مرد یا عورت؟۔۔ڈاکٹر عبیداللہ عبید/ترجمہ: قدیر قریشی

نوٹ: ڈاکٹر عبیداللہ پاکستان کے مایہ ناز پلاسٹک سرجن ہیں جو بچوں میں جنس کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل پر کام کرتے ہیں۔ یہ آرٹیکل نہ صرف ان کے کئی دہائیوں کے تجربے کا نچوڑ ہے بلکہ اس تحریر میں وہ ذہنی تکلیف بھی صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے جس سے ڈاکٹر صاحب ہر اس کیس کو ہینڈل کرتے ہوئے گذرتے ہیں جس میں کسی بچی کی جنس آپریشن کے ذریعے تبدیل کی جاتی ہے۔ اس پراسیس سے گذرتی بچیوں کی ذہنی اذیت کا جس قدر اندازہ ڈاکٹر عبیداللہ صاحب کو ہے وہ بہت کم ماہرین کو ہو گا۔

آج میں بہت افسردہ ہوں۔ آج میں نے پانچواں بچہ دیکھا جس کی جنس غیرمتعین تھی۔ اس بچے کو دیکھ کر میرا دل ٹوٹ گیا۔ کم علمی کس قدر نقصان دہ ہوتی ہے یہ بچے اس نقصان کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
پیدائش کے وقت ان تمام بچوں کے جنسی اعضاء لڑکیوں جیسے تھے۔ بعد میں ان کی ماؤں نے محسوس کیا کہ شاید ان لڑکیوں میں کچھ خامی رہ گئی ہے۔ ایسے بچوں کو مائیں انہیں کسی جنرل پریکٹیشنر، بچوں کے ڈاکٹر، سرجن، یا یورولوجسٹ (یعنی پیشاب کے امراض کا ڈاکٹر) کے پاس معائنے کے لیے لے جاتی ہیں۔ ڈاکٹر بچے کا ڈی این اے ٹیسٹ کرواتے ہیں تاکہ کروموسومز سے بچے کی جنس کا تعین ہو سکے۔ ہفتوں کے انتظار کے بعد ٹیسٹ کے نتائج معلوم ہوتے ہیں: 46XY یعنی بچے کے ڈی این اے میں ایکس اور وائے کروموسومز موجود ہیں۔ ڈاکٹرز مطمئن ہو جاتے ہیں اور ماں باپ کو مبارک باد پیش کرتے ہیں ‘مبارک ہو۔ آپ کا بچہ لڑکا ہے’، اور پھر یہ بچہ میرے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

بچے کے والدین اس وقت بے انتہا سٹریس میں ہوتے ہیں۔ بچے کی غیر متعین جنس کا سٹریس، ڈاکٹر کی ‘مبارک باد’ کا سٹریس، بچے کا نام تبدیل کرنے کا سٹریس، بچے کا لباس اور رہن سہن تبدیل کرنے کا سٹریس۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، لیکن جب میں اس بچے کی طرف دیکھتا ہوں تو میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش یہ بچہ لڑکی ہی رہتا۔

بعض اوقات ایسی بچیوں کو بلوغت سے پہلے تک یہ علم نہیں ہوتا کہ ان کی جنس باقی لڑکیوں سے مختلف ہے۔ ایک دن اچانک انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ لڑکی نہیں ہیں۔ پھر وہ تمام تاریخ دہرائی جاتی ہے: اخباروں میں سرخیاں لگتی ہیں ‘لڑکی لڑکا بن گئی’۔ اس بچی کی شخصیت پر جنس کی تبدیلی کا انتہائی گہرا اثر پڑتا ہے۔ اسے ساری عمر پردے میں رہنا سکھایا گیا تھا، صرف لڑکیوں سے کھیلنے کی تاکید کی گئی تھی۔ اب اچانک وہی بچی ایک لڑکے کی صورت میں بغیر چادر کے باہر دھکیل دی جاتی ہے۔ اس بچے کے لیے یہ کتنا تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو خود اس پراسیس سے گزرا ہو۔

جنس متعین کرنے میں پانچ مختلف فیکٹرز عمل پیرا ہوتے ہیں۔
1۔ جنس متعین کرنے والے کروموسوم جو عام طور پر XX (لڑکی) یا XY (لڑکا) کی صورت میں ہوتے ہیں

2۔ بچے کے بیرونی اعضا یعنی بچہ بظاہر لڑکا لگتا ہے یا لڑکی

3۔ بچے کے ہارمونز اور ان کا عمل۔ بعض اوقات ہارمونز کروموسومز کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ اسی طرح بعض اوقات درست جنسی ہارمونز تو موجود ہوتے ہیں لیکن یہ ہارمونز جنسی اعضاء پر درست طور پر کام نہیں کرتے

4۔ والدین کا بچے کی جنس کا اعلان کرنا، بچے کا نام رکھنا، بچے کی پرورش لڑکے کے طور پر یا لڑکی کے طور پر کرنا

5۔ بچے کی اندرونی سوچ یعنی بچہ اپنے آپ کو لڑکا تصور کرتا ہے یا لڑکی۔ کئی دفعہ جسمانی طور پر مکمل لڑکوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ غلط جسم میں ہیں اور انہیں لڑکی ہونا چاہیے تھا، یا جسمانی طور پر نارمل لڑکیوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ غلط جسم میں ہیں اور انہیں لڑکا ہونا چاہیے تھا۔

آئیے کروموسومز کے بارے میں کچھ تفصیلی گفتگو کرتے ہیں۔

حمل کے آغاز میں ہر بچے کا جسم لڑکی کی طرح کا ہوتا ہے۔ لیکن اگر بچے کے کروموسومز میں Y کروموسوم موجود ہے تو جب یہ کروموسوم فعال ہوتا ہے تو جنین میں لڑکی کے جنسی اعضا غائب ہونے لگتے ہیں اور لڑکے کے جنسی اعضا ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ البتہ اگر Y کروموسوم میں انتہائی اہم جین SRY نہ ہو یا کسی وجہ سے یہ جین فعال نہ ہو پائے تو ایکس وائے کروموسوم ہونے کے باوجود (یعنی جینیاتی طور پر لڑکا ہونے کے باوجود) بچے کے جسم میں لڑکے کے جنسی اعضا نہیں بن پاتے اور یہ بچہ پیدائش کے وقت لڑکی ہی معلوم ہوتا ہے۔

اسی طرح اگر کسی بچے کے کروموسوم XX ہوں تو ایسا بچہ لڑکی ہوتا ہے۔ لیکن اگر حمل کے دوران کسی وجہ سے ٹیسٹوسٹیرون ہارمون (یعنی مردانہ جنسی ہارمون) زیادہ بننے لگے تو بچے کے جنسی اعضا لڑکے جیسے بن جاتے ہیں اگرچہ جینیاتی طور پر یہ لڑکی ہی ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کی درست جنس کی فوری شناخت ضروری ہوتی ہے تاکہ ضروری سٹیرائیڈز فراہم کر کے اس سقم کو دور کیا جا سکے۔ اگر ایسے بچوں کا جلد علاج نہ کیا جائے تو ان کی موت واقع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے کے کروموسومز تو XY ہیں اور حمل کے دوران مناسب مقدار میں مردانہ جنسی ہارمونز بھی پیدا ہو رہے ہیں لیکن بچے کے جنسی اعضا کے علاقے میں وہ ریسیپٹرز موجود نہیں ہوتے جو مردانہ ہارمونز کے ساتھ بائنڈ کرتے ہیں اور جنسی اعضا کو لڑکوں جیسا بناتے ہیں۔ اس وجہ سے ایسے بچے کے جنسی اعضا لڑکی جیسے ہی رہ جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے پدر سری معاشرے میں والدین کو لڑکے کی ہی خواہش ہوتی ہے۔ نارمل لڑکی کے مقابلے میں ہمیں ابنارمل لڑکا زیادہ قابل قبول ہوتا ہے۔ جب غیرمتعین جنس کی بچی کو ڈاکٹر کے پاس لایا جاتا ہے تو ڈاکٹر فوری طور پر ان کے کروموسوم کا ٹیسٹ کرتے ہیں۔ اگر ٹیسٹ کے رزلٹ XY ہوں تو والدین یہ سن کر خوش ہو جاتے ہیں کہ جسے وہ بیٹی سمجھ کر پالتے رہے ہیں وہ اصل میں ان کا بیٹا ہے۔ فوری طور پر اس بچی کا نام تبدیل کر کے لڑکوں والا نام رکھ دیا جاتا ہے اور اسے لڑکوں جیسے کپڑے پہنا دیے جاتے ہیں۔ کسی ڈاکٹر سے دوسری رائے لینے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔

یہ غلطی ہمارے ہاں سرجن اور بچوں کے ڈاکٹر اکثر کرتے ہیں کہ دوسرے ڈاکٹروں سے مشورہ کیے بغیر ایسی بچیوں کی سرجری کر کے ان کے خصیے کھینچ کر خصیہ دانی یعنی scrotum میں اتار دیے جاتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ یہ خصیے کام کریں گے یا نہیں۔ ایسے بچوں کا عضو تناسل عموماً بہت چھوٹا ہوتا ہے اس لیے والدین کو کسی پلاسٹک سرجن سے مشورہ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے جو یہ مسئلہ حل کر دے گا۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں میں افسردہ ہوتا ہوں۔

کئی صورتوں میں یہ بچیاں بلوغت تک پہنچ چکی ہوتی ہیں۔ والدین عموماً ڈاکٹر سے مشورہ اس وقت کرتے ہیں جب بلوغت کا وقت آن پہنچتا ہے لیکن ان بچیوں کی چھاتیاں بڑی نہیں ہوتیں اور انہیں ماہواری نہیں شروع ہوتی۔ پھر وہی کہانی دہرائی جاتی ہے یعنی کروموسوم ٹیسٹ، اس بچی کے لڑکا ہونے کا اعلان، اور پھر والدین کا جشن۔ بچے کو لڑکوں والا نام دیا جاتا ہے اور مردانہ کپڑے پہنائے  جاتے ہیں۔

جب ایسے بچے میرے پاس لائے جاتے ہیں اس وقت ان کی جنس تبدیل کی جا چکی ہوتی ہے۔ اکثر صورتوں میں یہ تبدیلی بچی کو لڑکوں کا سا نام دینے اور لڑکوں کے سے کپڑے پہنانے کی حد تک ہوتی ہے۔ لیکن کچھ صورتوں میں بچی کی جنس ادھوری سرجری سے جزوی طور پر تبدیل کی جا چکی ہوتی ہے اور کشتیاں جلائی جا چکی ہوتی ہیں۔ موخرالذکر صورت میں واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا ہوتا۔

اگر خوش قسمتی سے یہ بچے مجھے اس وقت ریفر کیے جائیں جب ان کا آپریشن نہیں ہوا ہوتا تو ہم فوری طور پر ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بٹھاتے ہیں جن میں اینڈوکرینولوجسٹ (یعنی مختلف غدود کے ڈاکٹر)، گائنیکالوجسٹ، یورولوجسٹ، پلاسٹک سرجن، سائیکیاٹرسٹ، سائیکالوجسٹ، اور بچوں کے ڈاکٹر شامل ہوتے ہیں۔ اس بحث میں بچوں کے والدین کو بھی نمائندگی دی جاتی ہے۔ کئی والدین کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ لڑکا، خواہ وہ کتنا ہی نامکمل کیوں نہ ہو، ایک لڑکی کی نسبت زیادہ کامیاب رہتا ہے اور اپنی حفاظت خود کر سکتا ہے۔ لیکن میرا تجربہ کچھ اور ہی کہتا ہے۔ جن بچوں کی جنس بلوغت کے وقت تبدیل کی جاتی ہے، لڑکیوں کی نسبت ان کا جنسی استحصال ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

اگر ہمیں پہلے سے یہ علم ہو کہ آپریشن کے بعد بچے کے جنسی اعضا نارمل نہیں ہوں گے تو ایسے بچوں کو لڑکی کی صورت میں ہی رہنے دینا ان بچوں کے لیے کہیں بہتر ہے۔ انہیں جنس کی تبدیلی کی ذہنی اور جسمانی تکلیف سے گزارنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اگر ان کے نسوانی اعضا میں کوئی نقص ہو تو سرجری سے ان نقائص کو جزوی طور پر دور کیا جا سکتا ہے۔ ایسی سرجری کے بعد یہ لڑکیاں مکمل نسوانی خصوصیات حاصل کر سکتی ہیں، شادی کر سکتی ہیں، اور اکثر بچے پیدا کرنے کے قابل ہوتی ہیں۔ البتہ ان میں سے کچھ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم بھی ہوتی ہیں۔ ایسی لڑکیوں کو اگر سرجری سے مرد بنانے کی کوشش کی جائے تو ان میں سے اکثریت باپ بننے کی صلاحیت سے محروم پائی جاتی ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ نارمل جوڑوں میں بھی پندرہ فیصد کے قریب جوڑے بے اولاد رہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری تمام والدین اور ڈاکٹر حضرات سے گذارش ہے کہ اگر کسی بچی کو غیر متعین جنس کا مسئلہ درپیش ہے تو خدارا جلدبازی سے کام نہ لیجیے اور ان بچوں پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کے مکمل بورڈ سے مشورے کے بغیر کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیجیے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply