مضامین سورۃ النور کا مختصر جائزہ (حصہ دوم)۔۔عروج ندیم

مضمون # ٦
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی عظمت
آیت نمبر : ٢٢
ترجمہ : اور تم میں سے جو لوگ اہلِ خیر ہیں اور مالی وسعت رکھتے ہیں، وہ ایسی قسم نہ کھائی کہ وہ رشتہ داروں، مسکینوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے اور انہیں چاہیے کہ معافی اور درگزر سے کام لیں۔ کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ اللہ تعالی تمہاری خطائیں بخش دے؟ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
گزشتہ مضمون میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو عبداللہ بن اُبی کی حضرت عائشہؓ پر لگائی ہوئی تہمت میں اس کے ساتھ مل کر ان افواہوں کا چرچا کر رہے تھے۔ جن میں مسطح بن اثاثہؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے خالہ زاد بھائی بھی شریک تھے۔ حضرت مسطح چونکہ مفلسی کا شکار تھے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ ان کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔ جب حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اس بات کی خبر ہوئی کہ یہ مسطح بھی سازش میں شریک ہیں تو آپؓ نے قسم کھا لی کہ وہ اب مسطح کے ساتھ احسان کا معاملہ نہیں کریں گے کیونکہ مسطح بن اثاثہؓ نے نہ رشتہ داری کا لحاظ رکھا نہ ہی ان کے حسن سلوک کا۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی کے اگر تمہیں اللہ تعالی نے دینے کے قابل بنایا ہے تو اپنے رشتہ داروں اور مسکینوں سے ہاتھ نہ اٹھاؤ اور یہ کہ جس طرح تم چاہتے ہو کہ اللہ تمہیں معاف کر دیں تو تم بھی درگزر کا راستہ اپناو۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنی قسم واپس لے لی، دوبارہ انکے ساتھ احسان کا معاملہ کیا اور انہیں معاف کر دیا۔
حدیثِ نبوی ہے:
بےشک اللّٰہ تعالیٰ درگزر کرنے والا ہے، درگزری کو پسند کرتا ہے۔
مضمون # ٧
معاشرتی آداب
آیات نمبر : ٢٧-٢٩
ترجمہ : اے ایمان والوں! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لیے بہتر (نصیحت) ہیں تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو وہاں داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ البتہ تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہو اور جن میں تمہارے فائدے یا کام کی کوئی چیز ہو، تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو سب کی اللہ کو خبر ہے۔
بدکاری سے بچانے کے لیے اسلام میں کافی حد تک اقدامات کیے گئے ہیں کہ جس طرح ممکن ہوسکے اس برے فعل سے بچو۔ ان آیات میں گھروں میں داخل ہونے کے اداب بیان کئے گئے ہیں کہ کسی کی اجازت کے بغیر اس کے گھر میں بے دھڑک نہ جایا جائے بلکہ باہر کھڑے ہو کر پہلے سلامتی بھیجی جائے اور پھر اپنی پہچان کروا کر، اجازت ملنے پر اندر داخل ہوا جائے تاکہ کسی کے گھر کی چار دیواری کا تقدس پامال نہ ہو سکے۔ چاہے اس گھر میں کوئی موجود نہ ہو لیکن اگر وہ کسی کی ملکیت ہے تو بغیر اجازت کے وہاں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس فرد سے ملاقات کا وقت مقرر کر لیا جائے تاکہ بعد میں ان کے معاملات میں خلل پیدا نہ ہو۔ اور فرمایا گیا کہ اگر وہ واپس جانے کا کہہ دیں تو برا مانے بغیر واپس چلے جانا چاہیے کیونکہ کیا پتہ کسی مشغولیت کی وجہ سے انہوں نے معذرت کی ہو۔ ایسے میں برا نہیں ماننا چاہیے کیونکہ آپ ملاقات کا وقت پہلے سے طے کر کے نہیں آئے تھے۔ ہاں البتہ کوئی ایسی جگہ جو کسی کی ملکیت نہ ہو یا ایسی جگہ جو عوام کے فائدے کے لئے ہو یا کام کی جگہ ہو مثلاً ہسپتال، دفاتر، مسافر خانے وغیرہ، ان جگہوں پر اجازت طلب کیے بغیر جانے میں کوئی حرج نہیں۔
مضمون # ٨
کفار کے اعمال کی مثال
آیات نمبر: ٣٩-۴٠
ترجمہ: اور جن لوگوں نے کفر کیا، ان کے اعمال کی تمثیل یہ ہے کہ جیسے چٹیل صحرا میں سراب ہو، جس کو پیاسا پانی گمان کرے۔ یہاں تک کہ جب وہ اسکے پاس آئے گا تو وہاں کچھ نہ پائے گا۔ البتہ اس کے پاس اللّٰہ کو پائے گا، پس وہ اسکا حساب چکا دیگا اور اللّٰہ جلد حساب چکانے والا ہے۔ یا پھر اسکی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرہ، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے۔ اس پر ایک اور موج، اور اسکے اوپر بادل، پر تاریکی مسلّط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھ پائے۔ جسے اللّٰہ نور نہ بخشے اس کےلئے پھر کوئی نور نہیں۔
جو لوگ اللہ‎ کی کتاب اور سنّت رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم سے دور ہیں، جن کے پاس ھدایت کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ اپنے اعمال کو پہچان سکیں، صحیح غلط کا فیصلہ کر سکیں یعنی ایمان نہیں ہے، بس چھوٹی چھوٹی نیکیاں کر لیتے ہیں تو اسے لوگوں یعنی کفار کے اعمال چٹیل میدان میں چمکتی ہوئی ریت کی مانند ہیں۔ جس کو ایک پیاسا پانی سمجھتا ہے۔ حتیٰ کہ جب وہ اسکے قریب پہنچتا ہے تو وہاں کچھ نہیں پاتا سواۓ اللّه تعالٰی کے۔ یعنی جس طرح کوئی پیاسا ریگستان میں چمکتی ہوئی ریت کو پانی سمجھ کر اسکے پاس جاتا ہے اور سراب کی شکل میں دھوکہ پاتا ہے اسی طرح جو عبادت کفار نیکی سمجھ کر کرتے ہیں وہ سراب کی طرح ایک دھوکہ ہے یعنی جو اعمال وہ یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ یہ انہیں آخرت میں فائدہ دینگے انکی حقیقت سراب سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے اور جب روزِ قیامت ان پر یہ حقیقت کھلے گی کہ وہ جِسے نیکیاں سمجھ کر کرتے تھے وہ اللّه کے ہاں قبولیت تک نہ پاسکی تو بہت دیر ہو چکی ہوگی اور پھر اللّه انکے اعمال کا پورا حساب چکا دینگے۔
اگلی آیت میں کفار کی مثال یوں دی گئی ہے کہ جیسے اندھیری رات ہو اور سمندر کی تہہ میں موج در موج کی حالت ہو اور اسکے اوپر آسمان پر بادل بھی چھائے ہو یہاں تک کہ وہ اس مطلق تاریکی میں اپنا ہاتھ تک نہ دیکھ سکے۔ جس طرح وہ اس اندھیرے میں اپنا ہاتھ نہیں دیکھ پاتا اسی طرح اپنے کفر اور فِسق کے اندھیروں میں وہ اپنی حقیقت بھی نہیں پہچان پاتا اور وہاں روشنی کی ایک کرن تک نہ ہوگی کیونکہ جسکو اللّه نے ہی نور نہ بخشا ہو تو اسکے لئے پھر کہیں بھی نور نہیں ہے۔
ایک فرینچ ایڈمرل اس آیت کو پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ اسکی ساری عمر سمندروں میں گزری تھی اور پانی کے نیچے مطلق تاریکی کی کیفیت کو وہ دیکھ چکا تھا۔ یہ آیت پڑھ کر اسے تجسّس ہوا کہ کیا محمّد صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے بحری سفر بھی کئے تھے؟ لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ حضور صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے کبھی کوئی بحری سفر نہیں کیا تو اس نے اعتراف کرلیا کہ یہ آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا کلام نہیں بلکہ اللّه کا کلام ہے، کیونکہ ایسی تشبیہہ صرف وہی دے سکتا ہے جو سمندر کی گہرائی میں اندھیروں کی کیفیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہو۔
مضمون # ٩
کامیاب اور ناکام لوگ
آیات نمبر: ۴٧-۵٣
ترجمہ: اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللّه پر اور رسول اللّه ﷺ پر ایمان لے آئے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں مگر اسکے بعد ان میں سے ایک گروہ (اطاعت سے) منہ موڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہر گز مومن نہیں ہیں۔ اور جب انھیں اللّه اور رسولﷺ کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسولﷺ انکے درمیان فیصلہ کریں تو انکی ایک جماعت منہ موڑنے والی بن جاتی ہے اور اگر (معاملہ) حق (ہو اور) انکو (پہنچتا) ہو تو انکی طرف مطیع ہو کر چلے آتے ہیں۔ کیا انکے دلوں کو (منافقت کا) روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوۓ ہیں؟ یا انکو یہ خوف ہے ک اللّه اور اسکا رسول ﷺ ان پر ظلم کریگا؟ اصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں۔ ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انھیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللّه اور اسکے رسول ﷺ ان میں فیصلہ کردیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ اور جو شخص اللّه اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کرتا ہے اور اللّه سے ڈرتا ہے اور اسکی نافرمانی سے بچتا ہے پس وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔
یہاں سب سے پہلے منافقین کی بات کی گئی ہے کہ یہ انسانوں کا وہ گروہ ہے جو صرف زبانی کہتا ہے کہ ہم اللہ اور رسول صلی اللہ وسلم پر ایمان لے آئے اور اطاعت قبول کر لی لیکن پھر اپنے قول کے بعد وہ روگردانی کرتے ہیں۔ جب عمل کا وقت آتا ہے تو پِھر جاتے ہیں، اسکے بعد یہ لوگ مومن نہیں رہتے۔ ان آیات کے نزول سے قبل ایک واقعہ پیش آیا تھا کہ ایک منافق (بشر نامی) کا ایک یہودی آدمی سے جھگڑا ہوگیا۔ یہودی چونکہ حق پر تھا اس لئے اس نے بشر سے کہا کی آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروا لیتے ہیں لیکن بشر یہ جانتا تھا کہ وہ حق پر نہیں ہے تو اس نے یہودی کو پیشکش کی کہ سردار کعب بن اشرف سے اس جھگڑے کا فیصلہ کرالیں۔ اس کے بعد یہ آیات نازل ہوئی کہ جب ان لوگوں کو اللّه اور رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے مقدّمات کا فیصلہ کردیں تو ان میں ایک فریق پہلوتہی کرتا ہے یعنی کترا کر الگ ہوجاتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں اور یہ فیصلہ انکے مفاد کے خلاف ہوگا لیکن اگر کوئی مقدمہ ایسا ہے جسکا انہیں پتہ ہو کہ یہ شرعی فیصلہ ہمارے حق میں ہی ہوگا تو نہایت فرمانبرداری سے سر جھکا کر آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو جاتے ہیں یعنی جہاں دنیاوی فائدہ ساتھ مل رہا ہوگا وہیں رجوع کرتے ہیں تو یہ ایمان و اسلام نہیں بلکہ ہواپرستی ہوئی۔ موجودہ دور میں ہمیں یہ معاملات واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ منافقین چونکہ دل سے ایمان نہیں لائے تھے اس لئے ان کے دل میں کچھ شک و شبہات تھے جنہیں اللہ تعالی نے یوں فرمایا ہے کہ کیا ان کے دلوں میں لوگ ہے؟ یا یہ شکوک میں مبتلا ہوگئے ہیں؟ یا انہیں یہ اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کریں گے؟ بلکہ یہی لوگ ظالم ہیں کیونکہ یہ ایمان کی اصل حقیقت سے محروم ہیں۔
اب آگے ان کے بالمقابل مومنین، مخلصین کی اطاعت و فرمانبرداری کو بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب کسی معاملے میں ان کو اللہ اس کے رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی طرف بلایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ شرعی فیصلہ ہے تو وہ اس میں اپنا نفع و نقصان دیکھے بغیر کہتے ہیں سمِعنا و اطعنا یعنی ہم نے سنا اور مان لیا۔ وہ کسی تردد میں، کسی شک و شبہ میں نہیں پڑھتے۔ جیسے ہی ان کو پتہ چلتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو چاہے وہ حکم ان کی طبیعت پر ناگوار ہی گزرے لیکن ان کا نفس ان پر غالب نہیں آتا۔ تو یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
ہمارے یہاں بعض افراد ایسے ہوتے ہیں کہ کچھ صدقات دے دئیے، خدمت خلق کرلی تو سمجھتے ہیں کہ اب ہم کامیاب ہوگئے، تو کامیابی کی ضمانت انکے لئے نہیں ہے جو چند نیکیوں کے کام کرلیں بلکہ اللہ تعالی نے کامیابی کی ضمانت تین شرطوں پر دی ہے:
*اللہ اور اسکے رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی اطاعت۔
*اللہ کا ڈر۔
*اللہ کی نافرمانی سے بچنا۔
جب یہ تین صفات جامع ہوجاتی ہیں تو اب کوئی شک نہیں کہ وہ کامیاب ہیں۔
مضمون # ١٠
احکام معاشرت
آیت نمبر : ۵٨-۵٩
ترجمہ: اے ایمان والو! جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمہارے مملوک اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں، صبح کی نماز سے پہلے، اور دوپہر کو جب تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو، اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین اوقات تمہارے لئے پردہ کے ہیں۔ ان کے بعد وہ بلااجازت آئیں تو نہ تم پر کوئی گناہ ہے نہ ان پر، تمہیں ایک دوسرے کے پاس باربار آنا ہی ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنے ارشادات کی توضیح کرتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔ اور جب تمہارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ اسی طرح اجازت لے کر آیا کریں جس طرح ان کے بڑے جازت لیتے رہے ہیں۔ اس طرح اللہ اپنی آیات تمہارے سامنے کھولتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔
پچھلی آیات میں اجنبی لوگوں کے لئے معاشرتی آداب بیان کیے گئے تھے اور اب ان آیات میں قریبی رشتہ داروں کے لئے احکام بیان کئے گئے ہیں، جن میں غلام لونڈیاں اور وہ بچے جو حد بلوغ تک نہیں پہنچے شامل ہیں۔ ان پر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں وہ بلا اجازت داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ ان اوقات میں عام طور پر انسان نیند میں ہوتا ہے یا بے تکلفی سے صرف ضروری کپڑوں میں یا ایسی حالتوں میں ہوتے ہیں جن میں گھر کے بچوں یا خادموں کا اچانک آنا مناسب نہیں ہے۔ فجر کی نماز سے پہلے، دوپہر کے وقت اور عشاء کے بعد۔ تو اپنے بچوں میں یہ شعور ڈالا جاۓ کہ ان تین اوقات میں بے دھڑک داخل نہ ہوں۔
ان تین اوقات کے علاوہ بچوں یا غلام کے بلا اجازت آجانے میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ ان لوگوں کا مختلف کاموں کے لیے وقتاً فوقتاً آنا جانا ہوتا ہے۔ پھر آگے فرمایا گیا ہے کہ جب تمہارے بچے سمجھ داری کو پہنچ جائیں تو انہیں چاہیے کہ وہ بھی اجازت طلب کریں جیسا ان سے پہلے لوگ کا کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالی اسی طرح اپنے احکامات، ارشادات اور آیات کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ تعالی علم و حکمت والا ہے۔
مضمون # ١١
بارگاہ رسالت کے آداب
آیات نمبر: ٦٢-٦٣
ترجمہ: مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کو دل سے مانتے ہیں اور جب رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے ساتھ کسی اجتماعی کام میں شریک ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر کہیں نہیں جاتے۔ (اے پیغمبر!) جو لوگ تم سے اجازت لیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کو دل سے مانتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اپنے کسی کام کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جن کو چاہو اجازت دے دیا کرو اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کرو۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔ تم اللہ تعالی کے نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کرو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے کو ہوتا ہے۔ تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں۔ سنو جو لوگ حکم رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ پڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔
ان آیات میں مومنوں کی صفت بیان کی گئی ہے کہ جب وہ آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے ساتھ کسی کام پر حاضر ہو جو انہیں رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی بارگاہ میں جمع کرنے والا ہو تو اس وقت وہاں سے نہیں جاتے جب تک اجازت نہ لے لیں۔
اللہ تعالی نے ان آیات میں مجلس کے آداب بیان کئے ہیں کہ جس طرح آتے وقت اجازت طلب کرتے ہو اسی طرح جاتے وقت بھی رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم سے اجازت لو، خصوصاً اس وقت جب کسی ضروری کام کے لئے جمع کیا گیا ہو۔ غزوہ خندق کے موقع پر جب کفار اسلامی ریاست کو مٹانے کے لیے حملہ آور ہوئے تو حضور صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم اور صحابہ کرامؓ نے تین دن تک مدینہ منورہ کے اردگرد خندقیں کھودی تاکہ کفار مدینہ منورہ میں داخل نہ ہو سکیں۔ حضور صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے ساتھ کچھ منافقین بھی وہاں موجود تھے۔ جب مسلمان خندق کھودنے میں لگے ہوئے ہوتے اور منافقین دیکھتے کے یہ مشکل کام ہے تو حضور صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی اجازت لیے بغیر اپنے گھروں میں چلے جاتے۔ تو اس حکم کے تحت کسی جماعت کے تمام ارکان کو ایک نظم و ضبط کا پابند کیا گیا۔ کیوں کہ اگر نظم و ضبط نہیں ہوگا اور کوئی بھی اِدھر اُدھر کھسک جائے گا تو اس طرح کوئی بھی اجتماعی کام تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس لئے یہ لازم قرار دیا گیا کہ اگر کسی مجبوری یا کسی وجہ سے ضرورت پڑتی بھی ہے تو اجازت لے کر جایا جائے۔
پھر آگے حضور صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا خاص ادب بیان کیا گیا ہے کہ انہیں عام لوگوں کی طرح کہہ کر مخاطب نہ کرو بلکہ یا نبی اللہ اور یا رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم جیسے الفاظ سے پکارو۔ وہ لوگ جو حضور صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ڈریں کہ ایسا نہ ہو کہ ان پر کوئی آزمائش آجائے یا ان کو ایک دردناک عذاب آپکڑے۔

کتابیات :
1۔ ڈاکٹر اسرار احمد ، ” بیان القرآن، حصہ پنجم، سوره مریم تا سوره السجدہ
2۔ مولانا مودودی ، “تفہیم القرآن” ، تفسیر سوره نور

Advertisements
julia rana solicitors london

جن علماء یا ریسرچ سکالرز کی یوٹیوب ویڈیوز سے استفادہ کیا
1۔ ڈاکٹر اسرار احمد
2۔ ڈاکٹر آصف عبد اللہ قادری
3۔ ڈاکٹر فرحت ہاشمی

Facebook Comments