قدیم لکھنؤ میں عزاداری  از عبد الحلیم شرر۔۔۔حمزہ ابراہیم

دکن کی شیعہ سلطنت کےمغل بادشاہ  اورنگزیب عالمگیر کے حملوں کے نتیجے میں زوال کے بعد ہندوستان کی مسلم تہذیب کا مرکز دہلی ہی رہ گیا تھا  جو ایک صدی میں زوال پذیر ہوا تو  لکھنؤ مسلم تہذیب کا قبلہ قرار پایا۔ اردو کے معروف ادیب اور اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے عالم دین مولانا عبد الحلیم شرّر (1860۔1926)نے اپنی کتاب “گزشتہ لکھنؤ-مشرقی تمدن کا آخری نمونہ” میں اس شہر کی تہذیب  اور  رہن سہن  پر روشنی ڈالی ہے۔  اس مضمون میں 1974 ء کی چاپ  سے  ماہ محرم کی نسبت سے اہمیت رکھنے والے   اقتباسات پیش کئے گئے ہیں، جن میں تاریخی ورثے کے ذکر کے   ساتھ ساتھ آج کے معاشرے کا عکس بھی ملتا ہے۔ واوین (”   ۔  “) کے درمیان لکھا ہوا مواد مولانا کی تحریر ہے جبکہ انتخاب ،ترتیب اور عنوانات  مرتب  کےذوق کے مطابق ہیں  :۔

آصفی امام باڑہ

“انھوں (نواب آصف الدولہ) نے دریا کنارے مچھی بھون  کے مغرب طرف دولت خانہ رومی دروازہ اور اپنا یکتائے روزگار امام باڑہ تعمیر کرایا۔ 1784 ء میں اودھ میں قحط پڑ گیا تھا اور شرفائے شہر فاقہ کشی میں مبتلا تھے ۔ اس نازک موقعے پر رعایا کی دستگیری کیلئے امام باڑے کی عمارت چھیڑ دی گئی۔چونکہ شریف لوگ دن کو مزدوری کرنے میں اپنی بے عزتی خیال کرتے تھے،اس لئے تعمیر کا کام دن کی طرح رات کو بھی جاری رہتا اور غریب و فاقہ کش شرفائے شہر رات کے اندھیرے میں آ کے مزدوروں میں شریک ہو جاتے اور مشعلوں کی روشنی میں کام کرتے۔ اس عمارت کو نواب نے جیسے خلوص عقیدت اور جوش دینداری سے بنوایا تھا ویسے ہی خالص اور سچے دلی جوش سے لوگوں نے تعمیر بھی کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایسی نفیس اور شاندار عمارت بن کے تیار ہو گئی جو اپنی نوعیت میں بے مثل اور نادر روزگار ہے ۔ اس کا نقشہ بنانے کیلئے بڑے بڑے مشہور مھندس اور معمار بلائے گئے اور سب نے کوشش کی کہ ہمارا نقشہ دوسروں کے مجوزہ نقشے سے بڑھ جائے” [1]۔

محرم میں شہر کا ماحول

“محرم میں اور اکثر مذہبی عبادتوں کے ایام میں لکھنؤ کے گلی کوچوں میں تمام گھروں سے سوز و گداز تانوں اور دلکش نغموں کی عجیب حیرت انگیز صدائیں بلند ہوتی ہیں اور کوئی مقام نہیں ہوتا جہاں یہ سماں نہ بندھاہو۔ آپ جس گلی میں کھڑے ہو کے سننے لگئے، ایسی دلکش آوازیں اور ایسا مست و بے خود کرنے والا نغمہ سننے میں آ جائے گا کہ آپ زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔ ہندوؤں اور بعض خاص خاص سنیوں کے مکانوں میں تو خاموشی ہوتی ہے۔ باقی جدھر کان لگائیے نوحہ خوانی کے قیامت خیز نغموں ہی کی آوازیں آتی ہوتی ہیں۔

تعزیہ داری چونکہ نوحہ خوانی کا بہانہ ہے اسلئے سنی اور شیعہ دونوں گروہوں کے گھروں میں نوحہ خوانی کے شوق میں تعزیہ داری ہونے لگی اور سنی مسلمان ہی نہیں، ہزار ہا ہندو بھی تعزیہ داری اختیار کر کے نوحہ خوانی کرنے لگے”[2]۔

محرم میں لباس

“محرم چونکہ لکھنؤ میں ایک بڑی اہم چیز اور عزاداری کا زمانہ تھا اس لئےسوگواری اور نفاست اور نزاکت کا لحاظ رکھ کے یہاں محرم کیلئے خاص لباس اور خاص زیور ایجاد ہو گیا۔ ۔۔۔۔۔۔سبز، نیلا اور سیاہ رنگ اور اس کے ساتھ زرد رنگ بھی اس موسم کیلئے مناسب سمجھے گئے۔ چنانچہ یہاں محرم میں تمام عورتوں کا لاس انہیں مذکورہ رنگوں سے مناسب جوڑ لگا کر منتخب کیا جاتا۔ سارا زیور بڑھا دیا جاتا ، حتیٰ کہ چوڑیاں تک اتار دی جاتیں۔ جن کے عوض کلائیوں  کیلئے ریشم کی سیاہ و سبز پہونچیاں  اور کانوں کیلئے سیاہ و زرد ریشم کے کرن پھول ایجاد ہوئے”[3]۔

علمائے فرنگی محل

“علم بے شک یہاں دہلی سے آیا ہو گا لیکن پرانے زمانے میں علمائے دہلی میں صرف ایک شخص عبد الحق (محدث دہلوی) نظر آتے ہیں جنہوں نے حدیث اور علوم دینیہ میں شہرت حاصل کی۔ فرنگی محل کے سے کسی دار العلوم کا وہاں کسی زمانے میں پتہ نہیں لگتا۔ ہاں فرنگی محل کے مشہور ہو جانے کے بعد دہلی میں شاہ ولی الله(محدث دہلوی) صاحب کا خاندان البتہ بہت مشہور ہوا۔ جن کے فیض و برکت سے آج ہندوستان کے تمام شہروں میں علم حدیث کی تعلیم جاری ہوئی۔ لیکن اگر علم حدیث کی تعلیم اس نامور خاندان دہلی کی یادگار ہے تو اس کے ساتھ ہی صرف و نحو، منطق و حکمت اور معانی و بیان  اور دیگر فنون درسیہ کی تعلیم لکھنؤ کی نامور یونیورسٹی فرنگی محل کی یادگار ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔مجتہدین شیعہ کا آغاز بھی فرنگی محل سے ہوا۔ لکھنؤ کے پہلے مجتہد مولوی دلدار علی صاحب(غفران مآب) نے بھی ابتدائی کتب درسیہ فرنگی محل ہی میں پڑھی تھیں۔ پھر عراق میں جا کے علمائے کربلا و نجف کے سامنے زانوئے شاگردی تہ کیا۔ اور واپس آ کے خود فرنگی محل والوں کی تصدیق و تقریب سے مجتہد اور شیعہ فرمانروائے وقت کے مقتدا قرار پائے۔ انہوں نے چونکہ عراق میں تعلیم پائی تھی لہٰذا عربی کا نیا ادبی ذوق اپنے ساتھ لائے۔ اور ادب میں خاندان اجتہاد اور لکھنؤ کے شیعہ علماء کو فرنگی محل والوں پر ہمیشہ فوقیت حاصل رہی اور آج تک حاصل ہے۔ علمائے شیعہ کے ادبی مذاق نے لکھنؤ کو ادب کی تعلیم کا اعلی ترین مرکز بنا دیا جس نے مفتی میر عباس صاحب کا ایسا ادیب گراں پایہ پیدا کیا”[4]۔

مجالس عزا

“آداب صحبت میں دسویں چیز مذہبی صحبتیں یعنی عزاداری کی مجلسیں اور مولود شریف کی محفلیں ہیں۔ مجلسوں کا عام رواج شیعوں میں ہے اور مولود شریف کا سنیوں میں اگرچہ دونوں میں دونوں فریقوں کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی بعض محب اہلبیت سنی مجلس عزا کرتے ہیں اور شیعہ حضرات کے ہاں مولود شریف کی محفل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔مجالس ہی کی برکت سے یہاں مختلف قسم کے ذاکر پیدا ہو گئے جو جدا جدا عنوانوں سے مصائب سید الشہدا علیہ السلام کو بیان کر کے روتے رلاتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلے علماء و مجتہدین کا بیان ہے۔ اس کے بعد حدیث خوان ہیں جو احادیث کو سنا کر ایسے پر درد اور سوز و گداز کی آواز میں فضائل آئمہ اطہار اور مصائب آل رسول بیان کرتے ہیں کہ سامعین بے اختیار رونے لگتے ہیں۔ اور کیسا ہی سنگ دل ہو، ضبط گریہ نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔۔۔ان کے بعد مرثیہ خوان یا تحت اللفظ خوان ہیں جو مرثیوں کو شاعرانہ انداز میں سناتے ہیں۔ مگر اس سادگی کے سنانے میں بھی چشم و ابرو اور ہاتھ پاؤں کے حرکات و سکنات سے واقعات کی ایسی سچی اور مکمل تصویر کھینچ دیتے ہیں کہ سامعین کو اگر رقت سے فرصت ملی تو داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی مرثیہ خوانی کی ضرورت نے میر انیس اور مرزا دبیر پیدا کئے جو کمال شاعری کے اعلی ترین شہ نشین پر پہنچ گئے”[5]۔

نذر نیاز

“مجلسوں میں ختم کے وقت شربت پلانا یا مٹھائی یا کھانا تقسیم کرنا لازم ہے۔ مگر مہذب اور دولت مند لوگوں نے اب یہ نہایت ہی شائستہ طریقہ اختیار کر لیا ہے کہ جن حضرات کو بلانا ہوتا ہے ان کے پاس دعوت کے رقعوں کے ساتھ حصہ بھی بھیج دیا جاتا ہے۔ مجلس سے واپس آتے وقت ہاتھ میں حصہ لے کر چلنا بہت سے مہذب اور خوشحال لوگوں کو تہذیب کے خلاف اور نہایت مبتذل معلوم ہوتا تھا”[6]۔

مجلس کا نقشہ و ترتیب

“مجلس کی نشست کی شان یہ ہے کہ لکڑی کا ایک ممبر جس میں سات آٹھ زینے ہوتے ہیں، دلان یا کمرے کے ایک جانب رکھا ہوتا ہے اور لوگ چاروں طرف دیوار کے برابر پر تکلف فرش پر بیٹھتے ہیں۔ اور اگر مجمع زیادہ ہوا تو بیچ کی جگہ بھی بھر جاتی ہے۔ جب کافی آدمی جمع ہو جاتے ہیں تو ذاکر صاحب ممبر پر رونق افروز ہو کر پہلے ہاتھ اٹھا کر کہتے ہیں “فاتحہ”۔ ساتھ ہی تمام حاضرین ہاتھ اٹھا کر چپکے چپکے سورہ فاتحہ پڑھ لیتے ہیں۔ اس کے بعد اگر وہ حدیث خوان یا واقعہ خوان ہوئے تو کتاب کھول کر بیان کرنا شروع کرتے ہیں اور اگر مرثیہ خوان ہوئے تو مرثیے کے اوراق ہاتھ میں لے کر مرثیہ سنانے لگتے ہیں۔ مجتہدوں اور حدیث خوانوں کے بیان کو لوگ خاموشی اور ادب سے سنتے اور رقت کے موقعوں پر زار و قطار روتے ہیں۔ مگر مرثیوں کے سنتے وقت مجمع حاضرین سے، بجز رقت کے بندوں کے جبکہ رونے سے فرصت نہیں ملتی، برابر صدائے آفرین و مرحبا بلند ہوتی رہتی ہے۔

سوز خوان ممبر پر نہیں بیٹھتے بلکہ لوگوں کے بیچ میں ایک جانب بیٹھ کر نوحے اور مرثیے سناتے ہیں اور اکثر داد بھی پاتے ہیں۔

اکثر مجلسوں میں مختلف ذاکر یکے بعد دیگرے پڑھتے ہیں اور عموما حدیث خوانی کے بعد مرثیہ خوانی اور اس کے بعد سوز خوانی ہوتی ہے۔ سوز خوانی چونکہ دراصل گانا ہے اسلئے اس کا رواج اگرچہ لکھنؤ ہی نہیں، سارے ہندوستان میں کثرت سے ہو گیا ہے۔  مگر مجتہدین اور ثقہ اور پا بند شرع بزرگوں کی مجلسوں میں سوز خوانی نہیں ہوتی۔ مجتہدین کے وہاں کی مجلسوں میں پابندی دین کا بہت خیال رہتا ہے۔ خصوصا یہاں غفران مآب کے امام باڑے میں نویں محرم کو جو مجلس ہوتی ہے وہ خاص شان اور امتیاز رکھتی ہے۔ اس کی شرکت کے شوق میں لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ اس میں اثنائے بیان میں اونٹ حاضرین کے سامنے لائے جاتے ہیں جن پر کجاوے یا محملیں ہوتی ہیں اور ان پر سیاہ پوششیں پڑی ہوتی ہیں ۔ اور مومنین کو یہ منظر نظر آ جاتا ہے کہ دشت کربلا میں اہلبیت کا لوٹا مارا اور تباہ شدہ قافلہ کس مظلومیت اور ستم زدگی کی شان سے شام کی طرف چلا تھا۔   حاضرین پر اس المناک منظر کا ایسا اثر پڑتا ہے کہ ہزار ہا حاضرین سے دس بیس کو غش ضرور آ جاتا ہے۔ جو بڑی مشکل سے اٹھا کر اپنے گھروں کو پہنچائے جاتے ہیں”[7]۔

قدیم علوم کے علماء اور سیاست امروز

“(نواب )محمد علی شاہ نے 1842 ء میں سفر آخرت کیا ۔۔۔۔۔۔۔محمد علی شاہ کے بعد امجد علی شاہ اریکہ آرائے سر شہر یاری ہوئے۔ محمد علی شاہ نے کوشش کی تھی کہ ولی عہد سلطنت کی تعلیم اعلی درجے کی ہو۔ چنانچہ انھیں علماء و فضلا کی صحبت میں رکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ امجد علی شاہ بجائے اسکے کہ تعلیم میں کوئی نمایاں ترقی کریں، اخلاق و عادات کے لحاظ سے ایک ثقہ مولوی بن گئے۔ عنان حکومت ہاتھ میں آنے کے بعد ان کا جو حوصلہ تھا یہ تھا کہ وہ ان کے ساتھ ساری رعایا  جناب قبلہ و کعبہ کی حلقہ بگوش ارادت  بن جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ علمائے دین و مقتدایاں ملت کو پالٹکس سے کسی قسم کا واسطہ نہیں ہو سکتا۔ وہ نہ مدبر سلطنت ہو سکتے ہیں نہ سٹیٹس مین ، ان سے جو کچھ ہدایت مل سکتی یہ تھی کہ سیدوں کی خدمت گزاری کی جائے اور سلطنت کا روپیہ مومنین کی اعانت اور دستگیری میں صرف ہوا۔ اور یہ کام بھی ارادت کیش اور محتاط پرہیز گار فرماں روا ئے اودھ امجد علی شاہ کی نظر میں اسی وقت قابل اطمینان ہو سکتا تھا جب خود مجتہد العصر کے مبارک ہاتھوں سے انجام پائے۔ چنانچہ ملک کی آمدنی میں سے لاکھوں روپیہ زکات کے نام سے انکی نذر کیا جاتا اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خیرات کی رقمیں انھیں کے ہاتھ میں جاتیں۔

امجد علی شاہ کیلئے تقویٰ طہارت کا خیال مرض بن گیا تھا۔ انہیں اپنے خیال کی پابندی شرع سے اتنی فرصت ہی نہ ملتی تھی کہ نظم و نسق مملکت کی طرف توجہ کریں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ محمد علی شاہ نے اپنی تجربہ کاری و بیدار مغزی سے جو کچھ انتظامات کئے تھے، سب درہم برہم ہو گئے۔ اور یہ حالت ہو گئی کہ قاضی محمد صادق خان اختر کے بیان کے مطابق تمام عمال بدکار ،بد باطن اور خودغرض تھے”[8]۔

فرقہ وارانہ اعتدال

“بادشاہ(واجد علی شاہ) اگرچہ شیعہ تھے مگر مزاج میں مطلق تعصب نہ تھا۔ انکا پرانا مقولہ تھا کہ میری دو آنکھوں میں سے ایک شیعہ ہے اور ایک سنی ہے۔ ایک بار دو شخصوں میں مذہبی اختلاف پر مار پیٹ ہو گئی، بادشاہ نے دونوں کی معزولی کا حکم دیا۔ بلکہ اپنے وہاں ممنوع الملازمہ کر دیا اور فرمایا :’ایسے لوگوں کا میرے یہاں گزر نہیں ہو سکتا’۔۔۔۔۔۔۔اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ امام باڑہ سبطین آباد کا اور محل کے خاص امام باڑے  ‘بیت البکا ‘کا انتظام اور مجلسوں اور مذہبی تقریبوں کے بجا لانے کا انصرام بھی سنیوں ہی کے ہاتھ میں تھا۔ وہاں کبھی کسی نے اسکو محسوس ہی نہیں کیا کہ کون سنی ہے اور کون شیعہ ہے”[9]۔

حوالہ جات

[1] عبدالحلیم شرر، گزشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 38،نسیم بک ڈپو، 1974

[2] عبدالحلیم شرر، گزشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 215،نسیم بک ڈپو، 1974

[3] عبدالحلیم شرر، گزشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 289،نسیم بک ڈپو، 1974

[4] عبدالحلیم شرر، گزشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 119،نسیم بک ڈپو، 1974

[5] عبدالحلیم شرر، گزشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 356،نسیم بک ڈپو، 1974

[6] عبدالحلیم شرر، گزشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 358،نسیم بک ڈپو، 1974

[7] عبدالحلیم شرر، گزشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 358،نسیم بک ڈپو، 1974

[8] عبدالحلیم شرر، گزشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 62،نسیم بک ڈپو، 1974

Advertisements
julia rana solicitors

[9] عبدالحلیم شرر، گزشتہ لکھنؤ -مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، صفحہ 86،نسیم بک ڈپو، 1974

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply