میلا حُسن۔۔افتخار بلوچ

میلا حُسن۔۔افتخار بلوچ/غازی عباس کے اندر بلوچانہ خصوصیات کے تمام دھارے اپنے حسن کے ساتھ موجود تھے۔ علاقے کے شوق و روایت کے عین مطابق اس نے تعلیم کو بڑی جلدی خیر باد کہہ دیا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ علم شخصی مشاہدے اور تجربے کا نام ہے اس میں نصابوں اور کتابوں کی ضرورت نہیں۔ انسان کا تجربہ ہی اتنا بلند ہونا چاہیے کہ وہ سچ اور جھوٹ کے فیصلے کر سکے۔ غازی ایک غصیلا شخص تھا۔ اس میں محبت کی خوشبو بھی تھی۔ اعلیٰ ظرفی بھی اتنی تھی کہ وہ جھگڑے کے بعد بھی دشمن خاندان کے بزرگوں کو سانجھا سمجھتا تھا۔

غازی کی زبیر جنگوانی سے لڑائی ہوئی تو زبیر سمجھا کہ یہ سرخ آنکھوں والا کالا سیاہ شخص اس کے بھاری بھرکم وجود کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوگا لیکن اس کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ زبیر نے غازی کے گھر کے سامنے آ کر ہوائی فائرنگ کی۔ اتفاقاً غازی گھر پر موجود نہیں تھا۔ خواتین سہم گئیں بچے رونے لگے۔ فائرنگ شروع ہوتے ہی شور مچاتی زندگی خوف سے بغل گیر ہوئی تو گھر کی سب سے بزرگ خاتون کو سمجھ آ گئی کہ غازی جو اسلحہ سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے اس کی وجہ کیا ہے۔

جب غازی کو خبر ملی تو وہ اتنی تیزی سے گھر پہنچا جتنی تیزی اس کی ہستی میں پوشیدہ تھی مگر زبیر جا چکا تھا۔ غصے میں آگ بگولا ہو کر غازی کلاشنکوف لیے زبیر کے گھر پہنچا۔ غازی بجائے اس کے کہ فائرنگ کرتا اور بلوچوں کی روایت کو پورا کرتا وہاں ایک عجب واقعہ رونما ہو گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ جب غازی نے زبیر کے گھر کے سامنے جا کر زبیر کو للکارا تو بجائے زبیر کے نکلنے کے زبیر کی بوڑھی ماں باہر نکلی۔ وہ بارعب خاتون چہرے کو ڈھانپے غازی کی طرف بڑھی اور یکایک ایک چانٹا غازی کے گال پر چھاپ دیا۔ غازی کی بلوچکی ختم ہو گئی۔ بلوچ عورت کے سامنے زمیں بوس ہو گیا! صدیوں سے عورت نے مرد کو جکڑ کر رکھا ہے اور یہ قید اتنی حسین ہے اتنی فطرت کے قریب ہے کہ جو مرد اس کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ انسانیت کے دائرے سے خارج ہو جاتا ہے۔ بلوچوں نے عورتوں کو قتل بھی کیا ہے تعلیم و حقوق سے محروم بھی رکھا ہے مگر غازی جیسے مرد بھی ان معاشروں میں پیدا ہوئے ہیں۔

تھپڑ کھا لینے کے بعد غازی صرف اتنا ہی کہہ سکا
“اماں! میرا جھگڑے تیرے بیٹے کے ساتھ ہے تو میری ماں ہے! یہ کلاشن پکڑ اور مار دے مجھے! خدا کی قسم اگر میں کچھ کر گیا تو میری ہستی پر لعنت.”
اس بزرگ خاتون نے نے جواباً کہا۔۔۔
“اگلی دفعہ اس گھر کے سامنے سے گزرنا بھی نہیں ورنہ تیری ماں تجھے روئے گی.”

ایسے معاشرے میں عورت سے متعلق غازی کے ساتھ پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے عورت سے متعلق جتنے تجربات غازی کے پاس تھے وہ سارے اس کے خاندان کی خواتین کے تھے۔

کچھ دن تو غازی شام کی محفل سے غائب رہا پھر ایک شام اسلحہ بردار ہو کر آن پہنچا۔ اہل محفل میں بڑی تشویش تھی۔ رسمی باتیں ہوئیں۔ کچھ زبیر کی غیبت ہوئی کچھ غازی کی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی۔ بہت کچھ امداد کی مد میں کہا گیا۔ دوستوں نے اسلحے کی رقم کی پیشکش کی جو غازی نے بڑی طمانیت اور خلوص کے ساتھ واپس موڑ دی۔

غازی بہت پُر سکون تھا۔ اطمینان اس کی آنکھوں سے واضح تھا۔ شاقی سہانی اس کیفیت کو سمجھنے والا تمام اہل محفل میں واحد نوجوان تھا۔ بلآخر اس نے بوجوہ تجسس پوچھ ہی لیا۔۔۔
“غازی! دشمن تیرے پیچھے ہے۔ تو بڑا پر سکون ہے۔ کیا تجھے زندہ رہ جانے کا اتنا یقین ہے؟”
غازی تھوڑے توقف کے بعد کہنے لگا۔۔۔۔
“نہیں۔ ہرگز نہیں۔ بس ایک بات کی وجہ سے سکون ہے اور وہ یہ ہے کہ میں جب سے جوانی میں آیا ہوں میں نے بزرگوں کو سانجھا سمجھا ہے اور شکر ہے زندگی اور موت کے مالک کا کہ میں نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے! ہم بلوچوں کی انا کافی حد تک غیر ضروری ہوتی ہے۔ بزرگ سانجھے ہوتے ہیں.”
شاقی سہانی نے بات سنی اور منہ بنا کر کہنے لگا۔۔۔۔
“واہ۔ معاملات قتل کے اور سبق اخلاقیات کا۔
غازی یہ سن کر ہنسنے لگا۔ ہنستے ہنستے اس نے کہا ۔۔
“یار شاقی! میرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نہ میں بحث کر سکتا ہوں نہ اپنے دفاع میں دلیل لا سکتا ہوں۔ اسی لیے مہربانی فرما کر  مجھ پر طنز نہ کر۔”
یہ کہنے کے بعد بھی وہ بہت ہنسا اور پھر اس کی ہنسی خاموشی میں چھپنے لگی۔ وہ خاموشی جس کے پردے کے پیچھے کوئی قہقہہ نہیں ہوتا بلکہ اپنی بلند فہمی کا ثبوت نگاہوں سے نظر آتا ہے۔

زبیر اور غازی کے جھگڑے کو دن گزرتے چلے گئے اور علاقے کی بے چینی بھی ختم ہوتی چلی گئی۔ مگر اس تبدیلی کے دوران وہ واقعہ ہوا کہ جس نے غازی کی بلوچکی کا سارا دم خم ہی ختم کر دیا۔ راکھ ہو چکی مردانیت سے حقیقت کے وہ سورج نکلے کہ غازی آج بھی اس دامانی علاقے کے نوجوانوں کا پیر ہے۔ سب اسے بزرگ سمجھتے ہیں اسی لیے وہ سب کا سانجھا ہے!

واقعہ کچھ یوں ہے کہ زبیر اور غازی کے جھگڑے کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ایک نوجوان بھکارن علاقے میں آنے لگی۔ اس کی شلوار کا داہنا پائنچہ پھٹا ہوتا تھا اور پیروں میں موجود جوتی جو کہ شاید کسی دور میں سفید ہوگی مگر اب زردی مائل ہوچکی تھی۔ ایڑیاں ادھ پھٹی ہوئی اور اس کٹاؤ میں جم جانے والی مٹی کے سارے نقوش جوتی پر ثبت نظر آتے تھے۔ بال دھول کے باعث اپنا سیاہ رنگ ہلکی سفیدی میں تبدیل کر چکے تھے۔ دو پیتل کے کنگن اس کے بائیں ہاتھ میں ٹائیں ٹائیں کرتے رہتے تھے۔ وہ بھکارن سر پر جست کا ایک دیگچہ رکھ کر ہر دروازے پر جاتی تو ہر نگاہ کی توجہ سے محروم رہتی۔ ہاں کچھ نہ کچھ آٹا اسے ضرور مل جایا کرتا تھا۔ نہ وہ کسی کے لیے دلچسپ تھی نہ کوئی اس کے لیے تھا۔ مگر ایک دن جب غازی کے گھر کا دروازہ بجا اور غازی نے دروازہ کھولا تو بھکارن اس کے لیے کشش کا مجسمہ بن گئی۔ ایک ایسی پہیلی جس کے سلجھانے کی کوشش نے جو سب سے پہلا وار کیا وہ غازی کی شناخت پر کیا۔ کیونکہ بلوچ ایسے لوگوں کو کمی کمین سمجھتے ہیں۔ جب انسان ہی کمی کمین ہو تو پھر اس میں حسن کا وجود ہی دھوکہ ہے۔ مگر لوگو ایسا نہیں ہے! یہ اس تمام علاقے میں غازی ہی جان سکا اور بہت قیمت دے کر اس نے یہ سبق سیکھا۔۔۔۔

اس دن تو غازی نے آٹا دے کر بھکارن کو روانہ کیا مگر خود کافی تک سوچتا رہا کہ کیوں اس عورت کو دیکھ کر وہ کیفیت طاری ہوئی ہے جو اب تک کسی عورت کو دیکھ کر طاری نہیں ہوئی۔
کچھ دن تک بھکارن نہیں آئی۔ اس تمام وقت میں غازی اور زبیر کے جھگڑے کے افسانے بھی مدہم ہو گئے۔ پھر ایک دن غازی نے بھکارن کو آتے دیکھا۔ وہ جلدی سے گھر پہنچا اور بھکارن کا انتظار کرنے لگا۔ مگر نہ دروازہ بجا نہ کوئی آہٹ آئی۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد غازی گھر سے نکلا اور گلیاں دیکھنے لگا مگر بھکارن کا کہیں نشان تک نہ تھا۔ اگلے کچھ دن تک غازی پھر یہی سوچتا رہا کہ آخر اس دیگچے کا ظرف اتنا کم کیوں ہے کہ میرے گھر تک بھی نہیں پہنچا!

دن گزرتے گئے اور مہینہ مکمل ہو گیا مگر بھکارن قصبے میں واپس نہ آئی۔ غازی کا دن بہ دن انتظار بڑھتا گیا اور امید کم ہوتی گئی۔ ایک اور مہینہ گزر گیا مگر بھکارن کا ظہور پھر بھی نہ ہوا۔ بلآخر غازی نے بے بس ہو کر شاقی سہانی کو یہ بات بتائی۔ شاقی حیران ہو گیا اور کہنے لگا۔۔۔۔
“غازی! وہ بھکارن ہے تو بلوچ ہے.
غازی پر اس بات کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے برملا جواب دیا۔۔
“کوئی بلوچ شلوچ نہیں۔ کچھ نہیں۔ کچھ بھی نہیں ہے شاقی۔ کہیں کچھ بھی نہیں ہے۔ میں نے بھی دنیا دیکھی ہے۔ خدا کی قسم! اس ذات کریم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے”
شاقی کو مجبوراً خاموشی اختیار کرنا پڑی لیکن وہ تھوڑے ہی توقف کے بعد پھر بولا۔۔
“کیا تجھے اس بھکارن سے محبت ہے؟”
غازی کے اندر جذبات کا ایک تلاطم تھا۔۔
“محبت ہے کہ عقیدت ہے۔ پتہ نہیں کیا ہے۔ تو بس اس کے ٹھکانے کا پتہ کر”
اب کی بار شاقی کو کراہت محسوس ہونے لگی ۔۔۔
“غازی صاحب یہ بہت غلط ہے۔ انتہائی غلط اور غلیظ کام ہے”
کوئی نہیں جانتا کہ غازی نے جب یہ بات سنی تو اس پر کیسی کیفیت طاری ہوئی۔ مگر تھوڑے وقفے کے بعد اس نے کہا۔۔
“شاقی! مجھے سن کر تجھے بہت احتجاج یاد آ گیا ہے۔ پچھلے دنوں میانوالی میں ایک باپ نے اپنی سات دن کی بچی کو پانچ فائر مارے۔ میں نے بندوق کا سامنا کیا ہے تو نے بھی کیا ہے۔ مجھے سچ بتا تجھے یہ واقعہ سن کر کیسا لگا تھا”۔
شاقی نے فوراً کہا۔۔
“بہت ہی برا۔ بہت دکھ ہوا تھا۔”
مگر اس سے پہلے کہ شاقی بات مکمل کرتا غازی بول اٹھا۔۔۔
“کوئی دکھ نہیں ہوا تھا۔ کچھ نہیں ہوا تھا۔ سن! میں اور تو اور ہمارے گھر والے اور یہ ساری دنیا اور اس دنیا کی ساری شناخت اگر خود کو مار کر بھی اس معصوم جان کی قیمت چکانا چاہے پھر بھی نہیں چکا سکتی۔ خدا کی قسم! جو زندگی جینے کے لیے آئے اور مار دی جائے اس کی دیت دینا ناممکن ہے! میں اتنی محبت کرنا چاہتا ہوں کہ میں مٹ کر ان تمام عورتوں کی کسی حد تک دیت ادا کر سکوں جو بے گناہ مار دی گئیں۔ تو اس بھکارن کے ٹھکانے کا پتہ کر”۔

شاقی خاموش تھا اور غازی کی دائیں آنکھ کا داہنا کونا نمناک، جس کے پیچھے سرخ ڈورے آسمان کی وسعت تک پھیل چکے تھے۔
شاقی کی تدبیریں غازی کے جنون کے سامنے ناکارہ تھیں۔

اگلے دن اڈے پر چائے کی سرکیاں بھرتے ہوئے شاقی نے چمکتی ہوئی سڑک کو دیکھا تو بھکارن اسے چلتی ہوئی نظر آئی۔ ایسی چال کہ جیسے کوئی ادائے بے نیازی سے جہان بھر کو ٹھوکریں مارتا چلا جا رہا ہو۔ شاقی کو چائے بھول گئی اور وہ ہوا کا سوار بن کر غازی کے گھر پہنچا۔ غازی گھر پر موجود تھا۔ جب غازی کو یہ علم ہوا کہ بھکارن آرہی ہے تو اس کی روح کے پاتال سے سرد لہریں اٹھنے لگیں۔ اس نے سوچا “ہائے وہ کالی رات کی بھرپور جوانی کہ جس میں جنگل جھومے اور مور ناچے مگر کون ہے ایسی آنکھوں والا جو اس مور کا ناچ دیکھ سکے۔ ہم بھی اس حسن کی کسی ابتدائی حد پر ختم ہو جائیں گے اس سے آگے ہمارا افسانہ سفر کرے گا!

غازی نے شاقی کو ہدایت کی کہ وہ بھکارن کا پیچھا کرتا رہے اور اس کا ٹھکانہ معلوم کرے۔ جب شاقی چلا گیا تو غازی نے ایک تاس آٹے کا بھر کر رکھ لیا اور بھکارن کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن یہ انتظار انتظار ہی رہا۔ نارسائی ایسے جذبوں کا اولین مقدر ہوا کرتی ہے!

شام ڈھلے شاقی تمام معلومات کے ساتھ واپس لوٹ آیا۔ اس بھکارن کا تعلق نو آمدہ ایک خانہ بدوش گروہ سے تھا جو پچھلے کچھ دنوں سے چند میل کے فاصلے پر گوشہ نشین تھا۔ ان کے مرد سارا دن تاش کھیلتے اور خواتین بھیک مانگتیں اور بچے مٹی میں لت پت رہتے۔

غازی اور شاقی نے دو دن بعد اس خانہ بدوش گروہ کے خیموں میں جانے کا سوچ لیا۔ انہوں نے مکمل منصوبہ بنایا۔ منصوبے کے مطابق انہوں نے اس جگہ جا کر اس خانہ بدوش برادری سے یہ معلوم کرنا تھا کہ آخر کس کی اجازت سے وہ لوگ اس زمین میں رہنے لگے ہیں اور اس بہانے اس بھکارن کا خیمہ اور باقی تفصیلات کے متعلق جاننا تھا۔

دو دن گزر گئے اور بھکارن کا ظہور نہ ہوا۔ مگر اب کی بار غازی کا تجسس اتنا آتش ناک نہیں تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس نے دو دن بعد اس پیر کی نگری جانا ہے۔
وقت مقررہ جب غازی اور شاقی خانہ بدوش گروہ کی جگہ پہنچے تو دیکھا وہاں ذی روح کا نشان بھی نہیں ہے۔ ایک طرف کیکر کی سوکھی ہوئی کانٹے دار شاخوں پر لٹکتے ہوئے چند بوسیدہ کپڑے اور لکڑی کی آگ سے جل کر کالے ہو جانے والے پتھروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

اسی اثناء میں انہیں قریب کی بستی میں چند نوجوان والی بال کھیلتے ہوئے نظر آئے۔ وہ دونوں وہاں چلے گئے۔ ایک نوجوان سے جب خانہ بدوش گروہ کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ
“بھائی جان! کل ان کو علاقہ بدر کر دیا ہم لوگوں نے کیونکہ ان پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے ہمارے سوبھا خان کی بکری چرائی ہے.”
غازی نے فوراً سوال کیا۔۔۔
“کیا یہ الزام ثابت بھی ہوا؟
اس نوجوان نے اسی تیزی سے جواب دیا۔۔۔
“جب الزام لگ جائے تو ثبوت کا انتظار کون کرتا ہے؟ انسان میں اتنا صبر کب سے آ گیا؟

Advertisements
julia rana solicitors

غازی خاموش ہو گیا۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply