جدید رباعی کی آبرو، محمد نصیر زندہ/ وحید ریاست بھٹی

احبابِ ذوق پرور آپ کے ذوقِ سلیم کی نذر یہ شعر کرتا ہوں
جو شیشہ و ساغر میں اچھل کود رہا ھے
وہ اشک مرا موجہء کوثر میں پڑا تھا
اس خیال آفرینی کی جتنی بھی داد دی جائے کم ھے ، اس کلاسیک شعر کے تخلیق کار کا نام ھے جناب “محمد نصیر زندہ”
زندہ صاحب سرزمینِ پوٹھوہار کا بالعموم اور خطہء کلر سیداں کا بالخصوص ایک انمٹ نقش ہیں ، وادیِ شعر و سخن کو جو پرواز ان کی نازک فکر نے بخشی ھے وہ محتاجِ بیاں نہیں ، ان کا اصل میدان “رباعی” کی نازک و مشکل صنف ھے مگر وہ نظم و غزل میں بھی کامل دست رس کے حامل ایک شعلہ نوا شاعر ہیں ، ہر نوع کے مضامین ان کی اعلیٰ فکری اڑان سے قلب و روح کی تطہیر کا باعث قرار دئیے جا سکتے ہیں مگر ان کا موضوعِ خاص “اہلِ بیت اطہار علیہم السلام” جناب حضرات حسنین کریمین علیہم السلام اور مولا مرتضیٰ شیر خدا علیہ السلام سے اظہارِ عقیدت ھے ۔ جنابِ حیدر کرار علیہ السلام کی بارگاہ میں کچھ اس طرح حاضر ہیں
مرنے پہ مری برات رکھ دی اس نے
تشنہ نگہِ حیات رکھ دی اس نے
میں نے کہا اسرارِ علی مجھ کو بتا
سر پہ مرے کائنات رکھ دی اس نے
نصیر زندہ عہدِ حاضر کا ایک نمائندہ شاعر ھے ، جو اپنے قلم سے اس دور کی منظر کشی کسی ماہر سنگ تراش کی طرح کرتا چلا جا رہا ھے ، ہماری مذہبی عقیدتوں کو جتنا اس شاعر نے دوام بخشا ھے شاید کسی عالمِ دیں کو بھی اتنی توفیق نہ ملی ہو مثال کے طور پر خاکِ کربلا کو شاید ہی کسی نے اس خوب صورتی و نفاست بھرے انداز میں پیرہن۔ الفاظ بخشا ہو ، زندہ صاحب کہتے ہیں
تجدیدِ کہن فنا کی مٹی میں ھے
تعمیرِ نو قضا کی مٹی میں ھے
وا ہوں گے نہاں خانۂ تخلیق کے در
آدم ابھی کربلا کی مٹی میں ھے
آج صبح سویرے جناب زندہ صاحب کا مجموعۂ کلام “مرا دوسرا وجود” نگاہوں کی معراج بنا ہوا ھے ، سمجھ نہیں پا رہا شاعرِ جاوداں کے کس کس شعر پر کس کس انداز میں داد کے گجرے پیش کروں ؟ آپ اس رباعی میں ان کے کلام کے فنی محاسن کا تصور کیجئے ۔
تقصیر پہ رونے کی مجھے عادت ھے
منہ آگ سے دھونے کی مجھے عادت ھے
تقدیر۔ گناہ لایا ہوں خلد سے میں
معصوم نہ ہونے کی مجھے عادت ھے
واہ واہ کیا مضمون گرفتہ انداز ھے ، کیا ندرتِ کلام ھے ، کتنا بڑا خیال شعروں کے آبگینے میں جگمگا رہا ھے ، ایک لافانی قطعہ میں رشک آور الفاظ کا جادو بھرا ملبوس پہناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
رفعتیں اختلاف کرتی ہیں
آسماں میں شگاف کرتی ہیں
قبلہ ھے جس کا غیرتِ انکار
صدیاں اس کا طواف کرتی ہیں
میں خود کو خوش بخت تصور کرتا ہوں کہ ظروف۔ حروف میں نت نئے رنگ بھرنے والا یہ عظیم شاعر میرا ہم عصر ھے ، مجھے ان کی معیت و صحبت میں زندگی کے قیمتی لمحات گزارنا اچھا لگا بلکہ بہت اچھا ، فکر و فن کا یہ قافلہ سالار اپنے جلو میں ادب پروروں کا ایک لشکر بھی ترتیب دے چکا ھے ، ان کے رفقاء و تلامذہ میں بہت سے جانے مانے احباب بھی شامل ہیں ، زندہ صاحب کی ایک اور رباعی دل موہ رہی ھے
بینائی حرف میں نہ ڈالی جائے
مے ساغرِ برف میں نہ ڈالی جائے
گھل جاتا ھے روشنی میں فانوس کا رنگ
لو شمع کی ظرف میں نہ ڈالی جائے
زندہ صاحب پانچ مجموعۂ ہائے کلام کے اعلیٰ تخلیق کار ہیں ، ٹی وی و مختلف شعری تقاریب کی رونق ہیں ، ان پر دو ایم فل ہو چکے ہیں اور پی ایچ ڈیز میں ان کا نمونہء کلام شامل ھے ، کلر سیداں کی ادبی تاریخ جب بھی کوئی لکھے گا نصیر زندہ صاحب کا نام جلی حروف میں لکھنے پہ مجبور ہو جائے گا ، ایسا میں جذبات کی رو میں بہہ کر نہیں لکھ رہا بلکہ ان کی شعری تخلیقات ان کے فنی قد کاٹھ کے ہمالیہ سے بلند ہونے پر شاہد ہیں ۔
جنابِ زندہ صاحب کی ایک دل نشیں غزل ان سطور میں پیش کرنا چاہوں گا اور آپ عہدِ جدید میں ان کی اس صنف پر کمال گرفت سے متاثر ہونے پہ مجبور ہو جائیں گے ، زندہ صاحب کہتے ہیں

فتنے جو اس کی چال پر جھوم اٹھے
دل حسنِ پائمال پر جھوم اٹھے

رنگ اس کے لمس سے مہکتے جائیں
گل بوٹے اس کی شال پر جھوم اٹھے

خلخال۔ نہاں خانۂ گرداب تھا میں
دریا رقصِ خیال پر جھوم اٹھے

تاب۔ تخلیق سے گذرنا تھا مجھے
ناداں مرے زوال پر جھوم اٹھے

میں بول اٹھوں جو اٹھ کے روز۔ محشر
یزداں مری قیل و قال پر جھوم اٹھے

میں رقص کناں چاند ستاروں میں تھا
یہ ذرے میرے حال پر جھوم اٹھے

جو عرصہء دید میں ابھی آئے نہ تھے
وہ خواب مرے خیال پر جھوم اٹھے

وہ لالہ و گل پہن کے باہر آیا
شعلے عکسِ جمال پر جھوم اٹھے

جو نقش مرے آئینۂ ادراک میں تھے
وہ گردشِ ماہ و سال پر جھوم اٹھے

Advertisements
julia rana solicitors

میں مر کے ہوا دیدۂ معشوق کا نور
عشاق مرے وصال پر جھوم اٹھے
غزل ھے یا قلزمِ حروف مست و بے خود کئے جا رہا ھے ، کس کس شعر کو سراہا جائے ؟ مختصراً یہی کہ اللہ کرے زرو۔ قلم اور زیادہ
دعا ھے خداوندِ قدوس اس عظیم شاعر کو تا دیر سایۂ عاطفت و سلامتی عطا فرمائے تا کہ ہم جیسے مبتدی حرف و لفظ کی خیرات سے اپنے دامن بھرتے رہیں ۔ آمین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply