اسرائیل نوازی بہت ہوگئی /علی ہلال

غزہ کی جنگ کے شعلے اسرائیل کی وحشیانہ فورسز کے مالی تعاون کرنے والے مغربی سرمایہ کاروں کے گھروں تک پہنچ گئے ۔ امریکہ سمیت مغربی دنیا میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کی سطح پر جاری احتجاجی سلسلے نے مغربی ممالک کو پریشان کردیا ہے۔ دنیا کی نوجوان نسل کے دل ودماغ پر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کمند ڈالنے والی مغربی قوتیں اپنی  ہی دانش گاہوں کے  درودیوار میں اٹھنے والے طوفان کو روکنے سے عاجز ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعاون کے خلاف امریکی یونیورسٹیوں کی سطح پر شروع ہونے والے مظاہروں میں شدت آگئی ہے ۔ آخری اطلاعات کے مطابق کولمبیا کی یونیورسٹی سے شروع ہونے والا احتجاجی مظاہرو ں کا دائرہ ایک سو یونیورسٹیوں کے قریب  پہنچ چکا  ہے جس کے بعد امریکی حکومت نے نیشن فورسز کو تعلیمی اداروں کے اندر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

18 اپریل کو امریکی ریاست کولمبیا کی یونیورسٹی کے احاطے میں فلسطینی حمایت کرنے والے کچھ طلبہ نے احتجاج کیا۔ یہ پُرامن احتجاج کیلی فورنیا یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف تھا۔ انتظامیہ نے اسرائیل  حامی کمپنیوں کے ساتھ سرمایہ کاری کی تھی۔ جس پر ان طلبہ نے احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے پرام مظاہرے کا انعقاد کیا ۔ تاہم انتظامیہ سے نہتے طلبہ وطالبات کا یہ مظاہرہ برداشت نہ ہوا اور انہوں نے فوری طور پر فورسز کو بلا کر طلبہ کو حراست میں لینے کی ہدایت کی۔ جس پر فورسز نے 108 طلبہ کو حراست میں لے لیا۔

آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ کے اندر اور وہ بھی کسی یونیورسٹی کے حرم میں طلبہ کو صرف اپنی رائے کے اظہار پر گرفتار کروانا اور ان پر تشدد کرنا امریکہ کی دیگر یونیورسٹیوں کے لئے ایک بھیانک خبر بن کر وائرل ہوئی ہے  اور امریکہ کی دیگر یونیورسٹیا ں بھی اس احتجاجی تحریک میں جڑنے لگی ہیں ۔ جس سے یہ مظاہرے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرگئے ۔

امریکن یونیورسٹیوں میں ابھی یہ معاملہ جاری تھا۔ فورسز کی جانب سے طلبہ وطالبات پر تشدد اور ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ  بھی جاری تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا ایک ویڈیو کلپ سامنے آگیا ۔ صہیونی وزیراعظم نے امریکن یونیورسٹیوں میں احتجاج کرنے والے طلبہ وطالبات پر سامی نسل کی مخالفت اور عداوت کے ساتھ یہود دشمنی کا الزام عائد کیا اور انہیں نازی قراردیکر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

ہزاروں کلومیٹر دور مشرق وسطی میں بحیرہ روم کے کنارے فلسطینی اراضی پر قابض ریاست کے سربراہ کی اس شرانگیز گفتگو نے امریکی طلبہ کے تن بدن میں آگ لگادی۔ امریکی اسٹوڈنٹس نے نیتن یاہو کی متنازع بات چیت کو مداخلت قراردیکر اسے نا  صرف مسترد کردیا بلکہ امریکہ میں اسرائیلی تعاون کے حوالے سے مشہور کمپنیاں بھی اس کی زد میں آگئیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کے ریمارکس نے جلتی پر تیل کا  کام  دکھا یا ہے۔

اس معاملے میں جمعرات کواُس وقت غیرمعمولی شدت آگئی جب واشنگٹن میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی اور جارج ٹاؤن یونیورسٹیوں کے طلبہ نے حرم جامعی میں جمع ہوکر غزہ جنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان دونوں نمایاں یونیورسٹیوں کی دیکھا دیکھی امریکہ کی دیگرایسی اہم ترین یونیورسٹیوں میں بھی احتجاج شروع ہوا، جو اَب تک اس معاملے سے   لاتعلق تھیں۔

اس فہرست میں جن اہم یونیورسٹیوں کے نام شامل ہیں ان میں نیویارک کی  ییل یونیورسٹی، میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنالوجی،نارتھ کیرولینا اور پنسلوانیا سمیت 23 ٹاپ یورسٹیاں شریک ہیں۔
معاملہ امریکہ تک محدود نہیں رہا بلکہ فرانس تک بھی اس کے شرارے پہنچ چکے ہیں ۔ فرانسیسی یونیورسٹی پیریس میں فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف طلبہ نکل آگئے۔ جمعہ کو جرمنی کے شہر برلن میں بڑی تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر آگئے ۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں بھی یونیورسٹی کے طلبہ احتجاج کی  اس عالمی چین میں شامل ہوکر عالمی قسمت کے فیصلہ ساز اداروں کے دروازے بجانے لگ گئے۔ لندن کی کالج یونیورسٹی یو سی ایل کے طلبہ نے بھی احتجاج کرتے ہوئے تعلیمی ادارے سے اسرائیل کے اسلحہ ساز اداروں کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدوں کی منسوخی کا مطالبہ کردیا۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے مغربی دنیا بالخصوص امریکہ میں نہتے طلباء وطالبات پرتشدد کی پُرزورمذمت کی ۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق امریکی اداروں نے طلبہ کو اظہا رِ رائے کا حق دینے کے بجائے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کی زبان بندی کی کوشش کی۔ ویانا میں یورپی ومغربی    ماہر تجزیہ کار حسام نے بتایا کہ مغربی دنیا کی یونیورسٹیوں میں شروع ہونے والا احتجاج ویسے نہیں اٹھا۔

یہ احتجاج عالمی سطح پر عوامی ضمیر کی وہ آواز ہے جو غزہ میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں مغربی تعاون سے ہونے والی نسل کشی اور قتل عام کے خلاف اٹھی  ہے۔ یہ عالمی آواز عالمی ایوانوں کو لرزاکر رہے گی۔

عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق مغربی دنیا کی یونیورسٹیاں مستقبل کی ایلیٹ کلاس کی پناہ گاہیں اور دانش گاہیں ہیں۔ جہاں زمام حکومت سنبھالنے والے افراد بیٹھے ہیں۔ ان کے ہاں اس انداز سے پُرزور احتجاج نے اسرائیل کی پشت پر کھڑی عالمی قوتوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیاہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس احتجاج نے کئی پرتوں کو کھولا۔ جن سے اہم انکشافات سامنے آئے  ہیں۔ اس سے قبل یہ بات صیغہ راز میں تھی کہ اسرائیلی فوج امریکن یونیورسٹیوں کے ساتھ سرمایہ کاری میں ملوث ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی نے اس صیہونی فوج کے اس خفیہ پلان کو بے نقاب کردیا ہے۔ جس سے امریکہ میں اب آنے والے دنوں  میں مزید انکشافات متوقع ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مغربی دنیا کی  یونیورسٹیوں میں اٹھنے والے احتجاج سے پریشان ہوکر بالآخر کولمبیا یونیورسٹی کی مرکزی کونسل نے ہفتہ کے روز یونیورسٹی کی ذمہ دار خاتون کی جانب سے پولیس کو بلانے کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کیا جس کے لئے یونیورسٹی بورڈ نے ووٹنگ کی۔ اس قراداد کو 62 ووٹ دیکر کامیاب کردیا گیا ہے جس کے بعد مذکورہ یونیورسٹی کی خاتون سربراہ مصر سے تعلق رکھنے والی نعمت شفیق کے خلاف تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ یہ معاملہ صرف ایک یونیورسٹی تک محدود نہیں رہاہے ۔ امریکی حکومت طلبہ احتجاج کم کرنے کے لئے حربے استعمال کررہی ہے لیکن اس میں بظاہر کامیابی بہت مشکل ہے۔

Facebook Comments

علی ہلال
لکھاری عربی مترجم، ریسرچر صحافی ہیں ۔عرب ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے امور پر گہری دسترس رکھتے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply