ہم سات ، ایک ساتھ , سفر نامہ(1)-زید محسن حفید سلطان

یہ عید کا دوسرا دن ، ۱۱ اپریل ۲۰۲۴ سہہ پہر کا وقت تھا ، لوگ یومِ سسرال منانے کو نکل رہے تھے اور ہم بے سسرالئے کراچی سے روانگی کی تیاری میں مصروف تھے ، اس دفعہ ہماری منزل بہت دور تھی ، اور ساتھی بھی کچھ زیادہ تھے ، عبید ، محمد ، اسماعیل ، خضر ، ابراہیم ، عبدالباسط اور زید یہ وہ سات افراد تھے جنہوں نے جانا تھا پھر یکایک بڑے خالو اور ان کے سب سے چھوٹے بیٹے الیاس کا بھی پروگرام بن گیا اور یوں ۹ فراد کا یہ قافلہ بوریا بستر اٹھائے کینٹ اسٹیشن   کراچی کی طرف روانہ ہوا ، شام چار بجے چلنے والی ٹرین پاکستان بزنس ایکسپریس وقتِ مقررہ تک پلیٹ فارم پر بھی نہ پہنچ سکی تھی، لیکن کچھ ہی دیر میں انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ریل آ گئی ، پھر ایک سائرن بجا اور ریل ساڑھے چار بجے تک مسافروں کو لئے چھکا چھک کرتی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوئی۔

ہم جو بوگی نمبر ۳ کے ایک کیبن کو اپنے نام کیے  ہوئے تھے ، آہستہ آہستہ سامان کو ایک طرف ترتیب سے رکھ کر اپنے کیبن پر رخِ لیلا کی مانند حجاب ڈال کر باتوں میں مصروف ہو گئے ، پھر کسی کو نمکو کا خیال آیا تو شام کے ناشتے کا ماحول بن گیا اور سب میٹھی میٹھی باتوں کے ساتھ مزیدار نمکو اور چیزوں سے لطف اندوز ہونے لگے ، ہماری انہی  مصروفیات کے دوران ڈھلتے سورج کی ابتدائی کرنوں نے ہمیں سندھ کے دارالخلافہ سے الوداع کیا اور پھر چھکا چھک کرتی ریل گاڑی آگے بڑھتی رہی ، ابھی سورج ڈھلا ہی تھا کہ ریل کی آواز یکا یک تبدیل ہوگئی ، ایک   عجیب سا  ارتعاش ریل میں پیدا ہو گیا ، کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو پیروں تلے زمین ہی نکل گئی ، کیونکہ ریل دریائے  سندھ کے اوپر بنے لوہے کے پُل سے   گزر رہی تھی۔

مغرب کے کچھ ہی دیر بعد ہم “نیرون کوٹ” میں داخل ہو رہے تھے ، یہ پاکستان کا ایک بڑا شہر ہے جو آبادی کے لحاظ سے آٹھویں نمبر پر آتا ہے ، دنیا جہان  میں یہاں کی چوڑیوں کی صنعت بڑی مشہور ہے بلکہ چوڑیوں کی سب سے بڑی صنعت گاہ اگر دنیا میں کوئی ہے تو وہ یہی “نیرون کوٹ” ہے۔

یہ ایک خوبصورت شہر ہے ، جس کی بنیاد “میاں غلام شاہ کلہوڑو” نے ۱۷۶۸ء میں رکھی اور ساتھ ہی اسے کلہوڑو ریاست کا دارالحکومت بھی قرار دے دیا ، لیکن کچھ ہی عرصے میں کلہوڑو کے ہاتھوں سے سندھ کی حکومت جاتی رہی اور یہ شہر تالپوروں کے ہاتھ آ گیا ، انہوں نے بھی اسے اپنا دارالسلطنت بنا لیا ، پھر جب قیامِ پاکستان ہوا تو اسی شہر کو سندھ کا دارالخلافہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح کچھ بچے وراثت میں حکمرانی لے کر پیدا ہوتے ہیں اس طرح نیرون کوٹ بھی حکمرانی کی قبا اوڑھ کر وجود میں آیا ، ۱۷۶۸ء تا ۱۹۶۰ء تقریباً  دو صدیوں تک یہ شہر کلہوڑو ، تالپوروں ، میروں اور پھر سندھیوں کا صدر مقام رہا ، پھر جب ۱۹۶۰ء میں پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا اسی کے ساتھ سندھ کی اس راجدھانی سے بھی حکمرانی کی قبا اتار لی گئی ، اور اب یہ قبا کراچی نے زیب تن کی ہوئی ہے۔

اب یہ “نیرون کوٹ” ہے کیا بلا؟
یہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ، جدید و قدیم ثقافتوں سے رنگا رنگ ، سطح سمندر سے ۵۵ فٹ بلندی پر موجود ، خوبصورت باغات ، شاندار عمارتوں ، لذیذ کھانوں اور   متنوع زبانوں سے مزین “حیدرآباد” ہے۔ جو ماضی قریب میں لسانی فسادات کی نذر بھی رہا ، اور بہت سی انتظامی بد نظمیوں کا بھی شکار رہا ، اس کے با وجود یہ شہر اور اس شہر کے لوگ آج بھی خوبصورت ہیں۔

یہاں پر کچھ دیر کیلئے ریل کی چھکا چھک کی آواز لوگوں کے شور میں دبی اور پھر ہم حیدرآباد کو بھی چھوڑتے چلے گئے ، اتنے میں بھوک کا احساس ہوا تو قیمے  کے ساتھ پراٹھوں سے پیٹ بھرا ، پھر نماز  ادا کی  اور آہستہ آہستہ نیند کی  آغوش میں جانے لگے ، اس کی ابتداء عبید نے کی اور پھر تو گویا ایک رسم ہی چل نکلی ، حد یہ ہوئی کہ عبدالباسط کا دعویٰ بھی دھرے کا دھرا رہ گیا کہ “مجھے سفر میں نیند نہیں آتی” اور وہ بھی اونگھتے اونگھتے نیند کی آغوش میں بسیرا کرنے میں مصروف نظر آئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاریسیک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply