افسانۂ غار/ڈاکٹر مختیار ملغانی

اساطیر میں سب سے اہم اسطورہ جس کا فلسفیانہ بیانیے میں بارہا ذکر ہوتا آیا ہے وہ افلاطون کا افسانۂ غار ہے، اس کے بے دریغ استعمال کا نقصان یہ ہوا کہ اس کی گہرائی نظر انداز ہوتی چلی گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

افسانۂ غار کے مطابق ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں یہ حقیقی دنیا نہیں بلکہ یہ ایک سراب ہے، سایہ ہے. جو کچھ ہم پہ آشکار ہے یہ سب فریب ہے۔ لیکن ہم غور وفکر اور تخیل کی گہرائی سے اس فریب سے نکل کر حقیقی دنیا یا کاملیت کا راستہ پا سکتے ہیں، مگر یہ راستہ جو انسان کو بلندی کی طرف لے جاتا ہے وہ کرب و غم ، تکالیف اور دکھ درد سے بھرا ہے۔ سادہ الفاظ میں ہم علم کی مدد سے ہی اندھیروں سے نکل کر روشنی کو پا سکتے ہیں جس کیلئے غیر معمولی سعی درکار ہے۔
یہاں پہلا سوال یہ ہے کہ مزکورہ روشنی کا پانا کیا ہر شخص کیلئے ضروری ہے یا ایسی سعی کیلئے فطرت مخصوص افراد کا انتخاب کرتی ہے؟
غالب گمان یہی ہے کہ افلاطون کسی طور اس روشن فکری کو اکثریت پہ آشکار نہیں کرنا چاہتے، اس کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ اس افسانے کو انہوں نے جن تمثیلوں اور اشاروں میں لکھا وہ عام آدمی کے بس کا روگ نہیں، پیغام یہی دیا کہ ان کی زبان اور استعارے صرف خواص کیلئے ہیں، ایسے ہی جیسے کوئی کیمیاگر سیماب کو قائم النار کرنے کا نسخہ لطیف بلکہ گھمبیر اشاروں میں بتاتا ہے۔
دوسری طرف وہ اپنی کتاب، ریاست، میں اقتدار کو فلسفیوں کے ہاتھ میں دیکھنا چاہتے ہیں، تاکہ چند روشن فکر اقلیت تخت پہ براجمان ہوں جو تنگ جبیں اکثریت کو اسی غار کے سراب، فریب اور تاریکی میں رکھے، اس فریب اور تاریکی کا مقصد اکثریت کو تابعداری پہ قائم رکھنا ہے۔ یہاں بھی یہی اشارہ دیا گیا کہ روشن فکری کو صرف مخصوص ذہنوں تک محدود رہنا چاہئے، اور کیا ہی عجیب اور دلفریب حادثہ ہے کہ مغرب میں نشاۃ ثانیہ کے وقت اس روشن فکری کو، افلاطون کے برخلاف، اقلیتی حلقوں سے نکال کر اکثریت تک پھیلانے کی کوشش کی گئی۔
سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ روشن خیالی صرف خواص تک محدود رہنی چاہئے یا اس کا پھیلاؤ ہر چھوٹے بڑے ذہن تک ہونا چاہئے ؟
افلاطون کے مطابق یہ تمام لوگ جو غار میں رہ رہے ہیں، وہ ہمیشہ سے وہیں پر تھے، تو پھر یہ کون ہے جو انہیں اندھیرے میں رکھے ہوئے ہے ؟ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی پیدائش ہی غار میں، اندھیرے میں، ہوئی۔ گویا کہ انسان کی پیدائش فریب اور تاریکی پر ہے اور وہ سب اس تاریکی اور سراب میں بظاہر خوش باش ہیں کیونک خود آگہی کی روشنی سے کبھی ان کا سامنے نہیں ہوا کہ قسمت چندھیائی جائے، آنکھوں کو اس کرب سے آخر گزارا ہی کیوں جائے؟
یہی سوال اہم ہے کہ تمام عمر غار کے اندر غفلت کی اس نیند میں خوش رہا جائے یا پھر آئینۂ ہستی کو باہر کی روشنی سے ٹکرا کر ، فریب کو چکنا چور کرتے ہوئے ان کرچیوں سے روح و بدن چھلنی کروایا جائے ؟
یہاں اس سے آگے کا سوال یوں ہوگا کہ وہ چند ایک جو اس غفلت سے بیدار ہوتے ہیں، وہ کون ہیں ؟
یعنی پہلا شخص یا پہلے دو چار بیدار ہونے والے لوگ کون ہیں؟
کیا یہ کوئی خاص انسان ہیں، کیا ان میں کچھ ایسی صلاحیتیں ہیں جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں؟ یہ کہیں ایسے افراد تو نہیں جو کرب کے متلاشی ہوں، یا پھر ان میں سے کسی کو غیر معمولی خواب تو نہیں آتے جس کے بل بوتے پر وہ باہری دنیا کا عندیہ دیتا ہے؟
یہ ذہنی مریض بھی تو ہو سکتے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ فطرت کے یہ خاص اور چنیدہ بندے ہوں اور انہیں اس تاریک غار میں بھیجا ہی اس لئے گیا ہو کہ باقیوں کو تاریکی سے نکالیں ؟
اگر ایسا ہے تو پھر یہاں وہی پہلا سوال دہرایا جائے گا کہ یہ چنیدہ بندے سب کو اجالے میں لانا چاہتے ہیں یا مخصوص اقلیت کو کہ جن کی مدد سے باقیوں پر حکومت کی جا سکے ؟
فسانۂ غار کی تصویر کچھ یوں کھینچی گئی ہے کہ غار کے اندر قیدی ہیں جن کے پیروں میں بیڑیاں اور گردن پہ طوق ہیں، وہ غار کے اندر دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہیں، اٹھنے سے قاصر ہیں، گردن بھی نہیں ہلا سکتے، ان کے پیچھے ایک چھوٹی سی دیوار سی ہے، دیوار کے دوسری طرف کچھ فنکار قسم کے لوگ اپنے کندھوں پر مجسمے، کھلونے اور دوسری مصنوعی اشیاء لادے ایک قطار میں جا رہے ہیں، ان فنکار قسم لوگوں کے دوسری طرف آگ جل رہی ہے، اس آگ کی وجہ سے اس دیوار پہ سایہ بن رہا ہے جس پر ان قیدیوں کی نظریں ہیں، یہ سایہ ان مجسموں اور دوسری مصنوعی اشیاء کا ہے جو ان فنکاروں نے اپنے سروں اور کندھوں پہ اٹھا رکھی ہیں، خود فنکاروں کے جسموں کا سایہ دیوار پہ اس لئے نہیں کہ قیدیوں اور فنکاروں کے درمیان ایک اور دیوار سی حائل ہے، چونکہ سروں پہ لدی اشیاء اس دیوار سے زیادہ بلند ہیں اسی لئے آگ کی بدولت صرف انہی کا سایہ قیدیوں کے سامنے دیوار پہ دکھائی دے رہا ہے، یہی سایہ قریب ہے سراب ہے عکس ہے، غور کیجئے کہ یہ حقیقت کا عکس بھی نہیں، بلکہ مصنوعی اشیاء کا عکس ہے گویا کہ عکس کا عکس ہے، یعنی غفلت اور فریب کی تصویر تہہ در تہہ پیش کی گئی ہے ۔
نجانے کیوں اور کیسے کسی ایک قیدی کے بند کھلتے ہیں، طوق ٹوٹتے ہیں، اسے اٹھنے کا کہا جاتا ہے، اب وہ گردن بھی موڑ سکتا ہے، آگ کی روشنی کو دیکھ کر حیران بھی ہے اور آنکھوں میں چبھن بھی محسوس کرتا ہے۔
افلاطون ہمیشہ ہمارے ساتھ سقراط کی مدد سے ہم کلام ہوئے ہیں، ان کا مرکزی اداکار سقراط ہے ، اس افسانے میں بھی سقراط ہی اپنے مصاحب سے گفتگو کر رہے ہیں اور اس فلسفیانہ غار کی بھول بھلیوں کو کھول رہے ہیں ، یہاں ایک بڑا لطیف اشارہ دیا گیا کہ یہ جو پہلا شخص بیڑیاں اور طوق اتار کر کھڑا ہوگیا ہے ، یہی اصل میں سقراط ہے، اور وہ جو اسے ان بیڑیوں اور طوق سے آزاد کر کے گردن گھمانے اور روشنی دیکھنے کا کہہ رہا ہے وہ بھی سقراط ہے، یہاں سقراط کی دوئی بیان کی گئی اور یہی کیمیا گروں والی پیچیدگی ہے، البتہ یہ اشارہ خوب دیا گیا کہ سقراط چونکہ خداوند اپالو کا چنا ہوا ہے، لہذا جو بھی پہلا شخص غفلت سے بیدار ہوگا وہ آسمانی طاقتوں کا علمبردار شمار کیا جائے گا ۔
اب یہ شخص آگ کی روشنی سے آنکھوں میں درد محسوس کرتا ہے اور واپس اپنی پہلی حالت میں آنے کو دوڑتا ہے، یعنی اسی غفلت میں جہاں دیواروں پر مصنوعی اشیاء کے سائے حرکت کر رہے ہیں، گویا کہ خود شعوری کی طرف پہلا قدم اس حد تک تکلیف دہ ہے کہ انسان واپس اسی کوکھ کو دوڑتا ہے جہاں پڑا پڑا گل رہا تھا، لیکن بیدار کرنے والا شخص اسے گردن سے پکڑ کر بلندی کی طرف گھسیٹتا ہے جہاں اس کا سامنا اب سورج کی روشنی سے ہے، سقراط ہی سقراط کو گھسیٹ رہا ہے، فرد خود ہی اپنی قوت ارادی سے فریب سے آزاد ہو سکتا ہے، بیرونی طاقت اسے مجبور نہیں کر سکتی۔
پہلے آگ کی مدھم روشنی اور پھر سورج کی تیز روشنی یہ بتا رہے ہیں کہ خود شعوری کا سفر آہستہ آہستہ شروع کرنا چاہئے، پہلا قدم چھوٹا ہو تو زیادہ بہتر ہے، اچانک ہی گھپ اندھیرے سے تیز روشنی میں لگائی گئی چھلانگ آنکھوں کو اندھا کر سکتی ہے۔
روشنی میں آنے کے بعد باہر کی دنیا کو وہ قریب سے دیکھتا ہے اور پہچان چکا ہے کہ جیسے آگ کی مدد سے غار کی دیوار پر اشیاء کے سائے نظر آتے تھے، ایسے ہی سورج کی روشنی اس بیرونی دنیا کی تصویر بناتی ہے جو نظر آرہی ہے، یہاں سابقہ تجربات کی مدد سے آگے بڑھنے کا بتایا جا رہا ہے۔
اس سٹیج پر یہ آزاد آدمی اب اپنے پرانے ساتھیوں بارے سوچتا ہے جو اندھیرے میں بیٹھے دیوار پہ چلتے سایوں کو گھورنے میں مصروف ہیں، کیا انہیں جا کر بیدار کرنا چاہئے اور حقیقت کی روشنی میں لانا چاہئے ؟
اگر وہ روشنی سے واپس اندھیرے میں جاتا ہے تو اس کی آنکھیں کچھ دیر کیلئے دیواروں پر چلتے سائے کو دیکھنے سے قاصر ہوں گی، اسے کچھ نظر نہ آئے گا، ایسے میں اس کے دوست اس پہ ہنسیں گے، اس کا مزاق اڑائیں گے، یہاں بڑی خوبصورتی سے اشارہ دیا گیا کہ باشعور اور ذہین آدمی اگر احمقوں کے درمیان جا پھنسے تو مزاق کا نشانہ بنے گا، تضحیک کی جائے گی، جملے کسے جائیں گے، گویا کہ خدا کے چنیدہ باشعور افراد کیلئے سماج میں وقت بڑا کٹھن گزرتا ہے کہ اکثریت تاریکی میں بیٹھے خودفریبی کا شکار ہیں۔ سقراط کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
تو سوال پھر سے دہرایا جائے گا کہ ساتھیوں کو شعور کی روشنی میں لانے کیلئے کیا واپس غار کی تاریکی میں اترا جائے یا نہیں ؟
اگر تو آپ کا تعلق سیاست سے ہے تو پھر واپس اترنا بے وقوفی ہوگی، ان اندھوں کو ان کے حال پہ چھوڑ دیا جائے کہ اس طرح ان پر قابو پانا آسان ہے، لیکن اگر آپ علم و شعور کی دنیا کے آدمی ہیں تو واپس اترنا اور دوسروں کو جگانا آپ کا فرض ہے، ایسے میں بس یہ یاد رہے کہ تضحیک، طنز ، غربت اور کرب و بلا کا سامنا اس انتخاب کا لازمی جزو ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply