مشرقی لڑکیاں۔۔۔۔۔اقبال تو ر والی

چشم ہا کاجل کی کالی گھٹاؤں سے زیر بار۔ دست نکہتِ حِنا کی رنگ و رامش سے آب و تاب تو وہی مرمریں و گداز کلائیوں پر رنگ طلائی چوڑیوں کا غلاف۔ رُخسار برگِ گُل کی لالی میں نہائے ہوئے رنگِ عشرت کی مسرت کا بھنور تو وہی جبیں پر زیب و زینت و سنگھار کا ابھوکن مہتاب کی طرح داری پر بھی سوال چھوڈ دیتا ہے۔ چلمن ساز ایسی کہ پیکرِ آدم کی ترچھی نظروں کہ سارے نشتر حجاب کی شمشیر سے دراز کر دے۔۔۔

مجھے مشرقی لڑکیاں بہت پسند ہیں  اس لیے  کہ شرم ساری و شرم آگیں میں اُن کا جفت کوئی نہیں۔ بات جمال کی آئے تو طلعت زیبا، طرح دار و دیو انگنائی گُل اندام مہ جبین۔ اُس پر ملنسار، دست کار و سلیقہ شعار۔ حیف ایک ایک ادا نزاہت و کلوات کا بھرپور شاخسانہ۔۔۔

شرم و حیا کا مان یہ ہے کہ بے ربط کسی انجان کی رفاقت کا دم نہیں بھرتی، اور محبت کا عزم یہ ہے کہ جب کسی رشتے کی طناب تھام لے تو سانسوں کی ڈوری تھمنے تک اس میں شگاف نہیں پڑنے دیتی۔ گفتار کی چاشنی و حلاوت سے جہاں مقام بود و باش نکہت ریز کر دے، وہیں  اپنے طمطراق و جاہ و حشمت سے باد انگیز ابھیمان کو اپنے پیروں کی دھول چٹا دے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

مطیع ایسی کہ زیست کی طناب مرضی کے بغیر والدین کسی کے دستِ بازو میں دے تو بجائے نوحہ کناں و دل سوختہ ہونے کے  والدین کے انفصال پر مستعد ہوتی ہے۔ بھائیوں کی چشم ہا کا نجم اور بہنوں کی شبینہ و مصاحب خواص، گھر کی خوشرنگی و خرامِ ناز تو وہی سہیلیوں کی بھنیلی، بھاری بھیدی ہمجولی، جس سے قلبِ تکلم کے سارے راز دریدہ دہن اشتراک کرے۔ یہ سارے وہ لوازمات ہے جو مشرقی تہذیب کا عکاس ہے اُس تہذیب کا جس نے شرم و حیا، مان، تواضع و بھروسے کو خاک سے اُٹھا کر اکاش کی بلندیوں پر ثبت کردیا اور مجھے فخر ہے کہ میں اس تہذیب کا کارفرما ہوں۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply