الحادی اخلاقیات؛ شکوک و شبہات/عزیر سرویا

اخلاقیات کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اخلاقی رویے ارتقائی سائنس اور بائیولوجی میں اپنی بنیاد رکھتے ہیں۔ ارتقاء کو فقط سروائیول/بقاء سے غرض ہے، اسپی شی کے افراد کی آپسی ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد و تعاون کرنے کا جذبہ انہیں ماحول میں باقی رہنے یعنی سروائیو کرنے میں مدد دیتا ہے۔ مثلاً چمپینزی قبیلے کا ایک بوڑھا فرد جب شکاری کو آتا دیکھ کر آواز نکال کر دیگر کو ہوشیار کرتا ہے؛ یوں قبیلہ تو بچ جاتا ہے لیکن وہ فرد خود شکار بن جاتا ہے۔ اپنے ہم جنسوں کے لیے قربانی کا یہ جذبہ اور ہمدردی ہی اخلاقیات کی اصل بنیاد ہے۔ جو ارتقائی پراسیس کی دین ہے۔

مزید یہ کہ انسان نے ارتقا ہی سے یہ شعور حاصل کیا ہے کہ انفرادی مفادات کا بہترین تحفظ اسی بات میں ہے کہ اجتماعی مفادات کا تحفظ ہو۔ مثلاً کوئی شخص زبردستی کسی کمزور سے مال چھین کر قبضہ کر لے تو وقتی مفاد ضرور حاصل کر لے گا لیکن ہر وقت خود بھی اس خوف میں مبتلا رہے گا کہ کوئی طاقتور اس کے مال پر قابض نہ ہو جائے۔ سو اگر کوئی بھی ایک دوسرے کا مال نہ چھینے تو سب کا مفاد محفوظ رہے گا۔ یہی شعور اخلاقیات اور پھر آگے بڑھ کر قانون/عدل کی بنیاد ہے۔

—————————————————————
پچھلے دنوں الحاد کا ایک بڑا بابا ڈینیئل ڈینیٹ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اس کی باتیں یہیں رہ گئیں جن میں سے چند اوپر ذکر کی ہیں۔ یہ خدا بے زار دوستوں کا متفق علیہ بیانیہ ہے کہ ان کے پاس اخلاقیات کا اپنا نظام موجود ہے جو کسی مذہب یا خدا سے حاصل شدہ نہیں۔ اس بیانیے کا پوسٹ مارٹم نہایت آسان ہے، میرے کچھ دوستوں کو ان دلائل سے شکوک پیدا ہوئے تو میں نے سوچا کچھ لکھ دیا جائے۔

نوٹ فرما لیں کہ اخلاقی رویہ بنیادی طور پر “خیر” اور “شر” میں امتیاز کرنے کی صلاحیت اور پھر اس شعور کے تحت اپنے ارادے سے خیر پر عمل کرنے اور شر سے خود کو بچانے کا نام ہے۔

جب ایک چمپینزی شکاری کو دیکھتے ہی اعلان کر کے قبیلے کو ہوشیار کرتا ہے تو وہ ایک میکانکی عمل (جبلی فطرت) کے تحت یہ کر رہا ہوتا ہے۔ فرض کر لیں کہ وہ شعوری طور پے دوسروں کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی قربانی دے رہا ہے، تو اس عمل کی نیت پھر بھی خالصتاً قبیلے کی “سروائیول/بقاء” ہی ہے، نہ کہ خیر و شر کا کوئی آفاقی تصور۔

ذرا سوچیں کہ جب کوئی انسان سچ بولتا ہے، دھوکہ دہی سے بچتا ہے، کسی کا نقصان کرنے سے خود کو روکتا ہے، تو کیا وہ “انسانی نسل کی بقاء” بارے سوچ رہا ہوتا ہے؟ کیا اس کے شعور میں اپنے قبیلے کی حفاظت کا خیال چل رہا ہوتا ہے؟ دراصل اس کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ سچ بولنا چاہیے، دھوکہ نہیں دینا چاہیے اور کسی کا نقصان نہیں کرنا چاہیے بھلے اس سے کوئی ذاتی دنیاوی مفاد نہ بھی ملتا ہو۔

لیکن ایک لمحے کو تصور کر لیں کہ واقعی چمپینزی حضرات ہمارے آبا و اجداد ہیں اور یہ قبیلے کی سروائیول والی جبلت ہی دراصل تراش خراش کے بعد ہماری اخلاقیات کی بنیاد بن گئی ہے۔ کہہ لیں کہ سروائیول یا بقاء والا محرک شعوری سطح نہ سہی لیکن لاشعور میں چلا گیا ہے۔ کہہ لیجیے کہ انسان نے ایک دوسرے کا خیال دراصل اس لیے رکھنا شروع کر رکھا ہے کہ اجتماعی بقاء میں ہی انفرادی بقاء ہے بھلے اخلاقی کام کی یہ موٹیویشن شعور میں نہ بھی آئے لیکن “وِچلی گَل” یعنی اندر کی بات یہی ہے۔ اور ان کاموں کا اصل محرک کوئی آفاقی خیر و شر کی تعریف نہیں ہے۔

تو اگر سروائیویل ہی اصل موٹیویشن یا محرک ہے اور ہر برائی سے لوگ صرف اسی لیے رکے ہوئے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی ایسا نہ کرے، اور اپنی ذات یا اپنے قبیلے کے علاوہ کوئی محرک اچھائی کا نہیں ہے تو اس سے جو دنیا تشکیل پاتی ہے اس کے افراد کی مثال ان گوریلوں کی سی ہے جن کا ایک گروہ باقاعدہ دوسرے سے جنگ کر کے ان کا قلع قمع کرتا ہے لیکن اپنے قبیلے کی بقاء کے لیے جان کی بازی تک لگا دیتا ہے۔ یعنی انسانوں میں قبائلی عصبیت جسے ٹرائبل ازم بھی کہتے ہیں (اپنے قبیلے کے سہی یا غلط ہر موقف پر لڑنے مرنے قربان ہونے کا رویہ) دراصل اس جبلی سروائویل والی فطرت کا اصل اظہار ہے۔ اس جبلی عمل سے اخلاقیات نہیں بلکہ جانوروں کے گروہ جیسی بربریت برآمد ہوتی ہے۔ جو کہ اس وقت دنیا میں دیکھی جا سکتی ہے کہ کیسے ایک گروہ مشرق وسطی میں دوسرے کو دبا رہا ہے ظلم کر رہا ہے۔

پھر دیکھیے کہ اگر انسان وحشی بننے سے بس اسی لیے رکا ہو کہ اسے ڈر ہو کہ اس کے ساتھ بھی کوئی دوسرا یہی کرے گا؛ تو ایک خاص حد تک طاقتور ہونے کے بعد یہ ڈر ختم ہو جاتا ہے۔ پھر ایسی قوم یا گروہ ہر زیادتی و ظلم کھل کر کرتا ہے (مثال امریکہ بہادر) اس بات سے آزاد ہو کر کہ خیر و شر کی اپنے میرٹ پر اہمیت ہے۔ کوئی اسے پوچھنے والا تو ہوتا نہیں، اپنی طاقت کی وجہ سے اسے نقصان کا اندیشہ ختم ہوتا ہے تو وہ جانور بن جاتا ہے۔ پھر ابو غریب سے لے کر ملکوں کے ملک وہ ملیا میٹ کرتا ہے لیکن کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

غور کیجیے کہ الحادی اخلاقیات دراصل ایک جملے میں “جس کی لاٹھی اس کی بھینس” میں سما سکتی ہے۔ یہ طاقتور کی لونڈی اور جابر کے جبر کو جواز دینے کے لیے موجود ہے۔ سروائیول آف دا فیٹسٹ اور ارتقاء سے نکلنے والے پہلے نظریات (ناٹزی ازم وغیرہ) کی طرح یہ بھی ایک ظلم کے نظام کی داغ بیل ڈالتی ہوئی “اخلاقیات” ہے۔ تو اگر ہم مان لیں کہ مذہب کا اخلاقیات سے تعلق نہیں اور ملحدوں کے پاس اپنی اخلاقیات ہے، تو پھر ایسی اخلاقیات سے ہم دور ہی اچھے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply