• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پوسٹ مارٹم (نواز شریف واپس آرہے ہیں  / جاوید چوہدری)۔۔ارشد غزالی

پوسٹ مارٹم (نواز شریف واپس آرہے ہیں  / جاوید چوہدری)۔۔ارشد غزالی

بد قسمتی سے ہمارے ملک کا المیہ یہ  ہے کہ یہاں صحافیوں کو کھلی چھوٹ ہے کہ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے جو دل چاہے کہہ  دیں, پراپیگینڈہ کر لیں, مخصوص بیانیہ بنا کر عوام کی ذہن سازی کریں, فوج اور ملکی سلامتی کے خلاف خبریں, تجزیے اور رائے دے کر اس سب کو آزادی اظہار کا نام دیں, ایسے تحفےصرف ریاست پاکستان میں ملتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اگر ان کو جواب دیا جائے, ریاست کوئی کارروائی کرے یا درست حقائق سامنے لائے جائیں تو آزادی صحافت کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کے صف اول کے صحافی, کالم نگار اور میزبان جاوید چوہدری صاحب کی علمیت اور قابلیت پر کسی کو کوئی شک نہیں, یہ سیلف میڈ انسان ہیں, ان کے کالم اور تجزیے بےحد مقبول بھی ہیں اور نوجوان لکھاریوں کے لئے ماڈل بھی مگر بعض اوقات شاید مایوسی اور نا امیدی کی حالت میں وہ حکمت کے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈبکی لگا کر ایسے ایسے نادر اور نایاب موتی نکال لاتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔

چودھری صاحب اپنے 28 دسمبر کے تازہ ترین کالم “نواز شریف واپس آرہے ہیں” میں کچھ ذاتی خواہشات اور ایک مخصوص بیانئے کو پروموٹ کرتے نظر آتے ہیں جن کا ہم باری باری جائزہ لیتے ہیں, کالم کی ابتداء میں وہ نارکوٹکس کنٹرول کے وفاقی وزیر اعجاز شاہ صاحب کےحوالے سے فرماتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بچوں کو کہا کہ کسی پرسکون ملک میں جا کر آباد ہوجائیں پاکستان کے حالات ٹھیک ہونے کا امکان نظر نہیں آرہا, چوھدری صاحب اس بات کے پیچھے یہ منطق بیان فرماتے ہیں کہ اعجاز شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے فوج میں کمیشن لیا تب ڈالر ساڑھے تین روپے کا تھا آج ایک سو اٹھتر روپے کا ہے لہذا یہ معیشت کیسے چل سکتی ہے اور حالات کیسے ٹھیک ہوسکتے ہیں۔

اعجاز شاہ صاحب نے فوج میں 1966 سے 2004 تک مختلف عہدوں پر فرائض سرانجام دئیے, ڈالر 1956 سے 1971 تک 4.76 روپے پر رہا چلیں سوا ڈالر کے گھپلے کی تو خیر ہے مگر 1966-67 کے دور کے پونے پانچ روپے کے ڈالر کا تقریباً آدھی صدی کے بعد موجودہ دور میں ڈالر کی 178 روپے قیمت سے موازنہ بلاشبہ چوھدری صاحب کا اکنامکس کی فیلڈ میں صدیوں تک یاد رکھا جانے والا عظیم الشان کارنامہ ہے اور قوی امید ہے اگلے سال پاکستان تیسرے نوبل پرائز کا حقدار ٹھہرے, کمال یہ ہے چوھدری صاحب نے یہ بھی نہیں بتایا کہ پچھلی حکومت نے ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طور پر کنٹرول رکھ کر معیشت کی تباہی کی۔ نہ  ہی یہ بتایا کہ ماضی کی حکومت کتنے ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چھوڑ کر گئی تھی، نہ  ہی درامدات اور برامدات کا فرق بتایا, نہ  ہی زرمبادلہ کےذخائر کا اور نہ  ہی یہ کہ ان سمیت بہت سی وجوہات ڈالر کے ریٹ میں اضافے یا کمی کا باعث بنتی ہیں, تحریک انصاف کو جب حکومت ملی اور اس نے ڈالر کو فری مارکیٹ پر چھوڑا تو یہ طے شدہ بات تھی کہ ڈالر کی قیمت بڑھے گی جس کی وجہ موجودہ حکومت سے زیادہ اوپر بیان کردہ ماضی کی حکومت کے معاملات اور پالیسی تھی مگر چوھدری صاحب کا زور صرف اس بات پر رہا کہ حکومت ڈالر کو کنٹرول نہیں کرپائی اس لئے خدانخواستہ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔

آگے چوھدری صاحب پیالی میں طوفان اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں مولانا صاحب کے بلدیاتی انتخابات میں اپ سیٹ کی وجہ سے خان صاحب نے صوبائی تنظیمیں توڑ کر بلدیاتی الیکشن کے امور اپنے ہاتھ میں لے کر گویا استروں کی مالا اپنے گلے میں ڈال لی ہے اور اب اگر اگلے مرحلوں میں تحریک انصاف ناکام ہوتی ہے تو حکومت کرنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا اور یہ وزیراعظم صاحب کی ہار سمجھی جائے گی۔

یعنی عمران خان بطور سیاسی پارٹی کے سربراہ اگر اپنی ٹیم سے مطمئن نہیں اور وہ اپنے ورکرز اور عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اس ٹیم کو ختم کر کے نئی ٹیم تشکیل دیتے ہیں اور اس کے بعد بھی ہار جاتے ہیں تو یہ وزیر اعظم کی ہار ہوگی اور بلدیاتی الیکشن میں ہار کی وجہ سے اب انھیں صوبائی اور قومی حکومتیں چلانے کا بھی حق نہیں ہو گا, ماشااللہ دل گارڈن گارڈن ہوگیا چوھدری صاحب کا تجزیہ اور رائے پڑھ کر یعنی کمال کا بیانیہ ہے یہ جانتے ہوئے کہ اس لیول کے بلدیاتی الیکشن پر سیاسی پارٹی سے زیادہ ذاتیں اور برادریاں اثر انداز ہوتی ہیں نیز عمران خان اس سسٹم کا شخص نہیں ہے اس کی ٹیم اور ارد گرد لوگوں کی اکثریت سیاسی ہے نہ کہ نظریاتی اور تب بھی وہ اس ملک اور عوام کی بہتری کے لئے کوشاں ہے اور ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے سے واپس بہتری کی طرف لانے سے ٹیکسٹائل و زراعت تک اور ڈیموں سے زرمبادلہ اور برمدات میں اضافے تک بے شمار ایسے اقدامات کر رہا ہے جس کے اثرات اتنے مختصر عرصے میں سامنے آنا ممکن نہیں مگر چوھدری صاحب بلدیاتی الیکشن کی ہار کی صورت میں یہ فیصلہ صادر فرما رہے ہیں کہ اس کا مطلب ہوگا کہ حکومت اور عمران خان ناکام ہوگئے ہیں اور بلدیات کی ہار کی وجہ سے انھیں تمام صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو بھی چھوڑ دینا چاہئے سبحان اللہ.

یہاں تک کے کالم میں چوھدری صاحب نے ایک مخصوص بیانیہ اور اپنی خواہشات بیان کیں مگر کالم کے اگلے حصے میں کمال کردیا, محترم فرماتے ہیں کہ کابینہ اور وزیراعظم نے اعتراف کرلیا کہ نواز شریف کی نااہلی ہٹوانے کے راستے نکالے جارہے ہیں اس اعتراف سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کی مٹھی سے حکمرانی کی ریت پھسل رہی ہے حالانکہ کسی دور دراز “پنڈ” میں رہنے والا ان پڑھ دیہاتی بھی جو سوشل میڈیا استعمال کرتا ہو وہ جانتا ہے سپریم کورٹ بار کی تاحیات نا اہلی کے خلاف رٹ کا معاملہ چل رہا ہے نیز نون لیگ اور مخصوص صحافیوں کی طرف سے نواز شریف کی واپسی کا گراؤنڈ بنایا جارہا ہے کیونکہ وہاں ان کے مزید اسٹے کا فیصلہ جلد آنے والا ہے جو کہ امکان ہے ان کےخلاف  آئے گا ایسی صورت میں ان کے پاس سیاسی پناہ اور بزنس ویزہ اپلائی کرنے کا آپشن رہ جائے گا مگر برطانیہ کے قانون میں سیاسی پناہ کی درخواست میں یہ کالم موجود ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے ملک میں سزا یافتہ ہو تو وہ اس کیٹگری میں اپلائی نہیں کر سکتا اسکے بعد صرف بزنس ویزے کا اپشن باقی رہ جاتا ہے اور اگر فرض کر لیں بزنس ویزہ اور سیاسی پناہ دونوں آپشن بھی کھلے ہوں تو ان کے استعمال کی صورت میں نون لیگ پاکستان میں قصہ پارینہ بن جائے گی اس لئے ڈیل یا ڈھیل کے لئے کوشش کی جارہی ہے اور ایسا بیانیہ ترتیب دیا جارہا ہے جس سے اندازہ ہو کہ میاں صاحب ملک و قوم کی حالت سدھارنے اور انقلاب لانے کے لئے واپس آرہے ہیں۔

چوھدری صاحب نے زمینی حقائق سے ہٹ کر اس بیانئے میں زور پیدا کرنے کے لئے اگلی چھلانگ لگائی اور مذکرات کے کئی لیول ہونے کی شدنی چھوڑ دی اور تین ملکوں کے گارنٹر تک بیچ میں ڈال دیے چوھدری صاحب کے کالم کے سب سے “ایسکلیوزو” جملے پڑھیے اور سر دھنیے کہ “خاندان اور پارٹی میں میاں نواز شریف، اسحاق ڈار اور حسین نواز کے علاوہ کوئی شخص ان مذاکرات کے بارے میں نہیں جانتا” یعنی کہ مریم نواز, شہباز شریف پورا شریف خاندان, پوری نون لیگ ان مذاکرات کے بارے میں نہیں جانتی مگر جاوید چوھدری صاحب کو ساری تفصیلات کا علم ہے یعنی ان کا سورس میاں صاحب, حسین نواز یا اسحاق ڈار ٹھہرے اور چوھدری صاحب ان کا بیانیہ پرموٹ کر رہے ہیں جس کی صداقت کا فی الحال کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اور چونکہ اس بات کو ثابت کرنا ممکن نہیں اس لئے اپنی بات میں وزن کے لئے چوھدری صاحب دلائل دیتے ہوئے تین وجوہات بیان فرما رہے ہیں اور تینوں ایک سے ایک کمال ہیں, پہلی وجہ یہ ہے کہ ملک معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اگر انڈیا حملہ کر دے تو ملک کہاں کھڑا ہوگا چنانچہ اتنے نازک وقت میں مذاکرات ضروری ٹھہرے جب کہ حقیقت میں انڈیا سے جنگ کی صورت میں پاکستان کے پاس سوائے جوہری جواب کے کوئی آپشن نہیں یہ بات پورا پاکستان بلکہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے پاس ایسی کوئی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس سے پتہ چل سکے کہ اگر انڈیا نے کوئی میزائل فائر کیا ہے تو وہ عام میزائل ہے یا جوہری ایسی صورت میں لامحالہ پاکستان کا پہلا اپشن ہی آخری آپشن ہوگا, مطلب ایک ہوائی فائر وہ بھی چھرے والی پستول سے کہ “اگر” دو ایٹمی طاقتوں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ چھڑ جائے تو پاکستان کہاں کھڑا ہوگا اس لئے بہت نازک وقت ہے تو مذاکرات ضروری تھے یعنی جنگ ناں ہوئی گلی میں گامے اور شیدے کی لڑائی ہوگئی جو بلا مقصد شروع ہوسکتی ہے وہ بھی فل اسکیل جنگ یہ جانتے ہوئے کہ اس کا مطلب دونوں ممالک کی مکمل تباہی ہوگا۔

دوسری وجہ چوھدری صاحب یہ بیان فرماتے ہیں کہ نون لیگ یا میاں صاحب کے پاس ” خفیہ کالز اور ویڈیوز کا ٹھیک ٹھاک خزانہ بھی موجود ہے اور یہ درجنوں ایسے ریاستی رازوں سے بھی واقف ہیں جن کا اعتراف ریاست کو لے کر بیٹھ جائے گا لہٰذا فیصلہ ساز قوتوں کو محسوس ہوا ہم نے اگر انہیں گنجائش نہ دی، اپنے پرانے فیصلے “ان ڈو” نہ کیے تو ہماری آزمائش میں اضافہ ہو جائے گا”, ہمارے ملک میں فیصلہ ساز اسٹیبلشمنٹ ہے یعنی چوھدری صاحب یہ تاثر دے رہے ہیں کہ میاں صاحب کے پاس ملک کے فیصلہ سازوں کی بلیک میلنگ کی آڈیو, وڈیوز کا خزانہ ہے اور بے شمار ملکی رازوں سے بھی وہ واقف ہیں اس لئے فیصلہ ساز ڈیل پر مجبور ہیں یعنی دنیا کی طاقتور ترین فوجوں میں سے ایک فوج اور دنیا کی نمبر ون ایجنسی جس نے افغانستان سے لے کر انڈیا تک بیرون ملک اور اندرون ملک دشمنوں کو ہمیشہ دھول چٹائی انھیں ناکوں چنے چبوائے جن کا نام ہی دشمنوں کے لئے ہیبت ہے ان کےخلاف آڈیو وڈیو ثبوت میاں صاحب کے پاس ہیں اور قومی راز بھی جن کا افشاء ہونا ریاست کو لے کر بیٹھ جائے گا ایسی صورت میں فیصلہ ساز ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے جب کہ عمران خان وزیراعظم بن کر بھی شاید صرف روٹی کو چوچی کہتے رہیں گے انھیں کچھ خبر نہیں کسی راز کی کسی حقیقت کی اور انھیں ناجائز طور پر ہٹا دیا جائے گا تو وہ خاموش بیٹھ جائیں گے مطلب حد ہے اور بے حد ہے صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے۔

تیسری وجہ پر تو دل چاہا کہ چوھدری صاحب کو سر کے بل الٹا کھڑا ہوکر خراج تحسین پیش کیا جائے, فرماتے ہیں معیشت کا پہیہ رک چکا ہے سی پیک پر کام سست ہوگیا ہے اور چین موجودہ حکومت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں اور اعتماد نہ  کرنے کا ثبوت یہ ہے کہ وفاقی وزیر مراد سعید کو چینی حکومت نے آج تک اپنے ملک میں نہیں بلایا, “مطلب کمال سر “کون لوگ او تسی” یعنی وزیر اعظم سے نہیں, وزیر خارجہ سے نہیں بلکہ ایک معصوم پاکستانی وفاقی وزیر مواصلات سے دنیا کی سپر پاور چینی حکومت درخواست کرے گی کہ وہ چین آکر اپنے نادر خیالات و تجربات سے انھیں مستفیذ کریں, حیرانگی ہوتی ہے کیسے کر لیتے ہیں اس طرح کی باتیں قومی سطح کے اتنے نامور صحافی, موصوف آگے فرماتے ہیں اگر میاں صاحب اقتدار میں آجائیں تو چین ہماری معیشت میں 35 بلین ڈالر ڈالنے کے لئے تیار ہوجائے گا یہ بات شاید چینی صدر خواب میں بتا گئے یعنی خواہشات کو خبر بنانا کوئی چوھدری صاحب سے سیکھے, 35 بلین ڈالر نہ  ہوئے ریوڑیاں ہوگئیں جو چین ان کے آنےنے پر بانٹ دے گا مطلب کمال کردیا “سر”۔

ابھی یہاں تک کالم کے آفٹر شاکس نے ہی دماغ کی چولیں ہلا دی تھیں کہ آگے پڑھ کر تو جیسے آسمان ٹوٹ کر سر پر اگرا فرماتے ہیں ریاست جانتی ہے کہ اگر یہ ڈیل نہیں کی جاتی میاں صاحب سے تو پاکستان کو اپنے ایٹمی پروگرام سےمحروم ہونا پڑے گا اور یہ موت کے برابر ہوگا” یعنی میاں صاحب کی محبت میں چوھدری صاحب اس حد تک چلے گئے کہ اگر ریاست نے ڈیل نہ  کی تو ہمیں اس ایٹمی پروگرام سے محروم ہونا پڑ جائے گا, وہ جگہ جہاں آج تک کسی سویلین وزیر اعظم یا صدر تک کا قدم نہیں پڑ سکا جس کے لئے صرف فوج نہیں بلکہ ملک کا بچہ بچہ کٹ مرنے کو تیار ہے کہ یہی ہماری لائف لائن ہے اور چوھدری صاحب نے بڑے آرام سے میاں صاحب سے ڈیل نہ  ہونے کی صورت میں عوام کو ایٹمی پروگرام اور ایٹمی اثاثوں سے محروم ہونے کا مژدہ سنا دیا یعنی کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا.

چوھدری صاحب کے کالم پڑھ کر سمجھ نہیں آتی کہ انسان ہنسے یا روئے فرماتے ہیں ڈیل تو فائنل ہوگئی مگر مسئلہ یہ تھا کہ ڈیل والے “صاحب لوگوں” کے تحفظات یہ تھے کہ اگر میاں صاحب کی نا اہلی ختم کروا دی جائے, الیکشن لڑنے دیا جائے, وزیر اعظم بنوا دیا جائے تو کیا گارنٹی ہے یہ جسٹس ثاقب نثار، دو سابق ڈی جی آئی ایس آئی، ایک ریٹائرڈ آرمی چیف اور عمران خان کے خلاف تحقیقاتی کمیشن نہیں بنائیں گے اور انتقام نہیں لیں گے, چوھدری صاحب نے اگرچہ بقلم خود مذکرات میں تین ملکوں کو شامل کروایا تھا مگر ناگزیر وجوہات کی بناء پر ایک نے “کنی” مار لی اور گارنٹی کے لئے صرف دو ملک سامنے ائے جو یہ چاہتے ہیں کہ میاں نواز شریف واپس آئیں، جیل جائیں، مقدمہ لڑیں اور انہیں اس بار “فیئر ٹرائل” دیا جائے اور فیصلہ اس بار واٹس ایپ پر نہیں ہونا چاہیے, مطلب اسٹیبلشمنٹ کو میاں صاحب سے یہ گارنٹی درکار ہے کہ ریٹائر آرمی چیف, دو ڈی جی ائی ایس آئی حتی کہ عمران خان کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہ ہو اس سادگی پر کون نہ  مرجائے اے خدا یعنی میاں صاحب امریکی صدر یا کسی مافیا ڈان جتنے طاقتور اور بااختیار ہوجائیں گے کہ وہ ریٹائر آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی سے انتقام لیں گے یعنی پرویز مشرف جس نے ان کی حکومت کو گھر بھیج دیا تھا میاں صاحب کو قید اور جلاوطن کروادیا تھا جس کو سزا دلوانے کے لئے میاں صاحب نے بلند و بالا دعوے کئے تھے مگر آخرکار ہنسی خوشی اسے باہر بھجوانے پر مجبور ہوگئے تھے اور اب پھر فیصلہ سازوں کو ڈر ہے کہ ریٹائر آرمی چیف اور سابقہ ڈی جی ائی ایس ائی سے میاں صاحب انتقام لیں گے نیز میاں صاحب کے خلاف اعلی عدالتوں کے فیصلے فئیر نہیں تھے اور واٹس ایپ پر کروائے گئے تھے یعنی عدالتیں آزاد نہیں تھیں, ایسی باتوں کا جواب دینے کے بجائے صرف چوھدری صاحب کی باتوں پر صرف حیرانگی کا اظہار اور افسوس کیا جا سکتا ہے.

پھر چوھدری صاحب نے لکھا پارٹی اور خاندان کے چند لوگ میاں صاحب کو مشورہ دے رہے ہیں واپس نہ  آئیں مگر میاں صاحب رسک لینے کو تیار ہیں اور جنوری میں واپسی انھیں سوٹ کرتی ہے اگر تحریک عدم اعتماد نہیں ہوئی شہباز شریف وزیراعظم نہیں بنتے تو 23 مارچ کو میاں صاحب لانگ مارچ کی قیادت کریں گے تب تک منی بجٹ اچکا ہوگا ائی ایم ایف معاہدے کے خوفناک نتائج بھی آچکے ہونگے پی ٹی ائی بلدیاتی الیکشن بھی ہار چکی ہوگی تو 23 مارچ کو لانگ مارچ کے ساتھ اسمبلیوں سے استعفوں کا اعلان حکومت ختم کرنے کے لئے کافی ہوگا یہ نواز شریف فارمولا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

یعنی میاں صاحب کی واپسی میں برطانیہ میں ویزہ ریجیکشن کا کوئی فیکٹر نہیں سیاسی نقصان ہونے کی وجہ سے واپس آنے کا کوئی فیکٹر نہیں شامل نہ  چوھدری صاحب نے بتایا کہ یہ فارمولا چوھدری صاحب کی اپنی تجویز ہے یا انھیں میاں صاحب نے خود بتایا, چوھدری صاحب نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ان کی ذاتی اور دلی خواہش کے مطابق جس کا اگرچہ زمینی حقائق سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں مگر پھر بھی اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور شہباز شریف وزیراعظم بن گئے تو ایسی صورت میں میاں صاحب کیا کریں گے نہ ہی چوھدری صاحب نے یہ بتایا کہ منی بجٹ جس میں پرتعیش اشیاء پر ٹیکس لگایا جارہا ہے اور شاید ترقیاتی بجٹ میں کچھ کٹوتی ہو اس کا میاں صاحب کی واپسی اور ڈیل سے کیا تعلق ہے نہ  ہی چوھدری صاحب نے آئی ایم ایف کے معاہدے کے بھیانک نتائج کا عوام کو بتایا مگر انھیں اس بات کا سو فیصد یقین ہے کہ تحریک انصاف سارے بلدیاتی انتخابات ہار جائے گی میاں صاحب کی تاحیات نا اہلی ختم ہوجائے گی تمام سزائیں ختم ہوجائیں گی جیل سے باہر  آجائیں گے اور نا صرف لانگ مارچ کی قیادت کریں گے بلکہ استعفوں کے صرف اعلان سے ہی حکومت ختم ہوجائے گی یعنی میاں صاحب کی نا اہلی, سزائیں, جیل سب ختم ہوجائے گی وہ بھی اس صورت میں جب فروری میں جسٹس عمر عطاء بندیال جنھوں نےعمران خان کو صادق اور امین قرار دیا تھا چیف جسٹس کا حلف اٹھائیں گے نیز عمران خان اس وقت بھی وزیراعظم ہوں گے اور آئی ایس آئی, آئی بی اور ایف آئی اے سمیت تمام ادارے ان کے ماتحت ہونگے اور ان تک تمام حالات و واقعات اور خبریں پہنچ رہی ہونگی اور ایسی صورت میں جب کہ وہ ایک بار میاں صاحب کو باہر جانے دینے کے فیصلے پر آج تک پچھتا رہے ہیں دوبارہ انھیں موقع لینے دیں گے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے ایسی ذاتی تمنائوں پر صرف اتنا کہ ” ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے”.
آخر میں چوھدری صاحب نے یہ دعوی کیا ہے کہ دو ہفتے میں ڈرامہ ختم ہوجائے گا اور میاں صاحب بھی واپس ارہے ہیں, دو ہفتے میں کیا ہوتا ہے اور میاں صاحب واپس آتے ہیں یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر میری ادنی رائے میں صحافی کا کام “پارٹی’ بنے بغیر صرف تصدیق شدہ خبریں دینا ہوتا ہے نا کہ خواہشات کو خبر بنانا اور کوئی مخصوص بیانیہ یا ایجینڈا لے کر عوام کی ذہن سازی کرنا جو کہ صحافتی معیار اور اصولوں کے خلاف ہے.

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”پوسٹ مارٹم (نواز شریف واپس آرہے ہیں  / جاوید چوہدری)۔۔ارشد غزالی

Leave a Reply