اعراف میں آوارہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

“In the Limbo”کے زیر عنوان یہ نظم پہلے انگریزی میں لکھی گئی

کوئی دروازہ نہیں تھا قفل جس کا کھولتا
سر نکالے کوئی سمت الراس بھی ایسی نہیں تھی
جس سے رستہ پوچھتا
ایک قوس ِآسماں حدِّنظر تک
لا تعلق سی کہیں قطبین تک پھیلی ہوئی تھی
دھند تھی چاروں یُگوں کے تا بقائے دہر تک ۔۔۔
اور میں تھا

اور میں تھا۔۔
لاکھ جنموں کی مسافت سے ہراساں بھاگ کر
اعراف کے لا سمت صحرا میں بھٹکتا
کوئی روزن، کوئی در، کوئی دریچہ ڈھونڈتا، پر
یہ بھٹکنا خود میں ہی بے انت، ابدالدہر تھا
ایسی سناتن، قائم و دائم حقیقت
جس سے چھٹکارہ
فقط اک اور قالب میں دخول ِ عارضی تھا
اس جنم میں جو نئی زنجیر میں پہلی کڑی تھی
ان گنت کڑیوں کی صف بستہ قطاروں سے مرتب

اور میں خود سے ہراساں
یہ کہاں برداشت کر سکتا تھا
جس زنجیر سے میں
تسمہ پا ،
اک لاکھ جنموں کی مسافت
سے صیانت پا چکا ہوں
اس میں پھر اک بار
بستہ بند ہو کر چل پڑوں
بے انت جنموں کے نئے پیدل سفر پر؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاں، مجھے تسلیم ہے یہ
خانۂ مجنونِ صحرا گر د کی بے در مسافت
میرے ’ہونے ‘اور ’بننے‘
کے گزرتے وقت کا دورانیہ
برزخ کے باب و در سے عاری دشت میں ہی
تا بقائے دہر تک
جنموں کے دوزخ سے رہائی کے لیے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply