ان شہیدوں کی دیت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ ۔۔۔زاہداحمد ڈار

معزز قارئین! انسان کبھی کبھار تعجب اور سوچ میں پڑ جاتا ہے ، جب اُسکی نظر کسی ایسی چیز یا کسی ایسے کام پر پڑتی ہے جو حقیقت میں بعید از استطاعت ہوتی ہے لیکن کچھ ہی پل میں جب یہ انسان اپنا من بنا لیتا ہے اور خود کو سمجھانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے کہ نہیں بھائی  !یہ نیک اور اچھا کام تو تم سے بھی ہوسکتا ہے، تم بھی معاشرے میں فلاح و بہبودی کے کام کرسکتے ہو، تم سے بھی یہ مفلوک الحال عوام کوئی توقع رکھ سکتی ہیں کیونکہ تم بھی اُنکے درد کا ازالہ کرسکتے ہو،تم بھی کم از کم ایک بچے کی پڑھائی کا خرچہ اُٹھا سکتے ہو اور اُسکی زندگی سنوار سکتے ہو، وغیرہ وغیرہ  ـ یہ سب خیالات اگر اُپ کے قلب و ذہن کو جھنجھوڑے تو سمجھنا آپ کے اندر ضمیر ابھی بھی زندہ ہے جو تمہیں خوابِ غفلت سے اُٹھا کر رفاعِ عامہ(Social Service) کے کاموں میں لگ جانے کے اشارے دے رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے سوجانے سے یہ ذمہ داری غیروں کو سونپی جائے یا خود غیر اس کام کے کرنے میں تن،من اور دھن سے لگ جائیں ،جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اسلام کے ماننے والے غریب اور مفلوک الحال (Downtrodden)عوام اپنی روزی روٹی کیلئے کہیں اپنے دین سے نہ پھر جائیں ، جسکی سزا بھی کل آخرت کے دن تمہیں کو نہ بھگتنی پڑے  اور معاذ اللہ آپ کے اسلام کے بارے میں بڑے بڑے دعوے شاید جھاگ کی طرح بے وزن نہ ہوجائیں ،لوگ آپ کو دیکھ کر اپنا راستہ بدل دینے پر مجبور  نہ ہوجائیں ، ایسی صورت نہ ہوجائیں کہ آپ کی کسی بھی بات کا اب اُنکی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا اور آپ خود کو کوسنے لگو گے کہ ہائے افسوس!  میں نے معاشرے میں ضرورت مند عوام کی پریشان حال لوگوں کو    دور کرنے میں کیوں کوئی جدوجہد(strive) اور کوشش نہیں کی ، ـ  کتنی ہی مائیں ہیں جو اپنے لختِ جگر اپنی آنکھوں کے سامنے کھو چکے ہیں، انکے صبر  کی اللہ سے آپ دُعا بھی کرتے ہیں، لیکن کیا  آپ  نے کبھی خود کو اُنکا بیٹا سمجھ کر اُنکی گھریلو ضروریات(Food,Clothing and Shelter) کو پورا کرنے کی کوشش بھی کی؟؟

کتنی ہی بہنیں ہیں جو اپنے بھائیوں کو تڑپ تڑپ کر شہید ہوتے ہوئے دیکھ چکیں ہیں،وہ اب بھی اپنے بھائیوں  کی  مدد کو ترس رہی ہیں،تو نے تعزیتی مجالس کے مسلسل تین روز تک خوب دعوے کیے لیکن کیا کبھی اُسکے بعد اُنکے گھر میں اپنا قدم رکھا اور اُن کا  سہارا (Support)بننے کی کبھی تگ و دو کی ہے۔۔ کتنے ہی بچے، نوجوان ، بزرگ مرد و خواتین حضرات پیلٹ(Pellet )کے لگ جانے کی وجہ سے اپنی آنکھوں کی بصارت کھو چکے ہیں، کیا اُنکے لئے کبھی تو نے کسی طرح کی مدد بھی کی؟ کتنے ہی طالبِ علم اب اپنی پڑھائی کو شاید بینائی کے کھو جانے کی وجہ سے مکمّل نہ کر سکیں گے ، اُنکے درد بھرے زخموں کے لئے تمہارے پاس مرہم رکھنے کا  کوئی ذریعہ ہے ؟؟؟ کتنے ہی مزدور اور تجارت پیشہ افراد نے اپنے اموال کوضائع ہوتے دیکھ لیا،کیا تو نے اُنھیں کبھی کسی قسم کی مدد کی ؟

اگر آپ کے پاس ان سب سوالوں کا جواب” نہیں ” میں ہے تو مہربانی کرکے خود کو بڑا عالم سمجھ کر مساجد اور مدارس میں اپنی  تقاریر سےعوام کی خدمت کرنے کی زحمت نہ کریں ـ اپنے آپ کی اصلاح میں لگ جائیں اور خود کو دھوکے میں نہ رکھیں، کوشش کریں آپ کی زبان سے وہی لفظ نکلے جس پر پہلے آپ خود عمل پیرا ہو ں اور کہیں آپ کا شمار بھی  لم تقولون ما لا تفعلون کے مخاطبین کی صف میں نہ ہو ــ

اگر آپ نے معاشرے کے ضرورت مند عوام کی خدمت کرنا اپنے لئے عار سمجھا اور غیروں کے سامنے مدد کے لئے اُنکو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کیا اور اپنی جانی،مالی اور وقتی قربانیاں دینے والوں کی قربانیوں کا سودہ قلیل قیمت میں وقت کے ظالم حکمران سے وصول کیا تو جان لو کہ تم ہی اصل میں معاشرے کے کمزور طبقہ عوام کے خون کے سودائی اور امن کو زک پہنچانے والے ہو۔  ـ اللہ اُنکی مدد کے لئے کسی نیک بندے کو ضرور بھیجے گا لیکن تم آخرت کے دن خود کی بھی مدد  نہ کر پاؤگے اور اپنی ذمہ داری کے ساتھ خیانت کرنے کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی اور پھٹکار کے مستحق بن جاؤ گے جوکہ حقیقت میں آپ کی ذلّت و رسوائی کا سخت ترین اور ابدی انجام ہوگا جسکے بعد تمہارا کوئی بھی عمل تمہیں ذرہ برابر بھی فائدہ نہ دے گا ،اور نہ تمہاری  سزا میں کسی قسم کی نرمی کرنے کی سفارش کی جائے گی ـ اللہ تبارک و تعالٰی بھی قرآنِ مجید کی  سورہ النّساء میں اسی چیز کی طرف ہماری توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں ـ”اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں اور اُن بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا ۔ اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا ۔ اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما ـ”

Advertisements
julia rana solicitors

پُرامن معاشرے  کا قیام یا اس کے لئے تگ و دو کرنے کے لئے اعلیٰ کردار اور اخلاق کی ضرورت پڑتی ہے جو ایک انسان کو اللہ کی دی ہوئی ہدایات یعنی قران و سنّت سے ہی حاصل ہوسکتی ہے ـ یہی وہ واحد راستہ ہے جس کی وجہ سےہی ایک طرف دُنیا میں انسان کے لئے امن وآشتی کی صبحِ نو طلوع ہوگی اور وہ اپنی زندگی کو خوشی اور مسرت کے ساتھ گزار سکے گا ـ اور دوسری طرف کل یومِ آخرت میں اللہ کے دربار میں سرخ رو ہوسکتا ہے ـ اللہ تعالٰی ہمیں معاشرے کے غریب اور مفلوک الحال عوام کی بالعموم اور ہمارے کل کے لئے اپنا آج قربان کرنے والوں کی بالخصوص خدمت اور اُنکے مشن کی آبیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ـ آمین۔

Facebook Comments

ڈاکٹر زاہد احمد ڈار
سرینگر، جموں و کشمیر، انڈیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply