جذبات کی سائنس(4-آخری قسط)-ہالیپوٹہ آفتاب

۵۔ خوف
تصور کریں ” رات کو گیارہ بجے قریبی رشتہ دار گھر میں نازل ہوجاتے ہیں۔ آپ کے گھر سے شہر کم از کم ایک کلومیٹر دور ہے۔ گھر بھی ویرانے میں ہے۔آپ کے پاس کوئی سواری بھی نہیں ہے۔ رکشے والے اتنی رات کو ملیں گے نہیں۔تبھی اچانک امّی آپکو کہتی ہیں کہ بیٹا جاؤ  شہر سے دہی لے آؤ۔ یہ سُن کر آپ کے ذہن میں شہر کی  جانب جانے والی سنسان سڑک اور پیدل سفر  کرنے کا منظر لہرانے لگے گا۔ آپ دہی لینے نکلیں گے اور جب گھر سے کافی دور پہنچیں گے ، ذہن میں عجیب سوچیں اٹھیں گی اور کبھی کبھار جسم میں سنسنی دوڑ جائے گی۔
اس وقت آپ خوف کی کیفیت سے دوچار ہوں گے ۔

خوف ایک ناخوشگوار کیفیت ہے جو درد ، نقصان اور خطرے کے امکان کو بھانپ کر طاری ہوتی ہے۔ انسانوں کا خوف زدہ ہونا دراصل کسی مخصوص محرک (stimulus) کو جواب ہوتا ہے۔ جس سے حال یا مستقبل میں ہمارا پالا پڑ سکتا ہے۔ انسان اور جانور خوف کو اپنے پرانے تجرباتی اور معلومات کے بنا پر کنٹرول کرتے ہیں، یعنی کہ آپ پہلے آگ میں ہاتھ ڈال چکے ہیں تو آپ پھر سے اس میں ہاتھ نہیں ڈال سکیں گے، کیونکہ آپ نے آگ کی گرمی کا تجربہ کرلیا ہے  اور آپ کے دماغ نے یہ بھانپ لیا ہے کہ آگ میں ہاتھ ڈالنا پُر خطر ہے۔
اسی طرح اگر آپ نے کہیں سے سُنا کہ آگ گرم ہوتی ہے اور ہاتھ ڈالنے پر ہاتھ جل جاتا ہے۔ تو آپ آگ میں ہاتھ نہیں ڈال سکیں گے،یعنی کہ انسان کا ڈر اس کے تجربات اور معلومات کا محتاج ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ” دودھ کا جلا چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے”۔
یعنی کہ اگر آپ ماضی میں کسی حادثہ کا شکار بن چکے ہیں تو پھر آپ بالکل نہیں چاہیں گے کہ پھر سے اسی حادثے کا شکار ہوجائیں۔ فرض کریں اک بچہ کنوئیں میں گرگیا اور جیسے تیسے اس کو ڈوبنے سے بچا لیا گیا، لیکن اب وہ بچہ اپنے اندر پانی کا ڈر (aquaphobia) ، اونچائی کا ڈر ( acrophobia) وغیرہ  پیدا کرلے گا۔
کچھ سروے کے مطابق انسانوں کی ایک کثیر تعداد جنوں بھوتوں سے ڈرتی ہے۔جنوں بھوتوں سے ڈرنے کی اہم وجہ منفی سوچ کو بھی ٹھہرایا جاتا ہے۔حاصل مطلب یہ کہ انسان تجربے ، معلومات اور منفی سوچ کی وجہ سے ڈرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خوف کی دو اہم اقسام ہیں۔
۱۔ ایک معلوم اشیاء کا ڈر (rational fear) یعنی آگ ، سانپ وغیرہ۔
۲۔ دوسرا نامعلوم اشیاء کا  ڈر (irrational fear) یعنی جن ، بھوت ، چڑیل وغیرہ۔
|The science of fear|
آپ گھر میں اکیلے ہیں۔ اپنے کمرے میں کتاب پڑھ رہے ہیں۔ اچانک آپ کے کمرے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ آپ چونک جاتے ہیں۔ اسی وقت fight or flight response شروع ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً آپ کی سانس تیز ہوجاتی ہے۔ مشکیں پھول جاتی ہیں اور دل دھک دھک کرنے لگ جاتا ہے۔
کچھ سیکنڈز کے بعد آپ نے یہ جانا کہ دروازہ ہوا کے تیز جھونکے کی وجہ سے کھل گیا تھا۔لیکن ایک وقت کے لئے آپ ڈر گئے تھے ، آپ کا جسم fight or flight response کو تیار کرنے لگ گیا تھا۔ جو کسی جانور کے سروائیول کے لئے انتہائی اہم ہے۔ fight or flight response کو آسان الفاظ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ” یہ کسی جانور کو لڑنے یا بھاگنے کے لئے تیار کرتا ہے۔”
Flight or flight response دراصل amygdala میں شروع ہوتا ہے جو بادام جیسا نیورانز کا بنڈل ہوتا ہے۔ جو limbic system کا حصہ ہوتا ہے۔
لمبک سسٹم دماغ کے اس حصے کو کہا جاتا ہے۔ جس کا کام خوف یا دیگر انسانی جذبات پروسیس کرنا ہے۔یہی amygdala اس قابل ہوتا ہے کہ وہ hypothalamus(ہائپو تھیلیمس کا کام ہارمونز کا خارج کرنا ہے) کو سرگرم کرسکے۔ اس کے بعد ہائپوتھیلیمس pituitary gland کو سرگرم کرتا ہے۔ تاکہ پچوئیٹری غدود خون میں adrenocorticotropic (ACTH)
ہارمون کا اخراج کرسکے۔
اس وقت sympathetic nervous system( نروس سسٹم کا وہ حصہ جو فائٹ آر فلائٹ سسٹم کا ذمہ دار ہے)۔اڈرینل غدود کو خون میں epinephrine ہارمون خارج کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
یہاں انسانی جسم adrenocorticotropic ہارمون کے ردعمل میں cortisol بھی خارج کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے شگر اور بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔خون میں cortisol کی گردش جسم میں موجود چربی کو توانائی میں تبدیل کردیتی ہے۔ تاکہ مشکیں اس توانائی کو استعمال کرسکیں۔catecholamineہارمونز یعنی epinephrine اور norepinephrine مشکوں (muscles) کو تیار کرتے ہیں تاکہ ہنگامی ایکشن لیا جا سکے۔
یہ ہارمونز دل اور پھیپھڑوں کو تیز کردیتے ہیں ، معدے اور آنتوں کے کام کو سست کردیتے ہیں۔ دماغ کا hippocampus نامی حصہ جس کا کام یاداشت کو اسٹور کرنا ہے۔
وہ اپنی یاداشت (تجربہ) کی مدد سے خوف کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ یہ ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے کہ ہم جس چیز سے ڈر رہے کیا وہ واقعی ڈرنے لائق ہے یا ہم خوامخواہ overreact کرگئے ہیں۔
خوف کی طرز کا تعین کرنے کے بعد hippocampus مزید اقدامات کرتا ہے۔یعنی کہ اگر کوئی ڈرنے لائق چیز نہ  ہوئی تو وہ amygdala کی ایکٹیویٹی کو کم کردیتا ہے۔ اور ہم نارمل ہوجاتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply