حیدرآباد کا مخلص سیکولر شاعر۔۔گوتم سروپ
تحریر۔مضطر مجاز
زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن اہل مذاہب نے اس کا خوب استحصال کیا ہے۔ جس کا فائدہ اٹھا کر اہل سیاست نے اس کو مذہب سے خوب بڑھا چڑھا کے جوڑا ہے اور زبانوں کے ساتھ تو نہیں لیکن برصغیر میں اردو کے ساتھ یہی المیہ ہوا ہے۔ بابائے اردو عبدالحق نے کھلم کھلا یہ دعوی بلا دلیل کردیا کہ پاکستان کا قیام ہی اردو کے لیے ہوا ہے اور ستم ظریفی یہ کہ اس قسم کی اور بہت سی باتوں نے اردو کو ہندوستان میں اچھا خاصا نقصان پہنچایا۔ لطف تو یہ ہے کہ خود برصغیر کے اس علاقے میں جو پاکستان کہلاتا ہے اردو کا کچھ خاص بھلا نہیں ہوا۔ بجز اس کے کہ کچھ معیاری ادب پیدا ہوگیا۔ اس خطہ ارض میں سیاسی استحکام بھی نہیں رہا اور جاگیرداری نظام کی اجارہ داری نے بھی انسانی قدروں کو خوب پامال کیا۔ جس کے نتیجہ میں اچھے ادب کی فصل لہلہا اٹھی۔ اس سے ہٹ کر وہاں دیکھیں تو کیفیت کا خانہ خالی نظر آتا ہے۔ آج تک وہاں اردو کو سرکاری زبان نہیں بنایا گیا۔ بات یہاں تک بگڑی کہ عصر حاضر کے عظیم شاعر فیض احمد فیض نے پنجابی زبان کو پنجاب کی سرکاری زبان بنانے کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں جلسے جلوس سبھی شامل ہیں ۔ جب کہ اردو کے لیے ایسی کوئی تحریک وہاں نہیں چلائی گئی۔
ہندوستان کا معاملہ ذراسا مختلف ہے۔ تقسیم کے مابعداثرات کی وجہ سے دوچار دہوں تک اردو اور اردو والے سہمے سہمائے رہے لیکن آہستہ آہستہ جب تقسیم ہند کے ہنگاموں کی گرد چھٹی تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئیں اردو کو علاقائی زبانوں کے ساتھ دوسری سرکاری زبان کا درجہ بھی ملا۔ اردو اکیڈیمیاں قائم ہوئیں اور ’’اردو‘ ایک شوخ کرن مثالِ نگہ حور رخصتِ تنویر‘‘ لے کر نمودار ہوئی۔ جس نے مشرق اور مغرب میں اجالا کیا۔ وہ اس طرح کہ جو اردو والے عرب ممالک یورپ اور امریکہ ہجرت کر گئے وہاں بھی انہوں نے اردو کی شمع روشن کی۔ اب اردو اچھی خاصی بین الاقوامی زبان بن گئی ہے۔
ہندوستان میں جو دراصل اردو کی جنم بھومی ہے جس نے روز اول ہی سے اپنا سیکولر کردار برقرار رکھا ہے منشی ہرگوپال تفتہؔ، راج نارائن چکبستؔ، سرورؔ جہاں آبادی سے تلوک چند محروم، من چندابانی اور جگن ناتھ آزاد تک (یہ محض چند نام ہیں ) ہزاروں ہزار اردو کے پرستار جنم لیتے رہے۔ اسی نواح میں ہمارا سودا، برہنہ پاگوتم سروپ بھی ہے۔ اردو شعر و ادب کا اس سے بڑا دیوانہ میں نے نہیں دیکھا۔ اردو کے اعلیٰ معیاری ادبی رسائل کو جلدیں بنا کر سینت سینت کر رکھنے والا شعر کے باریک ترین نکات سے آگاہی رکھنے والا، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی پیچیدہ بحثوں سے نبردآزما ہونے والا۔ افسوس کہ پچھلے سال ہمیں ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گیا۔ اور واقعی یہ ہم سب کے لیے سخت شرم ناک بات ہے کہ ہم نے اس کی کوئی قدر نہیں کی۔ وہ P.R.Ship کا آدمی ہی نہیں تھا ۔
بھوکا نہ تھا وہ شہرت نزدیک و دور کا
وہ اپنے فن کی عزت و عظمت پہ مرمٹا
بس چند شعری محفلوں میں شعر سنالیتا، نہ رسالوں وغیرہ میں اپنی شاعری چھپائی نہ کوئی مجموعہ کلام مرتب کیا۔ اب اس کے گھروالوں اور اس کے چند مخلص احباب نے اس کے خود نوشتہ و کرم خوردہ کاغذات کو جمع کرکے یہ مجموعہ ترتیب دیا۔ اس پر ایک سرسری نظر ڈالنے ہی سے ایک عام قاری بھی اندازہ کرسکتا ہے کہ اس کو فن و زبان کا کتنا پاس و لحاظ تھا۔ با ایں ہمہ اس کی شاعری محض لفظی گورکھ دھندا نہیں ۔ اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ باتیں تھیں ۔ اس کے دکھی دل سے کچھ آہیں نکلیں اور ان جنات کو اس نے شعر کے شیشے میں بند کردیا۔ ورنہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو لوگ فن و زباں پر زیادہ زور دیتے ہیں وہ اس کے دام فریب میں گرفتار ہو کر رہ جاتے ہیں اور شاعری کی دیوی سے بقول میرؔ ان غریبوں کو خلوتِ صحیحہ ہی نصیب نہیں ہوتی اور محض چوما چاٹی پر ہی اکتفا کرلیتے ہیں اور سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ بڑے مرد میداں ہیں ۔
گوتم سروپ کی پہلی محبت عام فیشن کے مطابق غزل ہی سے ہے اور غزل ایک ایسی منہ زور گھوڑی ہے جو بڑی مشکل سے قابو میں آتی ہے۔ ورنہ عام طورپر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ ساری عمر محض خچر سواری یا گدھا سواری پر گزرجاتی ہے لیکن اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم تومانے ہوئے شہ سوار ہیں ۔ گوتم سروپ نے شعر بڑی ذمہ داری سے کہے ہیں ۔ اس لیے کلام بھی ان کامختصر ہے۔ اگر مشاعرہ بازی کے چکر میں پڑتے تو شعری مجموعوں کا ڈھیر ضرور لگا دیتے لیکن شاعری دبے پاؤں رخصت ہوجاتی اور انہیں اس کی کانوں کان خبر بھی نہ ہوپاتی۔ ان کی کیفیت باطنی وہی تھی جسے غالبؔ نے
“شعر خودکردہ تقاضائے کہ گردد فن ما”
کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔
نہ کالج کے پروفیسر رہے نہ تحتانیہ وسطانیہ کے استاد۔ شاعری ان کا اپنا کسبِ فن تھا اور مشغلہ بھی ، غالباً ان کی طبع سلیم اور ان کا کثیر مطالعہ ہی ان کا استادِ فن تھا۔خاص بات یہ ہے کہ وہ بڑی اچھی نعتیں بھی کہتے تھے اور یہ نعتیں محض برائے بیت نہیں ہوتی تھیں ان سے ان کی پیغمبر اسلامؐ سے والہانہ عقیدت و محبت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ وہ بنیادی طورپر ایک مخلص انسان تھے اس لیے ان کے مصرع مصرع میں
’’ہے رگِ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو‘‘
والی کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے۔ ان کی اتنی پُر اثر نعتیں سن کر ایک ہونق الذّی نے گوتمؔ سے یہ سوال کرڈالا کہ جب آپ پیغمبرؐ اسلام سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں تو مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے۔ ان کی آنکھیں نم ہوگئیں اور جواب میں کہا کہ ’’یہی سوال جگن ناتھ آزاد سے بھی کیا گیا تھا اور انہوں نے جواب میں کسی فارسی شاعر کا یہ مصرعہ پڑھا تھا۔ میں بھی وہی آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔۔
کافر عشقم مسلمانی مرادر کار نیست!‘‘
اور وہ صاحب ہونقوں کی طرح کاندھے اچکانے لگے کہ شاید وہ فارسی سے واقف نہ تھے۔ میں بھی حاضر تھا وہاں ضبطِ سخن کر نہ سکا اور اقبالؔ کا یہ شعر سنادیا کہ
“مجھ کو تو سکھادی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملاّ ہیں کیوں ننگ مسلمانی”
خیر! بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔
گوتم سروپ نے میدان شعر و ادب کے کارزار میں لفظوں پر فتح پالی تھی۔ وہ لفظوں کا مرکب نہیں راکب بنارہا چنانچہ کہتا ہے ۔۔۔
مانا کہ بام و در تھے معانی کے خوش نما
ایوان و قصرِ لفظ مگر بے اساس تھے
دکن کی کاسموپالٹن تہذیب پر کس ناز سے کہا ہے
ہے فخر کہ جامیؔ و ولیؔ کا ہوں پرستار
ہے ناز کہ پروردئہ تہذیب دکن ہوں۔۔
پھر دوسری ہی سانس میں ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کی تعریف میں کہتے ہیں۔۔
خورشید درخشاں مجھے ہر ذرہ وطن کا
میں مظہرِ پاکیزگی گنگ و جمن ہوں
یہ سلسلہ چل پڑے تو صفحے کے صفحے سیاہ ہوجائیں گے۔ بقول میرؔ
لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں