سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار/ قسط 7۔۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

کوٹلہ حاجی شاہ لیہ کے مشہور عزادار، مرثیہ نگار، نقیبِ مجلس اور شاعر مظہر یاسر نے کیا ہی اعلی شعر کہا ہے کہ:

من وچے عشق دے مچکے مچے
وت وی رہیاں کچیاں مونجھاں

(من میں عشق کے شعلے اٹھے
پھر بھی رہیں کچی یادیں)

میں نے کسی فورم پر بالکل بجا کہا تھا کہ سرائیکی کے نوجوان شاعروں نے بزرگ شعراء کے منہ سے اپنے لیے تہنیت کا حصول اپنے منفرد انداز اور جدید تخیلات کی بدولت  ممکن بنایا ہے. چونکہ سرائیکی نوجوان شناخت، وسائل، مواقع اور قبولیت جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں لہذا اُنکی شاعری میں اردگرد کی خالص اور ٹھوس دنیا کی حقیقت موجود ہوتی ہے. مزاحمت، جدوجہد اور حقیقت پسندی سرائیکی کے نوجوان شعراء کے جمالیاتی اصول بن چکے ہیں. انہی شاعروں میں ایک دلکش نام تونسہ کے علاقے مکول کلاں کے مشہور والی بال کھلاڑی زوہیب اقبال کا بھی ہے. زوہیب اقبال وہیں ایک سرکاری سکول میں معلم کے فرائض بھی سر انجام دے رہے ہیں. میں نے اُن کا جتنا کلام سنا اور پڑھا ہے اُس میں اُن کا مصرع ثانی غضبناک ہوتا ہے. ایک غزل نواز سامع کو زوہیب کی شاعری سنائی تو کہنے لگا “دیکھنا یہ لڑکا بڑا فنکار بنے گا”. مجھے یہ بات سچ لگتی ہے کیونکہ ان کی غزلوں کے بعض اشعار تو اتنے اچھوتے ہیں کہ قاری پر سحر طاری ہو جاتا ہے. زوہیب کی شاعری پڑھ کر یقین ہو گیا کہ وہ جمالیاتی طرز احساس کو اپنی شاعری کا لازمی جزو سمجھ رہے ہیں. نہ ہی زوہیب مصلحت کوش شاعر ہے نہ ہی وہ سست بیں خیال باز ہے، نہ ہی اُس کے ہاں درشتی پائی جاتی ہے نہ ہی اٌس کی باتیں ملائم ہیں. اِس نوجوان شاعر کا شعر ملاحظہ فرمائیں اور داد دیں کہ:

ڈھہہ نہ پووں مونہہ دے بھرنڑیں
تہوں تاں بھوئیں کو چمبڑے پئے ہئیں

(گر نہ جائیں منہ کے بَل
تبھی تو زمیں سے لگے پڑے ہیں)

ایک دوسرے نوجوان سرائیکی شاعر ثقلین قیس کا جاندار شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:

ہاں نال لیندے رہے اساں تاں وسیب کوں
مَنا نئیں مولیاں دے اساں تاں فریب کوں

(سینے سے لگاتے رہے ہم تو وسیب کو
مانا نہیں مولویوں کے ہم نے فریب کو)

بائیو سنٹرالزم، ڈیپ ایکالوجی، اینرتھرپوسنٹرالزم، ایکالوجیکل شاڑٹ نیس، رئیلزم سمیت کئی دیگر موضوعات پہ بحث کے شاعر ڈاکٹر اشو لال عہد حاضر کی سرائیکی شاعری کا معتبر حوالہ ہیں. جب اشو لال کو پرائیڈ آف پنجاب ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تو کڑور لعل عیسن لیہ کے اس قلندر صفت سپوت نے ایوارڈ اور چیک لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ سرائیکی وسیب کو قومی شناخت ملنے تک کوئی بھی سرائیکی ادیب و شاعر پنجاب حکومت سے ایوارڈ اور مراعات نہیں لے گا. اُسی ڈاکٹر اشو لال کا شعر ملاحظہ فرمائیں جس میں وہ دریائے سندھ سے اپنے والہانہ عشق کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں کہ:

دریا او دریا پانڑی تیڈے ڈونگھے
توں ساڈا پیو ماء اساں تیڈے پونگے

(دریا او دریا پانی تیرے گہرے
تم ہمارے ماں باپ ہم تمہارے بچے)

لیہ کے وسیب میں مشہور ترین شاعر نسیم لیہ کا زبان زد عام ملاحظہ فرمائیں کہ:

تیکوں ہک ڈینہہ آونڑاں پوسی میڈے معیار تے
توں وی لا گھن زور تے میں وی قسم چاتی وداں

(تمہیں اک دن آنا پڑے گا میرے معیار پہ
تم بھی لگا لو زور اور میں بھی قسم کھا چکا ہوں)

حضرت لعل عیسن کے شہر کے عمر خان سیہڑ کا شعر دیکھیے کہ:

شہراں دے وچ آکے لوک سرائیکی نئی الویندے
ساکوں جیکر مہلت ملی جنت وچ الویسوں

(شہروں میں آ کر لوگ سرائیکی نہیں بولتے
ہمیں اگر مہلت ملی جنت میں بولیں گے)

سرائیکی شاعری میں معجزات دیکھانے والے اپنے عہد کے مشہور ترین شعراء میں منفرد لہجہ رکھنے والے رفعت عباس کا سورج اوج پہ چمک رہا ہے. بیشک مزاحمت اور نادیدہ مسرتوں کو رفعت عباس نے کیا خوب ہی شعری پہناوا عطا کیا ہے. مگر قابل ذکر امر یوں ہے کہ رفعت عباس کی شاعری کے سماجی شعور کی بدولت کئی دماغ اپنی فکری گرہیں کھولنا ممکن بناتے ہیں. اُن کے شعری سفر نے ایک کے بعد ایک شعری امکان پیدا کیا ہے. اُن کا انتہائی دلکش شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:

ساڈے کٹھے رَل باہسو تاں بارشاں تھیسن رفعت
نال اساڈے گالھ کریسو جنگل ساوے تھیسن

(ہمارے ساتھ مل بیٹھو گے تو بارشیں ہوں گی رفعت
ساتھ ہمارے بات کرو گے جنگل ہرے ہوں گے)

انسان، عورت، رشتے، محبت، اقلیت اور احساس کی شاعری کرنے والے لیہ کے منشو بھٹہ کا معصوم شعر دیکھیے کہ:

کئی کئی ڈینہاں  تونڑیں کن میڈے وجدن
سانولے دے میسج آلی ٹلی کھڑی  راہندی ہے

(کئی کئی دن تک کان میرے بجتے ہیں
سانول کے میسج کی آواز باقی رہتی ہے)

عزیز شاہد نے محبت کے اظہار کے لئے لازوال شعر کہے ہیں جن میں سے ایک میرا پسندیدہ شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:

تیڈی طلب دے سوا وے سانول
اساں فقیراں دے کول کیا ہے؟

(تیری طلب کے سوا او سانول
ہم فقیروں کے پاس کیا ہے؟)

سرائیکی کا گوتم ایسا سادھو ہے کہ اپنا قیمتی اور اعلی کلام محفوظ ہی نہ کر سکا. میری مراد سیف اللہ آصف ہیں. یہ وہ شاعر ہیں جس نے استعارات کا استعمال ہی نہیں بلکہ انہوں نے سرائیکی شاعری کو استعارے عطا کیے ہیں. مگر سرائیکی کے دیگر عظیم شاعروں کا طرح اُن کا اکثر کلام دستیاب ہی نہیں ہے. فقیر ہے، خاک بسر ہے، تل وطنی ہے، عام آدم زاد ہے، غریب ہے، محنت کش ہے، اس لیے طبقاتی شعور سے بھی مالا مال ہے. وہ سرائیکی ثقافت کے معدوم ہونے کے خوف میں بھی مبتلا ہے. سرائیکی صوبے کی تحریک کا بھی بہی خواہ ہے. رہبروں اور لیڈروں کی بیوفائیوں کی بناء پر اُن سے مایوس ہو چکے ہیں. سیف اللہ آصف کا شعر دیکھیے کہ:

جگ سارا پیندے ساکوں
اینجھی مٹھی رَت ہئیں

Advertisements
julia rana solicitors

(جہان سارا پیتا ہے ہمیں
ایسی میٹھا لہو ہیں)

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply