طلبا کے افکار پر مغرب کی نظریاتی یلغار

ہمارے نوجوان (بالخصوص طلبا) شروع دن سے ہی تمام باطل قوتوں کے بڑوں کا آسان ہدف رہے ہیں ۔ اس مد میں دشمنان اسلام و پاکستان کی تگ و دو تا حال جاری ہے بلکہ گزشتہ ایک عرصے سے اس ناپاک کاوش میں چند اصلاحات بھی کی گئیں ہیں اور دوبارہ ایک منظم انداز سے کام شروع کیا گیا ہے۔ آخر ہمارے نوجوان دشمن کے تیروں کا ہدف کیوں نہ ہوں؟ان نوجوانوں نے ہی تو آگے چل کر ملک و ملت کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔نوجوانان ہی ملت کا مستقبل ہوا کرتے ہیں ۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ جس قوم نے اپنے مستقبل کے متعلق ذمہ دارانہ رویے کا احساس کرتے ہوئے فکر مندی کے ساتھ اپنے نوجوانوں کی تربیت کی ، ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کیا اور جسمانی طور پر مضبوطی کے ساتھ ساتھ ان کی ذہن سازی کرتے ہوئے ان کو نظریاتی اعتبار سے بھی مستحکم کیا ، ان کی تاریخ تابناک رہی ہے۔ مگر دوسری جانب انسانی تاریخ میں کتنے ہی ایسے واقعات ہیں کہ جن قوموں نے اپنے نوجوانوں کی تربیت کے متعلق غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنایا، تو آج ان کے نام عزت و عظمت کے ساتھ کوئی نہیں لیتا۔ناکامی کے ساتھ ساتھ ذلت اور رسوائی بھی ان کا مقدر بنی۔

وطن عزیز پاکستان پر آج انتہائی نازک وقت آن پڑا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارا امتحان بھی ہے، کیونکہ فی الوقت پاکستان پر جو جنگ مسلط کی گئی ہے وہ ”فورتھ جنریشن وارفیئر”ہے۔ حکمت عملی کے اعتبار سے جس کو ”میڈیا اینڈ انفارمیشن وار” کے نام سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں نہ تو ہتھیار کی ٹکر ہتھیار سے ہے، نہ یہ ٹیکنالوجی کی جنگ ہے اور نہ ہی اس جنگ میں افرادکی افراد سے مڈبھیڑ ہوتی ہے، بلکہ اس طریقہ جنگ میں اصلی ہدف دشمن کا دماغ ہوتا ہے۔ ”فورتھ جنریشن وار” میں نظریات نظریات سے ٹکراتے ہیں، تہذبیں، تہذیبوں سے لڑتی ہیں، ثقافتیں، ثقافتوں کے مد مقابل آن کھڑی ہوتی ہیں۔ بحیثیت قوم ایک ساتھ دینے کے لیے فکری محاذ پر معرکہ آرائی ہوتی ہے۔ چوتھی نسل کی جنگ میں جو سب سے بڑا اور خطرناک ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے وہ ”میڈیا ” ہے۔ ”فورتھ جنریشن وار” میں جو سب سے زیادہ خونریز جنگ لڑی جاتی ہے وہ میدان مقتل میں نہیں بلکہ میڈیاکے محاذ پر لڑی جاتی ہے۔ خواہ پرنٹ میڈیا کا محاذ ہو، الیکٹرونک میڈیا کا محاذ ہو یا پھر سوشل میڈیا کا میدان، تمام کے تمام اہمیت کے حامل ہیں۔

پاکستان کے ضمیر فروش میڈیا کا استعمال اہل مغرب نے کس طرح کیا ،یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ پاکستانی میڈیا کے بعض بڑے ناموں کے ذریعے اللہ کے دین کے دشمنوں کا مقصد پاکستان کی نظریاتی و روحانی اساس کمزور کرنا بھی ہے، ان کا مقصد پاکستان کے اندر دہشت گردی کو فروغ دینا بھی ہے، ان کا مقصد پاکستان کے اندرفحاشی و عریانی الحادی سوچوں کو ہوا دینا بھی ہے، ان کا مقصد پاکستان کی مسلح افواج کو رسوا کر کے قوم کو بد دل کرنا بھی ہے، ان کا مقصد پاکستان کے اندر مایوس کن اعداد وشمار پھیلانا بھی ہے، ان کی کوشش پاکستان کے نوجوانوں کو راہ راست سے ہٹانا بھی ہے، ان کی کوشش پاکستان کے نوجوانوں کو قیام پاکستان کا مقصد بھلانا بھی ہے اور ان کی کوشش یہ بھی ہے کہ اس قوم کو ایسے نعرے دینے ہیں کہ یہ قوم اپنے اسلاف کے راستے سے دور ہوتی چلی جائے۔ مثلاًپڑھنے لکھنے کے سواپاکستان کا مقصد کیا؟

مذکورہ بالا تمام کوششوں کے پیچھے صرف اور صرف ایک مقصد چھپا ہے، چونکہ ان کا ہدف نوجوان نسل ہے تو اسلام اور پاکستان کے بدخواہ نوجوانوں کو (پاکستان کے مستقبل کو) مغرب کی جانب راغب کرنا چاہتے، طلبا کو فحاشی، عریانی اور اس دنیا کی رنگینیوں کے اندھیروں میں پھینکنا چاہتے ہیں۔
عزیز طلبا! آئیے آج ذرا ہم اپنے معاشرے کا اور تعلیمی اداروں کا دیانت داری کے ساتھ جائزہ لیں کہ ہم فورتھ جنریشن وار فئیر کے تحت یہود و نصاریٰ کی اس سازش کا کس قدر شکار ہوئے ہیں؟ آج ہمارے نوجوان کس لاشعوری طور پر کفریہ قوتوں کے جال  میں پھنستے چلے جارہے ہیں، آج اگر ہم اپنی درسگاہوں کی صورتحال کی جانب دیکھیں تو رنج و الم سے دل پھٹنے کو آتا ہے۔ آج ہمارے اپنے کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان طلبا مغربی نظریات کا اشتہار نظر آئیں گے۔ ہمارے نوجوان اپنا قبلہ و کعبہ مغرب کو سمجھنے لگے ہیں۔ نوجوانوں کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اسلام کے مطابق خود ڈھالنے میں شرم محسوس کرتے ہیں اور مغربی ثقافت اپنا ناقابل فخر بن چکا ہے۔اپنے کردار کی فکر ،نہ اپنے دین اور ذمہ داریوں کی۔ مگر ہاں فکر ہے تو اس بات کی کہ بالی وڈ کی نئی فلم کب آرہی ہے؟ کردار کیسے ہیں؟ لباس کیسے ہیں؟ فیشن کے کون کون سے نئے رحجانات متعارف کروائے گئے ہیں؟
اقبال نے اس صورتحال پر شکوہ کچھ یوں کیاہے:
یورپ کی غلامی نے رضا مند ہوا تو
مجھ کو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں

عزیز طلبا! سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ہماری صورتحال اس قدر خوفناک کیوں بن گئی ہے؟ آج ہم اسلامی ثقافت اور تمدن کی بجائے مغربی ثقافت کی عکاسی کیوں کر رہے ہیں؟ ہم اللہ کے دشمنوں کے گن گاتے ہوئے کیوں نظر آتے ہیں؟ اس کی وجہ صرف اور صرف اسلام سے دوری ہے۔ ہمارا تعلق اللہ کے ساتھ کمزور ہو گیا ہے۔ ہماری رغبت مسجد کی بجائے دنیا کی حرس و ہوس کی جانب بڑھ گئی ہے اور المناک بات یہ ہے کہ کفار کی سازشیں ممکنہ حد تک کامیاب ٹھہری ہے۔ وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ اس قوم کے نوجوانوں کو دنیا کی دلکشیوں میں الجھائے رکھیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بعض ڈال دے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اور نماز سے تم کو دور رکھے سو اب باز آجاؤ”
[المائدہ: 91]

یہ کلام جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جبرائیل کو دے کر روئے زمین پر بسنے والے بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لیے اتارا، ہمیں پیغام دے رہا ہے کہ ہم اپنی خواہشات کے خول سے باہر نکل کر شیطان آلہ کاروں کی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے اپنے وجود کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ڈھال لیں۔ایک بات ہم یہاں پر طے کر لیں، مغرب کے نظام ان کی اقدار ، تہذیب و تمدن زندگی کے کسی موڑ بھی ہمارے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی۔ جو افراد مغرب کے اصول و قوانین اپنا چکے ہیں۔ در حقیقت ان کی زندگی ایسے موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے جہاں سے تاریکیوں کی جانب سفر شروع ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ جہاں سے غبار نفس ایک مسلمان کی قدآور شخصیت کو کچل ڈالتا ہے۔ شیطانی طاقتوں کے سرغنوں نے صرف اسلام کی آفاقیت اور پاکستان کی نظریاتی اساس کے متعلق شبہات پیدا کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں آج اس قوم کے نوجوان اسلام سے اظہار بیگانگی اور سیکولرازم، لبرل ازم اور دوسرے بہت سے ازموں کی جانب مائل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان سے دلبرداشتہ اور یورپی ممالک کی جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن یاد رکھیے! مغرب کے یہ کھوکھلے نعرے ان بلبوں کی مانند ہیں جو ایک ہی لمحے میں یوں فنا ہو جائیں گے جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ یوں ہی شاعر نے اہل مغرب سے نہیں کہا کہ
تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی
شاخ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا۔۔۔!

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آج غوروفکر کریں اس بات پر کہ کفار کی اس سازش کے مقابلے میں میں نے کیا تیاری کی ہے؟ اور زیر بحث لائیں اس کو کہ آج ہمارا طالب علم جب سکول سے کالج اور کالج سے پھر یونیورسٹی کی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو وہ اس دنیائے فانی کی عارضی رنگینیوں کو اپنا منتظر کیوں پاتا ہے؟
آئیے اب ہم پاکستان کے دفاع اور استحکام کے لیے ”فورتھ جنریشن وار فئیر” میں اپنے کردار کا تعین کریں۔دانشور حضرات کا ایک بہت بڑا گروہ اس بات پر متفق ہے کہ ”فورتھ جنریشن وار” میں دشمن کے نظریاتی حملوںکا مقابلہ صرف اس صورت میں کر سکتے ہیں کہ جب ہم نظریاتی اعتبار سے مضبوط ومستحکم ہوں گے۔ وگرنہ کہیں ایسانہ ہو کہ آنے والا ہمارا ذکر اپنی کتابوں میں عبرت کے طور پر کرے۔ تو آئیے ہم اس بات کا عزم کریں کہ ہم اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست نظریاتی سرحدوں کے ناقابل تسخیر محافظ ثابت ہوں نگے۔ آئیے دنیا کو بتاتے چلیں کہ ہم پاکستان کے مستقبل کے معمار بھی ہیں اور فخر پاکستان بھی۔ ان شاء اللہ

 

Facebook Comments

Abdullah Qamar
Political Writer-Speaker-SM activist-Blogger-Traveler-Student of Islamic Studies(Eng) at IOU-Interested in International Political and strategic issues.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply