انسانوں کی جنت۔۔۔۔اسامہ ریاض

بھیڑیا چلایا ’’یہ گستاخ ہے۔ یہ ہمارے مذہب پر سوال کرتا ہے‘‘
دوسرا چلایا ’’ اِس نے جنگل سے غداری کی ہے۔ اِسے یہاں سے نکال دیا جائے ‘‘
تیسرا چلایا ’’ یہ اب سوال کرنے لگ گیا ہے۔ سوچنے لگ گیا ہے۔ اِسے مار دیا جائے ‘‘
درندوں کا ایک ہجوم تھا جو اُس پر چلا رہا تھا۔ کچھ اُسے پتھر مار رہے تھے۔ جنگل میں بہت اندھیرا تھا۔ وہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگا۔ ہر طرف جہالت کی جڑی بوٹیاں اُگی ہوئی تھیں۔ کئی ایک اُس کے پاؤں میں پھنسی بھی لیکن وہ اُن سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ جنگل ابھی بھی بہت طویل تھا۔ لیکن وہ بھاگتا رہا۔ فرقہ واریت اور لسانیت کے درختوں میں اُس کے کپڑے پھنسنے کی وجہ سے کئی جگہ سے پھٹ چکے تھے لیکن وہ پھر بھی بھاگنے سے نہیں رکا۔ وہ بھاگتا رہا کیونکہ جان بچانے کے لیے اُسے بھاگنا تھا۔
وہ چلتا چلتا بہت دور نکل آیا۔ انسان نما درندوں کے جنگل سے دور، بہت دور۔ اتنا کہ درندوں کے جنگل کی ہوا بھی اُس تک نہ پہنچ سکے۔ وہ اب نڈھال ہو چکا تھا لیکن اُس کی ہمت ابھی بھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اُسے معلوم نہیں تھا اُس کی منزل کہاں ہے لیکن وہ چلتا رہا۔

چلتے چلتے اُسے راستے پر ایک اور  زخمی ملا۔ اُسی کی طرح زخموں سے چور۔ وہ جلدی سے آگے بڑھا اُور اِس کے  زخموں پر مرہم رکھا۔ اِس  نئے مسافر نے اُسے بتایا کہ اُس کے جنگل کے باسیوں نے اُسے بھی جنگل سے نکال دیا تھا کیونکہ وہ اُن جیسا نہیں ہے۔ وہ غلط کو   صحیح  نہیں کہہ سکتا تھا اِس لیے اُسے نکال دیا گیا۔ وہ مسکرایا اور اپنے نئے  ساتھی کو ساتھ لے کر آگے کی طرف بڑھ گیا کیونکہ اُسے معلوم تھا کہ کامیابی کا سفر ہمیشہ آگے کی طرف کیا جاتا ہے اِس  لیے وہ چلتا رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

چلتے چلتے وہ ایک ویران جزیرے  پر پہنچا۔ بالکل ویران جزیرہ۔ ۔۔اُسے یقین تھا کہ دنیا کے کسی بھی خطے کو جنت بنایا جا سکتا ہے بشرط یہ کہ  وہاں رہنے والے انسان ہوں۔اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اِس ویران جزیرے  کو جنت بنائے گا۔ اُن دونوں نے اُس جزیرے  کی ترقی کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ آہستہ آہستہ جنگل سے نکالے اور بھی زخمی وہاں آتے گئے۔ وہ سبھی کے زخموں پر مرہم رکھتا۔ اُس نے ویران جزیرے  کی کچھ شرائط  رکھیں۔ جو اِن شرائط کو مانتا صرف اُسے پناہ دی جاتی اور جنگل سے زخمی آنے والے سبھی اُن شرائط کو مانتے۔ وہ شرائط کچھ یوں تھیں۔
یہاں رہنے والے ہر شخص کو اپنے مذہب کی آزادی ہو گئی۔
یہاں بولنے، سوال اُٹھانے کی آزادی ہو گئی۔
یہاں رہنے والے ہر شخص پر تعلیم حاصل کرنا فرض ہو گا۔۔
یہاں رہنے والا ہر شخص دوسروں کے  مسلک، مذہب، ذات پات، رنگ نسل کی تمیز کے  بغیر مدد کرے  گا۔۔
اِس ویران جزیرے  پر خاص جگہیں بنائیں جائیں گی جہاں ہر موضوع پر یہاں کا ہر باسی اپنی بات دل کھول کر کر سکے گا۔۔
یہاں کوڑا اُٹھانے والوں، خواجہ سراؤں ، عورتوں، بزرگوں اور سٹیج ڈراموں میں ہمیں ہنسانے والوں کا احترام کیا جائے گا۔
یہاں طبقاتی نظام نہیں ہو گا۔۔ سب لوگ برابر ہوں گے۔
یہاں رہنے والے کسی پر کفر، گستاخی کا فتوہ نہیں لگائیں گے۔
وہ شرطیں لگاتا گیا اور ویران جزیرہ جنت بنتا چلا گیا۔۔ اب وہاں ایک جنت ہے۔ انسانوں کی جنت۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply