رودادِ سفر (20) ڈراموں فلموں کے ذریعے کلچر سے واقفیت۔۔شاکر ظہیر

کچھ عرصہ بعد میمونہ جو میری بیوی کی سہیلی تھی نے اپنی رہائش تبدیل کی اور اس کالونی ( duan tou ) تون تھو میں شفٹ ہو گئی ۔ وہ کالونی جس میں وہ پہلے رہتی تھی فانگ چھن ( fan cun ) اس کے ساتھ ہی بہت سے ٹرک اڈے بن گئے تھے جہاں سے روڈ کے ذریعے ایوو ( yiwu ) کا بنا سامان چائنا کے مختلف علاقوں میں جاتا تھا اور دوسرے علاقوں کا بنا سامان ایوو ( yiwu ) آتا تھا ۔ اس لیے وہاں بہت شور ہو گیا تھا ۔

یہ نئی کالونی بنی تھی اور مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد یہاں رہتی تھی ۔ ان مسلمان کی اکثریت وہ تھی جو مختلف علاقوں سے کام کے سلسلے میں ایوو ( yiwu ) آئے تھے ۔ اور یہ زیادہ تر کسی غیر ملکی کی ٹریڈنگ کمپنی میں جاب کرتے تھے ۔

ایک دن ہم میمونہ سے ملنے اس کے نئے مکان گئے تو باہر نکل کر اس کالونی کو دیکھا جو مجھے اور میری بیوی کو بہت پسند آئی ۔ مجھے اس حوالے سے کہ میری بیوی اور بیٹی کی کمپنی کےلیے مسلمان موجود ہیں اور بیوی کو شاید اس لیے کہ اس کالونی میں اسے سکاف پہنے کافی ساری مسلمان لڑکیاں نظر آئیں جس کی وجہ سے وہ شاید خود کو یہاں اجنبی محسوس نہ کرے ۔ یہ کالونی ایوو نہر کے دوسری طرف تھی ، بہت پرسکون سا علاقہ تھا ۔ ویسے ہی گھومتے گھومتے ایک جگہ ایک مکان کا پتہ چلا جو کچھ دن بعد خالی ہونے والا تھا ۔ اس کی مالکن سے بات چیت کی اور اسے کچھ ایڈوانس رقم دی ۔ اس نے بتایا کہ اگلی ایک تاریخ کو شفٹ ہو جانا ۔ اس بلڈنگ کے دوسرے فلور پر ایک یمنی بھائی احمد اور ان کی فیملی رہتی تھی ۔ اس کالونی میں مسلمانوں کی کھانے پینے کی دوکانیں بھی تھیں اور ایک چھوٹی سی مسجد بھی ایک فلیٹ میں بنائی گئی تھی ۔ کافی سارے عرب خاص طور پر یمنی مسلمان اور ان کی فیملیز بھی نظر آئیں ۔ ایک چھوٹا سا پارک اور ایک باسکٹ بال کا احاطہ بھی تھا جہاں روزانہ شام کو میوزک کے ساتھ آنٹیاں ناچتی تھیں جسے یہ ایکسرسائز کہتے تھے ۔

پندرہ دن بعد ہی مکان خالی ہو گیا اور ایک شام میرے دل میں خیال آیا اور میں نے اپنے ایک پاکستانی دوست خرم کو بلایا اور سامان نئے گھر میں شفٹ کر دیا اور صبح خود بھی باقی چیزیں لے کر شفٹ ہو گئے ۔ نئی  مالک مکان یہ سمجھی کہ میں نے کسی کے پیسے دینے ہیں اور اس سے بھاگنے کےلیے راتوں رات اندھیرے میں شفٹ ہو گیا ۔ اس نے یہ بات مجھ سے کہی لیکن میری بیوی نے وضاحت کر دی کہ ہم نے کسی کا کوئی ادھار نہیں دینا ۔ یہ فلیٹ چوتھے فلور پر تھا اور پہلے والے سے بڑا فلیٹ تھا ۔ اس لیے کچھ مزید چیزوں کی ضرورت بھی تھی جو ساتھ ساتھ خرید لیں ۔ کچن سیٹ کیا اور میں نے شام کو گوشت اور دال ماش پکائی ۔ میری بیوی ایک برتن میں سالن خود لے کر دوسرے فلور میں موجود یمنی فیملی کو دینے گئی اور ان سے تعارف بھی حاصل کیا ۔ زبان الگ ہونے کے باوجود میری بیوی واپسی پر خوش تھی ۔ پھر معمول بن گیا کہ ہم کھانے کا تبادلہ کرتے رہتے تھے ۔

مغرب کے بعد میوزک کی آواز آنا شروع ہو گئی ۔ یعنی باسکٹ بال کے احاطے میں آنٹیوں نے میوزک پر ڈانس کرنا شروع کر دیا ۔ میں اور میری بیوی بھی بیٹی کو لے کر باہر چہل قدمی کرنے نکلے ۔ میری بیٹی حنا نیچے اترتے اور اوپر چڑھتے ہوئے یہ ضد ضرور لگاتی کہ میں نے بابا کے کندھے پر بیٹھ کر جانا ہے ۔ یعنی میں اس کی سواری تھا  ۔ احاطے میں ایک طرف کچھ لڑکے باسکٹ  بال کھیل رہے تھے اور دوسری طرف ایک بڑا سا ڈیک پڑا تھا جس پر میوزک چل رہا تھا ۔ ایک خوبصورت آنٹی انسٹرکٹر تھی جو سب سے آگے ڈانس کے سٹیپس ( steps ) آہستہ سے کر رہی تھی اور دوسری ساری پیچھے صفیں بنا کر اس کو کاپی کر رہی تھیں ۔ یہ شاید حکومت کی حمایت ہی سے تھا اور سامنے شاید یہ بات ہو کہ ایکسرسائز سے صحت بنتی ہے کہ جو لوگ اس علاقے کے پہلے کسان تھے اب مکانات بننے کی وجہ سے زمین نہیں رہی اور ان کا طرز زندگی تبدیل ہو گیا اب وہ صرف مکان کے کرایے لیتے ہیں اس لیے اس زمین کی کاشت کی محنت کی بجائے اب جسم کو ایسے حرکت دی جائے ۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی تھی کہ جہاں حکومت نے مذاہب پر پابندی لگا دی تو ایک کیمونٹی کے لوگوں کو اجتماعیت یا ایک جگہ اکٹھا کرنا ہے تاکہ وہ ایک معاشرے کے بندھن سے بندھ جائیں ۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ ایک خالق کا تصور رکھتا ہے جب بھی اس تصور کو ذہن سے مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایک خلاء پیدا ہوتا ہے اور یہ خلاء کیسے پُر کیا جائے یہ کیمونسٹ حکومت کےلیے ایک مسئلہ تھا ۔ کیمونسٹ حکومت کی انتہائی کوشش کے باوجود بھی اکثر میں نے یہی دیکھا کہ ہر کالونی والے سال میں کم ازکم ایک مرتبہ اپنے قریبی موجود کسی مندر میں کھانے پینے کی چیزیں اور اگربتیاں لے کر ضرور جاتے تھے ۔ وہاں وہ جو کچھ بھی عبادت کرتے بہرحال اپنے دل کی تسلی کر لیتے تھے ۔ جبکہ ہمارے دین میں عبادت کا مقصد نفس کا تزکیہ ہے جبکہ وہ لوگ وہاں اپنی فطرت میں موجود خالق کے تصور کے خلاء کو پر کرنے جاتے ہیں ۔ یہ مندر ہر علاقے میں کسی نہ کسی رنگ میں موجود تھے ۔ اور ہر سال میں ایک دن خاص طور پر یوم قبور بھی منایا جاتا ہے ، جسے ( Tomb sweeping festival ) کہا جاتا ہے ۔ قبور پر جا کر ان کی صفائی کی جاتی ہے اور اگربتیاں جلائی جاتی ہے ، پھول لے جا کر قبور کو سجایا جاتا ہے ۔ اس کے علاؤہ کھانے پینے کی چیزیں ، شراب اور سگریٹ قبور پر رکھے جاتے ہیں اس عقیدے کے ساتھ کہ یہ چیزیں ان مرحومین کی ارواح کو خوشی دیں گی ۔ یہ تصور شاید انسان کی فطرت میں رب کی ذات نے رکھا ہے کہ یہ موت سب کچھ ختم نہیں کرتی یا انسان اس بات کو کسی طرح ماننے کےلیے تیار نہیں کہ وہ ختم ہو جائے ۔ یا یوں بھی ہو سکتا ہے کہ وہ یہ چاہتا ہو کہ کہیں اس کے اچھے کئے گئے کاموں کا کوئی بدلہ تو ہو اور اس سے کی گئی ناانصافیوں کا کوئی ازلہ تو ہو ۔ اب ان تصورات کا اظہار کو مختلف تہذیبوں میں مختلف انداز میں کرتا رہتا ہے ۔ یہ تصور جب بھی انسان کے ذہن سے نکالنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج اس حد تک شدید نکلے کہ انسان کےلیے زندگی ہی بے مقصد ہو گئی اور وہ یہ سوچنے لگا کہ ختم تو ویسے ہی سب کچھ ہو جانا ہے تو یہ دشواریاں کیوں برداشت کی جائیں ۔ پھر یا تو وہ سب کچھ چھیننے لگ جاتا ہے یا سب کچھ ہار کر اپنی زندگی خود ہی ختم کر لیتا ہے ۔ جیسے جاپان جہاں خودکشی کی شرح بہت بلند ہے ۔

کیمونسٹ انقلاب کے بعد عبادت گاہوں کو بند کیا گیا تو ایسے احاطے ہر گاؤں میں بنائے گئے جہاں سے سارا دن لاؤڈ اسپیکر پر انقلابی نظمیں سنائی جاتی تھیں ۔ اب انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کے بعد ایسے کالونیاں بن گئیں تو اس کیمونٹی کو اکٹھا کرنے کےلیے ایسے احاطے بنائے گئے اور لوگ جو انقلابی نظمیں سن سن کر تنگ آ گئے انہیں یہ ڈانس کی نئی ایکسرسائز دی گئی جس سے ہر شخص کے حالات سے واقفیت ہو جاتی ہے ۔ جیسے باجماعت نماز یا چرچ کے سنڈے پروگرام میں سارے اکٹھے ہوتے ہیں جس سے ایک دوسرے سے واقفیت یا ایک دوسرے کو جاننے اور ایک دوسرے کے حالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ یہ آنٹیوں میں چائنا کے اندر جنون بن گیا کہ جہاں وقت اور جگہ ملی ڈانس شروع کر دیا اور کئی بار تو اس پر جھگڑے ہو جاتے ہیں ۔ کبھی ائیر پورٹ پر کبھی روڈ بلاک پر ۔

یہاں میمونہ اور میری بیوی کی دوسری سہیلی ( Ying Ying ) ین ین اکثر آتی تھیں ۔ کئی دفعہ تو میمونہ کام پر جاتے ہوئے اپنے بیٹے کو یہیں چھوڑ جاتی تھی ۔ اور اسے اطمینان ہوتا تھا کہ بیٹا ہمارے پاس ہے ۔ شاید ایسے ہی دور دور سے آئے ہوئے لوگ ایک دوسرے کا ساتھ دے کر اور کام آ کر معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں ۔ میری بیوی بھی انہیں لے کے کالونی میں موجود پارک میں بیٹھ جاتی ۔ بچے کھیلنا شروع کر دیتے اور وہ وہاں موجود یمنی خواتین سے کچھ سیکھنے لگتی ۔

ایک دن ایک ایغور خاتون فاطمہ وہیں پارک میں ملی جو اسی کالونی میں رہتی تھی ۔ میری بیوی اسے ساتھ گھر لے آئی ۔ وہ اپنے ساتھ ایک اور چیز بھی لائی اور وہ تھی انڈین فلمیں اور ڈرامے جن کو میری بیوی نے شوق سے دیکھنا شروع کیا ، انڈین پاکستانی کلچر کو سمجھنے کےلیے ۔ ان میں فلم ” دیوداس ‘ تو باقاعدہ چائنیز زبان میں ترجمہ ہوئی تھی اور ڈرامے  وہ تھے جو گھروں میں موجود سیاست کو دکھا رہے تھے ۔ ان ڈراموں میں گھروں میں موجود سازشوں کی کہانیاں تھی کہ کیسے مشترکہ فیملی سسٹم میں ایک دوسرے کو نیچا دکھایا جاتا ہے اور کیسے خاندان سے باہر کی گئی شادی کر کے لائی گئی لڑکی کو تنگ کیا جاتا ہے اور اس حد تک تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ مرنا زیادہ آسان سمجھتی ہے ۔ کیونکہ اس رویہ کی وجہ سے گھر بھی ایک جہنم ہی بن جاتا ہے ۔ اگر وہ اپنے شوہر کو شکایت کرے تو بھی وہ یقین نہ کرے ۔ اگر یقین کر بھی لے تو علیحدہ گھر لینا بھی ایک بہت ہی مشکل کام ہو ۔ اور ہمارا کلچر بھی اس علیحدہ رہائش کو مختلف حوالوں سے برا سمجھے ۔ پھر اس مشترکہ خاندانی سسٹم کے اندر بچوں کے حوالے سے مشکلات ۔ پھر وہ خاندان سے باہر شادی کرکے سے لائی لڑکی کے بچوں سے برا سلوک یہ سب اس کے ذہن میں ایک تصویر بنا رہا تھا ۔ اس نے مجھے سے میرے کلچر اور گھر کے متعلق سوالات شروع کر دیا کہ تمہارا گھر کیسا ہے اور کس کا مزاج کیا ہے اور کیا یہ سب کچھ تمہارے گھر میں بھی موجود ہے ۔ جتنا تسلی بخش جواب میں دے سکتا تھا دیا ۔ شاید اس وقت میرے سامنے یہ بات اتنی واضح نہیں تھی اور نہ ہی کبھی میں نے اس پر توجہ دی تھی ۔ میری بیوی نے میری بات پر یقین کیا کہ نہیں بہرحال ہمارے کلچر کے متعلق ایک نقشہ میری بیوی کے ذہن میں بن گیا ۔ اس نے آگے چل کر بہت قیامتیں گرائیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply