نظم ہے۔ جو پوری دنیا کے سامراجی نظاموں، سرمایہ دارانہ نظام میں بکتے انسانوں، انصاف کے پامال شدہ میزانوں پر ضربِ کاری ہے۔اس میں صرف موجودہ حالات کو ہی موضوع نہیں بنایا گیا بلکہ تہذیبِ انسانی کی تاریخ کے جھروکوں میں جھانکتے ہوۓ یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ فرعونوں کی شاہی سے لے کر اب تک شاہ اور شہنشاہیاں تو بدلتی رہی ہیں لیکن ہر دور میں تجارت کے انداز وہی ہیں”نہیں بدلا تو اک بازار کا منظر نہیں بدلا”
قارٔئین یہ نظم جب خود مطالعہ کریں گے تو اس سے لطف اندوز ہوں گے۔
فیصل بطور شاعر کہیں انقلابی اور پر امید لگتے ہیں۔ کبھی نا امیدی کے احساسات کا اظہار کرتے ہیں اور تہذیب کے ارتقاء کے خالی پن سے نالاں ہیں۔ اپنی ایک غزل میں یوں گویا ہیں”ہمیں تو پتھروں کا دور پھر محسوس ہوتا ہے
ترقی کے ہیں عنوانات اور پستی کے منظر ہیں”
اسی طرح پردیس میں آکر گھر کی یاد میں یاسیت کا ذکر بھی ملتا ہےاس موضوع پر بھی غزل اور نظم کی صنف میں احساسات کا اظہار ملتا ہے۔
خیال آفرینی اور فکر و نظر کے ملے جلے احساسات پر مبنی ایک اور نظم “جزیروں میں بٹے لوگ”ہے۔ اس نظم کے بارے میں بتانے سے اس نظم کا لطف کم ہوگا۔ اس فکر انگیز نظم کے لئے میں اصرار کروں گی کہ اس نظم کو بطور خاص پڑھا جاۓ۔
شاعر فیصل عظیم صرف عمومی نظریات کی بات نہیں کرتے بلکہ ان خاص واقعات اور حوادث پر بھی ان کی نظر ہے جنہوں نے عالمی سیاست اور رویوں کے نقوش بدل ڈالے۔ نظم” ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا ملبہ ” ان کے تفکر کو ظاہر کرتا ہے۔
اسی طرح نظم” آقا” بھی ایک انقلابی نظم ہے جو انقلاب کے لئے ایک للکار ہے
ایک دو لائنیں” غنیمت ہے ابھی تو تخت کے پائے سلامت ہیں
میرے آقا! ابھی دربار کے سائے سلامت ہیں”
اورابھی راہ وفا میں کچھ اور ستم ہوں گے،
پھر اس کے بعد تم ہو گے، پھر اس کے بعد ہم ہوں گے”
نظم جمود بھی قابل ذکر ہے کے ارتقا کے باوجود سماج کی اونچ نیچ اور رویوں کی کشمکش ویسے ہی ہے۔
اور وہی مفکروں کے سر ہتھیلیوں کے درمیان
اس کے علاوہ بہت سی نظمیں اور غزلیں جو فیصل عظیم کی اعلی تخلیقی صلاحیتوں ،شاعرانہ کمال اور فکر اور خیال کی گہرائ کا بہترین اظہار ہے۔ان نظموں میں راستہ بنائیے،عذاب آگہی،زیرو پوائنٹ، تو کہ میں،سیاہ لباس،ہائی وے،یہاں تو رقص ہوتا ہے،زمین، کرائے کا گھر،میرے شہر کے کچے ذہنو،شاید،واپسی,تابوت میں آخری کیل،صمُُ بکمُُ، دوزخی ،ابھی ہم زندہ ہیں اور کیا کروں شکوہ۔
ایک نظم “الوداع” دانش گاہوں سے فارغ التحصیل ہر شخص کے دل کی أواز ہے جس میں دور تعلیمی کی تمام ان باتوں کا ذکر ہے جو تمام زندگی لوگوں کے دلوں کو گدگداتی رہتی ہیں اور کوئی بھی شخص ان یادوں کو نہیں بھلا سکتا۔ اس کی ایک لائن قارئین کی  نذر”یہ جو چار برسوں کا ساتھ ہے ہمیں یاد ہے”
یہ نظم فیصل نے این ای ڈی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد لکھی۔اور نہ صرف ان کے ہم عصر ساتھی اولڈ سٹوڈینٹس کو تا عمر بھاتی رہے گی بلکہ ان سے پہلے اور بعد ہمیشہ آنے والے لوگوں کو نہ صرف ناسٹیلجیا میں مبتلا کرتی رہے گی بلکہ ہر شخص کو یونیورسٹی کی حسین یادوں میں گھیرے رکھے گی۔
اس شعری صنف کے مجموعے میں فیصل صرف نظریات،فکر وعمل ، اور زمانے کے نامنصفانہ رویوں کا ذکر ہی نہیں کرتے بلکہ انسانی فطرت کے لطیف جذبات یعنی حسن عشق اور رومانس کی چاشنی سے لبریز الفاظ سے کتاب کو سجاتے ہیں۔ اس لئے زلف، لب ورخسار اور سحر چشم وصل اور فراق کا بھی تذکرہ ہے۔
ایک نظم”سیاہ لباس” سے اقتباس
غزال آنکھیں کمال چہرہ
دراز زلفیں غضب کا سہرا
ان رومانوی نظموں اور غزلوں میں بے انتہا نغمگی پائی جاتی اور اس نغمگی کو کمال فن سے قلم بند کرکے قاری کو مسحور کرنے کا کام کیا ہے۔
غرض ایک نامور، سنجیدہ اور سلجھے ہوئے شاعر فیصل عظیم نے اپنی شاعری کا مجموعہ “میری آنکھوں سے دیکھو” لکھ کر ادب کی دنیا میں ایک منفرد انداز متعارف کرایا ہے اور کم عمری میں ہی اپنے أپ کو منواکر ایک سنجیدہ اور جینوئن شاعر کی صف میں کھڑا کیا ہے۔ فیصل عظیم کو اس تخلیقی کاوش پر مبارکباد۔
صادقہ نصیر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply