اسکیپ ٹو پاکستان(Escape to Pakistan)/ڈاکٹر انور سعید(مترجم؛شاہین کمال)پانچویں /آخری قسط

ڈاکٹر انور سعید صاحب کا تعلق چٹاگانگ سے ہے،حالیہ کراچی میں مقیم ہیں، جہاں  ماہر اطفال کے طور پر کام کررہے ہیں ۔  عمر کی 73 بہاریں دیکھ چکے ہیں ۔ زیرِ نظر تحریر اُن کے سفر نامے”Escape to Pakistan”کا اردو ترجمہ ہے،اس کے بارے خود ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ “اسے فرار کہہ لیجیے یا کہہ لیجیے کہ زندہ بھاگ۔یہ میری یعنی ڈاکٹر انور سعید کی دلگیر کہانی ہے۔ میرا کٹھن سفر نامہ جو سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بنگلہ دیش سے پاکستان پہنچنے تک کی روداد ہے۔” شاہین کمال صاحبہ نے اس سفرنامے کا خوب ترجمہ کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors
چوتھی قسط کا لنک
پانچویں /آخری قسط

دسویں روز سردار نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اس نے حکومت کے زیرِ انتظام علاقے میں میرے لیے ایک قابل بھروسہ خاندان سے بات کر لی ہے. وہ مجھے اس وقت تک اپنے گھر میں پناہ دینے کے لیے تیار ہیں جب تک کہ میں حفاطت کے ساتھ برما آئل کمپنی کے کیمپ تک نہ پہنچ جاؤں. وہ ایک روہنگی خاندان تھا، نہایت خلیق و مہربان میزبان. میں جلدی ہی ان میں مدغم ہو گیا. یہ ویسے ہی رہتے اور کھاتے پیتے تھے جیسے میرے ہم وطن . سادہ سے سادگی پسند لوگ تھے. یہاں مجھے اپنے باغی میزبانوں کی طرح حرام کا دھڑکا نہیں تھا. یہ روزمرہ میں ابلا بھات اور سبزی کھاتے اور کبھی کبھار مرغی کے سالن کی عیاشی بھی کر لی جاتی. میرا رہنا کھانا سب مفتا مفت تھا کہ میرے امیر البحر سارا انتظام پیشگی کر گئے تھے .
BOC
یعنی برما آئل کمپنی کا ریفیوجی کمیپ دریا پار تھا مگر اس پتلی سی دریا کو پار کرنا مشکل امر کیوں کہ برمیز پولیس روہنگیاں یا باغی علاقوں سے آنے والوں سے بہت سختی سے پوچھ تاچھ کرتی تھی اور بنگلہ دیش سے بھاگ کر آنے والوں پر ان کی خصوصی نظر تھی. خوش قسمتی سے ایک ہفتے بعد ہی آل کلیر کا سندیسہ مل گیا اور میں اپنے مہربان میزبان سے رخصت لے کر گھاٹ پہنچا. گھاٹ پر لوہے کے بڑے بڑے پنجرے میں مرغیاں ٹھنسا ٹھس بھری ہوئی تھیں. یہ مرغیاں دریا پار کے ہفتہ وار بازار میں بیچنے کے لیے لے جائی جا رہیں تھی. میں چونکہ اسمگل کیا جا رہا تھا لہزا اگلے بیس منٹ مجھے ان مرغیوں سنگت میں بِتانے تھے. حالت کچھ یوں تھی میں کشتی کے تختہ پر اکڑوں، سر نہواڑے مرغیوں کے پنجروں کے بیچ گھرا ہوا، چھپا بیٹھا تھا. مرغیوں کی بیٹ کی بدبو تھی کہ سر پہ چڑھی جاتی اور میرا دم گھٹا جاتا مگر زندگی اور آزادی اتنی عزیز کے یہ سب جھیل گیا.
سورج پانی میں اترتے ہوئے بجھتا جا رہا تھا اور آسمان آہستہ آہستہ سیاھی مائل. کشتی آہستگی سے کنارے سے ٹکرا کر رک گئی اور لوگوں کا شور سنائی دیا. آناً فاناً کشتی پر سے مرغیوں کے پنجرے اتار لیے گئے اور ملاح نے مجھے بھی اترنے کا حکم دیا. میں جیسے ہی کشتی سے اترا، کیچڑ میں پھسل کر گرنے ہی لگا تھا کہ میرے مدد کے لیے پھیلے ہاتھوں کو یکایک ایک توانا اور کھردرے ہاتھوں نے تھام کر مجھے کھینچ لیا. میں نے حواسوں میں آتے ہوئے جیسے ہی نظریں اٹھائیں میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا کہ میرے سامنے باوردی پولیس والا کھڑا تھا. اس کے چہرے پر دام میں آئے شکار کو دیکھ کر شیطانی مسکراہٹ ناچ رہی تھی.
کہاں سے آ رہے ہو؟
اس نے میرا ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا.
پاکستان سے
میں نے منمناتی آواز میں کہا کہ میرا پھوٹ پھوٹ کر رونے کو جی چاہ رہا تھا.
اونہہ، بنگلہ دیش
اس نے میری تصحیح کی.
تمہارے پاس پیسہ ہے؟
اس نے خشک لہجے میں پوچھا.
نہیں
میں نے سر جھکائے جھکائے کہا.
ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
اسے یقین ہی نہیں آیا مگر میں نے رونی صورت بنا کر اسے اپنے پھکڑ ہونے کا یقین دلایا.
اچھا تم کم از کم رکشے کا بھارا تو دے ہی سکتے ہو ناں! میں تمہیں کونسیلیٹ لے چلتا ہوں.
اس نے قدرے نرمی سے کہا اور اب میرا رکا ہوا دم بحال ہوا.
مگر میرے پاس تو پیسہ ہے ہی نہیں . جب کہ حقیقت یہ تھی کہ چلتے ہوئے اماں نے میرے زیرِ جامہ میں سو ڈالر کا ایک نوٹ چھپا کر سی دیا تھا مگر میں کسی بھی قیمت پر اسے یہ نوٹ دینے والا نہ تھا.
آخر کار وہ رام ہو گیا اور کہا چلو میں تمہیں کونسیلیٹ لیے چلتا ہوں، رکشے کا کرایا بھی میں ہی دے دوں گا.
وہ مارا !! میرا جی چاہا کہ میں خوشی سے ناچوں.
راستے بھر وہ مجھے بھکاری ہونے کا طعنہ دیتا رہا اور میں مغموم چہرہ بنائے ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکالتا رہا. کونسیلیٹ قریب ہی تھا.
ہم لوگ کونسیلیٹ کی شاندار عمارت کے کمپاؤنڈ میں سیڑھیوں کے قریب کھڑے تھے. اتنے میں بغلی کمرے سے سلک کے ڈریسنگ گاؤن میں قیمتی سگار منہ میں دبائے، پاکستانی نائب کونصل مسٹر رفیق برآمد ہوئے. انہوں نے اوپر ہی کھڑے ہو کر کسی راجے مہا راجے کی طرح مجھ غریب کی بپتا سنی اور ایک شانِ استغنا سے یہ مانے ہی سے انکار کر دیا کہ میں ایک بد نصیب پاکستانی ہوں. ان کا خیال تھا کہ میں بنگالی ہوں جو موجودہ صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان جانا چاہ رہا ہے. خوش قسمتی سے میرے پاس میری ایم بی بی ایس کے فیس کی رسید تھی، میں نے جلدی سے اس رسید کی پشت پر اپنے چچا جو کراچی میں مقیم تھے ان کا نام، گھر کا پتہ اور فون نمبر لکھ کر انہیں دے دیا. وہ اپنے اندازے کی صداقت پر اس قدر مستحکم تھے کہ ایک نظر اس کاغذ پر ڈال کر انہوں نے اسے مٹھی میں بھینچا اور حقارت سے دور پھینک دیا. وہ شاید اپنی برج کی گیم میں میری بے وقت و بے جا مداخلت سے جزبز ہو گئے تھے. وہ مجھے سیڑھیوں پر حراساں و حق دق چھوڑ کر تن فن کرتے ہوئے واپس اپنی محفل میں لوٹ گئے.
اس سپاھی نے سختی سے میرا بازو جکڑا اور کہا کہ تمہارا ملک تو تمہیں قبولتا نہیں سو چلو میرے ساتھ کوتوالی چلو، وہاں سے صبح تمہیں جیل جانا پڑے گا.
اس وقت تک رات گہری ہو چکی تھی اور مجھے شدید پیاس لگی تھی اور میں بھوکا بھی تھا.
میں نے کہا میں بھوکا ہوں.
پیسہ ہے تمہارے پاس؟
اس نے گہری نظروں سے مجھے تولتے ہوئے سوال کیا.
میں نے نفی میں منڈیا ہلا دی.
سالا جیب میں نہیں دھیلا اور کھانے کو مانگے کیلا !! چپ کر کے میرے چلو. میں تم کو ابھی لاک اپ میں بند کرتا ہوں، صبح جیل لے جاؤں گا. ہم دونوں دوبارہ اسی رکشے میں سوار ہوئے جو شاید ابھی تک اپنے محنتانہ کی وصولی کے لیے سراپا انتظار تھا.
وہ مجھے قریبی تھانے لے آیا اور تھانیدار کو صورت حال سے مطلع کیا. ایک سپاھی مجھے دھکیلتا ہوا لاک اپ کے پاس لایا اور دروازہ کھول کر مجھے اتنے زور سے دھکا دیا کہ میں اندر پھیلی غلاظت پر گرنے سے بال بال بچا.
چھوٹے سے لاک اپ میں جو کموڈ تھا اس سے غلاظت ابل ابل کر باہر آ رہی تھی اور فرش پر ہر جگہ پیشاب ہی پیشاب تھا، بالشت بھر جگہ بھی سوکھی نہ تھی. میں پنجوں کے بل چلتا ہوا بمشکل ایک خشک کونا ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا. اس گُھٹے ہوئے مختصر سیل میں بول و براز کی ایسی شدید بدبو کہ سانس لینا محال تھا اور میں اپنی ابکائی روکنے پر قادر نہ تھا.
جیسے جیسے رات ڈھلتی جارہی تھی توں توں اس کوٹھری میں غندے موالیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی. یہ سب وہ شہدے شرابی اور چور اچکے تھے جنہیں جوئے خانوں اور تھڑوں پر شور شرابے اور دھینگا مشتی کے الزام میں کوتوالی لایا جارہا تھا. چھوٹی سی کوٹھریا ان موالیو کے پسینے اور سانسوں میں دیسی ٹھرے کی بدبو سے مزید ناقابل برداشت ہو چکی تھی. ہر نیا آنے والا کوٹھری کی غلاظت میں اضافہ گویا فرضِ عین جانتا اور اب یہ حال تھا کہ میں سرکتے سرکتے دیوار سے لگ کر اپنے پنجے کے بل کھڑا رہنے پر مجبور تھا.
ان بے رحم سلاخوں کے پیچھے اس ہجوم میں، میں ہی تنہا تھا کہ وہ سب ایک جیسے تھے اور بس میں ہی مختلف. ان سب کی متفقہ رائے تھی کہ صبح مجھے جیل ہو جائے گی. وہ سب صبح آزاد پنچھی ہوں گے جبکہ میں اکیلا پابند سلاسل. اسیری بھی ایسی جس سے
تا حیات رہائی ممکن نہیں.
اب مجھے صحیح معنوں میں ڈر لگنے لگا تھا. میں اس اجنبی سر زمین پر اپنوں سے دور، تنہا و بے یارو مددگار تھا. میرے وطن نے مجھے قبول نہیں کیا اور میرے ماں باپ میرے انجام سے انجان، اب دشمن ملک میں اسیر و پابند . وہ کبھی بھی میرا کھوج نہیں لگا پائیں گے. مجھے پاکستان کہیں بہت دور دھندلکوں میں گم ہوتا محسوس ہوا. میں انجانے دیس میں ان غنڈوں موالیوں کے درمیان، حوالات میں غلاظت میں لتھڑا خوف زدہ تھا. پہلی بار حقیقت پوری سفاکی سے میرے سامنے عیاں تھی اور میں اندر ہی اندر لرز رہا تھا. مجھے لگ رہا تھا کہ میری آنکھیں بےنور ہو چکی ہیں اور میرے سارے سنہرے خواب مجھ سے چھین لیے گئے ہیں. اس پورے سفر میں یہ پہلا موقع تھا جب میں شدید خوف زدہ اور مایوس تھا. پھر اس گھور اندھیری رات میں پورے صدق دل سے میں نے اسے پکارا جیسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ ہی نیند. میں رویا اور زار زار رویا. شاید میں اپنی زندگی میں اس پہلے اور اس کے بعد کبھی اتنا نہیں رویا گو نجاست میرے پیروں کو چھو رہی تھی مگر میں ہر چیز سے بے نیاز مبتلاء آہ و زار رہا. تمام رات اسے پکارتا رہا جیسے پکار کر کبھی کوئی مایوس نہیں ہوا. ساری رات حالت اضطرار میں گزری. پل بھر کو بھی تو آنکھ نہ لگی تھی، حالاں کہ سننتے آئے ہیں کہ نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے. پو پھٹنے کے ساتھ ہی میرا دل گویا ٹھہر سا گیا، طبیعت میں ایک گونا اطمینان اور سکون تھا.
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
صبح ہوئی تو پرانی، مڑے تُڑے کنارے والی بد رنگی تام چینی کی پلیٹوں میں ابلا ہوا موٹا بھات اور پانی جیسی پتلی بد ذائقہ دال کھانے کو ملی. میرے چوبیس گھنٹوں کے خالی پیٹ کے لیے یہ کھانا من و سلویٰ سے کم نہ تھا. باوجود کہ اس کے کھانے میں کنکر اور ریت کی افراط تھی، میں مر بکھوں کی طرح کھاتا
چلا گیا. میرے ہاتھ میں ابھی آخری نوالہ ہی تھا کہ کوٹھری میں مجھے وہ رات والا سپاہی نظر آیا.
یا خدا!! یہ اتنا سویرے سویرے مجھے جیل لے جانے کے لیے آ گیا؟
میں نے اس سے نظریں بچاتے ہوئے آزردگی سے سوچا.
اسی اثنا میں اس کی نظر مجھ پر پڑ چکی تھی اور وہ دور ہی سے چیختا ہوا میری جانب لپکا.
تمہارے لیے اچھی خبر ہے!
تمہارے لیے اچھی خبر ہے!
تمہیں نائب قونصل نے واپس بلایا ہے.
مجھے لگا میرے کان بج رہے ہیں مگر کوٹھری کا کھلا دروازہ میری نجات کا ثبوت تھا. مجھ پر گویا شادی مرگ طاری تھی. میرا روم روم شکر گزار تھا، میرے رب نے میری سن لی تھی.
اس ربِ مہربان کے اپنے طریقے ہیں اور اس کے ” کن” کا وقت متعین ہے.
اللہ تعالیٰ کا میرے حق میں یہ معجزہ ہی تھا کہ مسٹر رفیق نے کاغذ کا وہ ٹکڑا دوبارہ اٹھا لیا تھا، جس پر میں نے انہیں اپنے چچا کا نام، پتہ اور فون نمبر لکھ کر دیا تھا. انہوں نے اسی رات اسلام آباد ٹیلکس کیا اور خدا کی شان کہ وہاں سے بروقت ٹیلکس کا جواب بھی آ گیا اور رفیق صاحب یہ ماننے پر مجبور ہو گئے کہ میں بنگالی نہیں بلکہ حقیقتاً پاکستانی ہوں. ایک ہی رات میں یہ سب ہو جانا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟
بےشک یہ میرے رب ہی کی شان ہے اور وہ محرم راز دعاؤں کا سننے والا ہے.
حوالات سے میں بی او سی یعنی برما آئل کمپنی کے مہاجر کیمپ پہنچا دیا گیا. یہ مہاجر کیمپ پاکستانی قونصل کے زیرِ انتظام تھا. وہاں میں محفوظ تھا مگر کیمپ میں دن گزارے نہ گزرتے تھے. ساحل پر تو پہنچ گیا تھا مگر منزل ہنوز دور تھی. اس کیمپ میں انتظار کے دن کھینچتے ہوئے میں نے چار طویل ہفتے گزارے. بالآخر وہ شبھ گھڑی آئی جب مجھے یہ پیامِ جاں فزا ملا کہ چوبیس نومبر 1972 کو کراچی جانے والے جہاز میں میری سیٹ بک ہے.
کیمپ کے اس ایک مہینے کے قیام کی کہانیاں اگر لکھنے بیٹھوں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے. کیمپ میں نفسانفسی کا عالم اور خود غرضی کی مسموم فضا تھی. وہاں لوگوں کے بدلتے رویے اور چہرے تھے کہ مشکل وقت ایسا شفاف آئینہ جو انسان کے سارے نقاب اتار کر اس کا باطن ظاہر کر دیتا ہے.
کیمپ کے ان چار ہفتوں کے قیام میں مسٹر رفیق میرے بہت قریب آ گئے اور ان کے تجربے اور بصیرت افروز باتیں زندگی بھر میرے لیے مشعل راہ رہیں. میرے پاس آج بھی ان کا تحریر کردہ آخری خط موجود ہے اور وہ میرے لیے کسی استاد ہی طرح معزز و محترم بھی.
بلاشبہ زندگی، وقت اور حالات امتحان لیتے ہیں مگر خدائے واحد پر یقین کامل ہر مشکل سے نکال دیتا ہے.
سو دوستوں یہ ہے میری کہانی اور اب میرا آب و دانہ مجھے لونگ آئی لینڈ امریکہ لے آیا ہے.
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے اُدھر کے ہم ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply