تتھاگت نظم (14)۔۔۔۔اُنگلی مالا (ایک)

اُنگلی مالا (ایک)

ایک ضروری نوٹ
………………….
انگلی مالا کی کتھا بُدھ کی تعلیمات کا ایک خاص باب ہے۔ یورپی، جاپانی اور امریکی بودھوں نے کہا ہے کہ انسانی تہذیب میں زنداں (جیل) کو ایک اصلاح خانہ میں تبدیل کرنے کا پہلا سبق اس کتھا سے ملتا ہے۔جیل کو ایک reformatory میں تبدیل کرنے اور قیدیوں کوعملی تعلیم و تربیت دے کر انہیں پیشہ ورانہ مہارت سکھانا اس کتھا کی بنیاد ہے۔ بدھ جب وسط ہندوستان میں گاؤں گاؤں گھوم کر اپنے ویاکھیان دیتے پھر رہے تھے تو انہیں اُس رہزن کے بارے میں پتہ چلا، جو مسافروں کو لوٹ کر انہیں قتل کر دیتا تھا اور پھر ان کی انگلیاں کاٹ کر اپنی مالا میں پرو لیتا تھا۔ کسی کو بھی، یہاں تک کہ پڑوسی راجاؤں کو بھی یہ حوصلہ نہیں تھا کہ وہ فوج بھیج کر اس کی بیخ کنی کریں۔ مہاتما بُدھ اکیلے چلتے ہوئے اس ڈاکو تک پہنچے۔ انسانی برادری کے خلاف اسے کیا شکایت تھی جس کا بدلہ وہ انجان مسافروں کو قتل کر کے لے رہا تھا، اس کی زبانی یہ کہانی سنی۔ اپنی بات چیت سے اسے قائل کیا کہ اس راستے کو چھوڑ کر ان کے آشرم (سنگھ) میں شامل ہو جائے اور انسانی بہبودی کے لیے کچھ کام کرے۔ وہ اُسے بچوں کی طرح انگلی سے پکڑ کر اپنے آشرم میں لے آئے۔ جو کام اسے دیا گیا اس میں وہ ماہر تھا۔ چونکہ وہ سوئی دھاگے سے مردہ لوگوں کی انگلیاں اپنی مالاؤں میں پرویا کرتا تھا، اور سینے پرونے کا کام اسے آتا تھا تو اسے بھکشوؤں کے پھٹے ہوئے چولے (کرتے) مرمت کرنے کا کام دیا گیا۔جو وہ خوشی خوشی کرتا رہا ۔۔ جب قریبی راجہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ بھی آشرم تک پہنچا تا کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے کہ قیدیوں کو سدھارنے کا کام کیسے کیا جا سکتا ہے۔۔(لیکن یہ ایک الگ کتھا ہے!)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سوچتا رہتا ہوں اکثر میں تتھا گت
اِس جنم سے آنے والے اُس جنم تک
اُنگلی مالا کو گر معمول کے جنموں کی مالا میں پروئی
اگلی پیدائش تلک جانے دیا جاتا، تو اس میں کیا غلط تھا؟َ
یعنی اپنی ساری کرتوتوں کا پھل وہ بھوگتا …
بھوگتا اک ایک ہتیا ۰ کے عوض اک ایک بدتر زندگی ۰(ہتیا بمعنی قتل)
تو کیا غلط تھا؟‘‘
شائبہ سا ایک ہلکی مسکراہٹ کا (لگا آنند کو)
جیسے تتھا گت کے لبوں پر ، لمحہ بھر کو اک چمک کے بعد
اوجھل ہو گیا ہو۔

’’ہاں، تتھا گت … کیا غلط تھا؟‘‘
بھولے بچے کی طرح آنند اپنی ہٹ پہ قائم
خود کو ہی دہرا رہا تھا

ایک ’درشٹی کون‘۰ سے تو بات، اے آنند (درشٹی کون۔ بمعنی زاویہِ نظر)
بالکل ٹھیک ہے
لیکن کسی دوشی کو اس کے ڈنڈ۰ میں ایسی سزا دینا (ڈنڈ۔ بمعنی پاداش)
کہ جس سے نیائے ۰ تو ہو جائے، لیکن (نیائے بمعنی انصاف)
آنے والی اپنی اگلی زندگی میں پھر سزا جھیلے
کئی جنموں تلک
یہ ترک ۰ تو بالکل غلط ہے۔ ترک۔(ت ر ک) بمعنی منطق
جرم اک ہو تو سزا بھی ایک ہونی چاہیئے، نا؟
اور تم شاید نہ جانو، میں تو سب کو جانتا ہوں
سارے بھکشو، کب کہاں نردوش ۰ہوتے ہیں (نردوش ۔ بے گناہ)
ہمارے سنگھ میں آنے سے پہلے!‘‘

بے ضرر، معصوم، نردوشی …. بہت سے شبد تھے
آنند کے جو ذہن میں آئے، مگر وہ کچھ نہ بولا

’’ہاتھ چھِل جائے ہمارا، چوٹ آ جائے کہیں پاؤں میں…یا پھر
روگ لگ جائے کوئی تو
ہم دوا دارو تو کرتے ہیں…
اگر اک داغ لگ جائے دامن کو ، تو دھو کر
صاف کر لیتے ہیں
…پاپ بھی اک داغ ہے جو آتما کو مسخ کر دیتا ہے، بھکشو
اور اس کو اِس جنم میں ہی کسی حد تک مٹا لینا
گناہوں پر گِلانی۰ اور پشچاتاپ۰ کر لینا ( گِلانی :پچھتاوا۔ پشچاتاپ: توبہ)
بقایا زندگی اچھے کرم یوگی سا رہنا
کیا غلط ہے اس میں بھکشو؟‘‘

اور جب آنند تھوڑی دیر تک بھی کچھ نہ بولا
تو تتھا گت نے کہا
’’وہ سامنے دیکھو ہمارا دیکھشِت ۰ ( دیکھشِت بمعنی چیلا)
بیٹھا ہوا سب بھکشوؤں کے لمبے کُرتے
سوئی تاگے سے مرمت کر رہا ہے
ہر نیا بخیہ جو اس کے ہاتھ سے لگتا ہے
اس کے درجنوں پاپوں کے بخیے کھولتا ہے!‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر لگا آنند کو جیسے ذرا سا شائبہ مُسکان کا
ان کے لبوں پر اپنی ہلکی چھب دکھا کر اُڑ گیا ہو۔
…………………………………………………………………………………………….

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply