ریل کیوں چلتی نہیں ہے؟۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

سخت گرمی تھی، اندھیرا گھُپ تھا اندر
ہم فقط چھ  سات ہی تھے
ریل کےڈ ـبے میں، جس کی کھڑکیا ں سب بند تھیں
( کوشش بھی کی تھی ہم نے، پرکھلتی نہیں تھیں)
سخت گرمی میں پسینہ پونچھتے
کچھ زیر ِ لب کہتے (یقیناً خود سے ہی)
ہم جانتے تھے کیوں یہ گاڑی رک گئی ہے
پھر بھی سب خاموش تھے ۔۔۔
چُپ چاپ، جیسے منتظر ہوں ۔۔۔ کوئی تو بولے گا آخر
ریل چلنے کی نہیں اب!” پاس بیٹھا شخص سرگوشی میں بولا
”ہے توڈیزل کایہ انجن” —- دوسرے نے رائے دی، “شاید اگر۔۔۔”
کچھ کہتے کہتے رُک گیا وہ
تیسرا بولا، ذرا کچھ ڈرتے ڈرتے
”عین ممکن ہے ڈرائیور ہی نہ ہو انجن میں، بھائی”
”’جی نہیں، انجن میں دو اشخاص تھے پچھلے سٹیشن پر
جہاں سے میں چڑھا تھا!” بحثا بحثی میں ملوث تھے وہ دونوں
کس کی ڈیوٹی ہے” یہی جھگڑا تھا ان کا”
سانس لینے کے لیے وہ رک گیا تو پہلا بولا
“ہاں، یقیناً، ایک کو جانا ہی ہو گا
دو ڈرائیور کیسے رہ سکتے ہیں اک انجن میں آخر؟”
سخت گرمی ہے، اندھیرا گھُپ ہے اندر
ہم فقط چھہ سات ہی ہیں ریل کے ڈـبے میں، جس کی
کھڑکیاں سب بند ہیں ۔۔۔ اور رات چلتی جا رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب ستیہ پال آنند صف ِاوّل کے جدید اردونظم گو ہیں۔ گزشتہ دنوں واشنگٹن ڈی سی میں حلقہ ارباب ذوق کی ایک نشست میں ان سے ملاقات کے دوران ان کی اس خوبصورت نظم پرگفتگوہوِئی- نظم نئی تو نہیں لیکن نہ جانے کیوں احساس ہوتاہےکہ یہاں ریل کا استعارہ آج کے پاکستان کے لئےاستعمال ہوا ہے۔(قیصر عباس)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply