ایک مشرقی عورت کی وفا کی سچی کہانی۔۔عبدالستار

ہم مجموعی طور پر جس سماج میں بستے ہیں وہاں رشتے اپنی مرضی و خواہش سے بنانے اور نبھانے کے لیے تشکیل نہیں دیے جاتے بلکہ معاشرتی رسوم و رواج کو مذہب کے مقدس لبادے میں لپیٹ کر سسکنے اور کراہنے کے لیے چھوڑ دیے جاتے ہیں ۔منافقت اور تقدس کے خول میں لپٹے یہ جبر کے رشتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی حقیقی معنویت کو کھو دیتے ہیں اور ایک ایسے سسٹم میں ڈھل جاتے ہیں کہ جہاں پر ان رشتوں کو نیم دلی یا جبر کی وجہ سے گھسیٹا جاتا ہے ۔یہ بے جوڑ اور زبردستی کے رشتے بے بسی اور لا چارگی کی ایک ایسی تصویر بن جاتے ہیں جس کا سارا خمیازہ ایک مشرقی عورت کو بھگتنا پڑتا ہے ۔

ہمارے سماج میں شادیوں کا مطلب ایک مذہبی فریضہ ادا کرنے کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ان شادیوں کا مطلب دو جیتے جاگتے باشعور لوگوں کا آزادانہ فیصلہ اور ملاپ نہیں ہوتا بلکہ ایک معاشرتی جبر ہوتا ہے ،جس جبر کی قیمت پوری کی پوری ایک عورت کو ادا کرنا پڑتی ہے ۔گھروسماج سے نیاز مندی ،تابعداری اور فرمانبرداری کے بھاشنوں کے درمیان پروان چڑھنے والی یہ بے بس عورت جس کو والدین یہ تنبیہ کر کے اپنے گھر سے رخصت کرتے ہیں کہ “اب یہ گھر تمہارا نہیں رہا اور اب صرف تمہاری لاش ہی اس گھر میں واپس آسکتی ہے “غور طلب بات یہ ہے کہ ان ظالمانہ جملوں کی سماعت کے بعد وہ اپنی زندگی کا آغاز کرتی ہے ۔زندگی کے اس اہم موڑ کا جبریہ آغاز رشتوں کی چاشنی اور اپنائیت و خلوص کو سرے سے ہی ختم کر دیتا ہے اور اس جبریہ جوڑ کی حیثیت ایک آقا اور غلام کی حیثیت سے زیادہ نہیں ہوتی ۔میں آج آپ کو ایک مشرقی عورت کی اپنی اس جبریہ ازدواجی زندگی کے ساتھ وفا کی ایک سچی کہانی شیئر کرنا چاہوں گا ۔

ایک عورت جس کا نام “خورشیدہ “ہے۔جو کہ ایک دیہاتی خاتون ہے اس کی شادی ایک ایسے مشرقی خاوند سے ہو جاتی ہے جو کہ اس گھسے پٹے مائنڈ سیٹ کا مالک ہوتا ہے کہ عورت ” پاؤں کی جوتی ہوتی ہے “۔اس روایتی شوہر کا نام “رمضان ” ہے جو کہ بہت ہی کرخت اور داروغائی طبیعت کا مالک تھا اور تھوڑی بہت محنت مزدوری کرتا تھا جس سے گھر کا راشن بھی بڑی مشکل سے پورا ہوتا تھا ۔محنت مزدوری کر کے تھکا ہاراگھر آتا تو ایک روایتی خاوند کی طرح کبھی من میں ہوتا تو اپنی بیوی سے ڈھنگ سے بات کر لیتا ورنہ اپنی بشری ضرورت پوری کر کے سو جاتا ۔شادی کچھ عرصہ کے بعد یکے بعد دیگرے بغیر کسی وقفہ کے بچوں کی پیدائش کا عمل شروع ہو گیا ۔

اب زندگی کی صورتحال یکسر بدل گئی اب شوہر جس کا نام رمضان تھا وہ جو کما کر گھر لاتا تھا اس سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے ۔ایک طرف گھر کے اخراجات بڑھتے جا رہے تھے تو دوسری طرف بچوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی تھی ۔اس بے جوڑ رشتے نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا گھر کے اخراجات اور بچوں کی تعداد کے اضافہ کا خمیازہ بھی بیچاری خورشیدہ کو ہی بھگتنا پڑا ۔تقریباََ 9 کے قریب بچے پیدا ہو چکے تھے مگر نہ تو رمضان نے اپنی آمدن بڑھانے کا سوچا اور نہ ہی بچوں کی تعداد پر غوروفکر کیا ۔اب خورشیدہ کے گھر میں بھوک کا ڈیرہ ،جوان ہوتی ہوئی چھے بچیوں کا بوجھ اور دوسری طرف ظالم شوہر کی مار پیٹ کا راج تھا ۔رمضان اپنی بیوی کو اتنے ظالمانہ طریقے سے مارتا تھا کہ کئی بار تو خورشیدہ بے ہوش ہو کر گِر جاتی مگر واہ رے ، مشرقی عورت کی بے بسی کہ اس نے اپنے شوہر کے ظالمانہ رویہ پر اف تک نہ کی بلکہ یہ سوچ کر سب مار پیٹ سہتی رہی کہ وہ اس کا مجازی خدا ہے اور اپنی قیمتی زندگی کو مشرقی روایات کو قربا ن کر دیا ۔خورشیدہ کی چھے بیٹیاں اور تین بیٹے اب آہستہ آہستہ بڑے ہو رہے تھے اور ان کی بھوک بھی بڑھتی جا رہی تھی ۔اس ساری تکلیف دہ صورتحال میں خورشیدہ نے ایک انقلابی فیصلہ کیا تاکہ پیٹ کے ایندھن کا بندوبست ہو سکے اس نے اپنی بچیوں کو سلائی کڑھائی کا کام سیکھا دیا اور اب ماں کے ساتھ اس کی معصوم بچیاں بھی محلے داروں کے کپڑے سی کر زندگی کی گاڑی کو چلانے لگیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انہی حالات میں زندگی آگے چلتی رہی اور رمضان نے اپنی بیوی پر تشدد کرنا بند نہیں کیا مگر اس وفا کی مورتی نے تو حد ہی کر دی ،اپنے اوپر ہونے والا ہر ظلم برداشت کیا اور عزیزواقارب کو پتا بھی نہیں چلنے دیا ۔زندگی نے ایک کروٹ لی ،رمضان بیمار ہو کر بستر پر جا گرا اور دوسری طرف خورشیدہ نے اپنے تمام بچوں اور بچیوں کی دن رات محنت مزدوری کر کے یکے بعد دیگرے شادیاں کر دیں ۔اب خورشیدہ کا شوہر رمضان بہت زیادہ بیمار رہنے لگا تھا مگر اس عورت نے خاوند کی بیماری میں بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔بیماری کے دوران میں بھی وہ اپنے شوہر کی کڑوی کسیلی باتیں سنتی رہی اور دن رات اس کی خدمت میں مصروف رہی ۔آخر ایک دن رمضان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں فوت ہو گیا ۔شوہر کے وفات پا جانے کے بعد خورشیدہ بہت روئی اور اب بھی وہ اپنے شوہر کے ظلم اور کڑوے کسیلے جملوں کو یاد کر کے بہت روتی ہے ۔اکثر وہ روتے ہوئے یہ جملے دہراتی رہتی ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں اپنے خدا سے یہ دعا مانگی تھی کہ میں اپنے شوہر سے پہلے مر جاؤں اور اپنے مجازی خدا کے کندھوں پر سوار ہو کر لحد میں اتر کر ابدی نیند سو جاؤں ،مگر شاید قدرت کو یہ منظور نہیں تھا ،میرا شوہر تو چلا گیا مگر مجھے بے سہارا کر گیا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply