دیوسائی کا عشق۔۔سیّد مہدی بخاری

کشمیر سے ہجرت کر کے دیوسائی آنے والے خانہ بدوشوں کی قدیم گزرگاہ یہی میدان ہے جو اپنے ساتھ بھیڑ بکریاں لے کر دیوسائی کی ہیبت میں چلتے جاتے ہیں۔ دیوسائی میں عمیق خاموشی اور صدیوں کی تنہائی خیمہ زن ہے۔ خاموشی ایسی کہ دل کانوں میں دھڑکتا محسوس ہوتا ہے تاوقتیکہ کہ کسی مارموٹ کی سیٹی فضا میں گونجنے لگے، اور تنہائی ایسی کہ کبھی کبھی اپنے وجود سے خوف آنے لگے۔

موسمِ گرما کی ایک دوپہر میں دیوسائی کی گھنی خاموشی میں کیمرے کا شٹر گرا تو دھماکا سا سنائی دیا۔ شور صدیوں سے ٹھہری ہوئی چپ فضا میں دور تک سرائیت کرتا گیا۔ مارموٹوں کے کان کھڑے ہو گئے، لہلہاتی گھاس اور جنگلی پھول سہم کے اپنی جگہ رک گئے اور چشمِ تخّیل نے دیکھا کہ دور کہیں ماده ریچھ نے اپنے بچے کو آغوش میں بھر لیا۔ سورج بھی بدلی کی اوٹ میں جا چھپا تو میں شرمنده ہو کر گھاس پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد سورج بدلی کی اوٹ سے یوں جھانکا جیسے دخل اندازی کرنے والے کا سراغ لگا رہا ہو۔ پھول پھر سے لہلہانے لگے، مارموٹ اپنے بِل چھوڑ کر گھاس میں کودنے لگے، ریچھ نے شتوں نالے میں قدم رکھا اور مچھلی کی بو لینے لگا۔ دیوسائی میں معمولات بحال ہونے لگے تو میں کیمرہ سمیٹ کر چل دیا۔

اسکردو کے بازار سے گزر کر ایک سڑک سدپارہ گاؤں کی طرف مڑ جاتی ہے۔ اس بل کھاتی سڑک پر سدپارہ کی نیلگوں جھیل یوں نظر آتی ہے کہ مسافر پلک جھپکنا بھول جاتے ہیں۔ جھیل کو دیکھتے دیکھتے آگے سدپارہ کا گاؤں آ جاتا ہے جہاں بچوں نے قدرت سے سازباز کر کے سڑک کو بند کرنے کا کھیل رچا رکھا ہے۔ گرمیوں میں جائیں تو گاؤں سے پہلے سڑک کے اوپر سے بہتے چشمے نے ایک طرف سے سڑک کو توڑ پھوڑ دیا ہے تو وہیں دوسری طرف مقامی بچے گاڑیاں روک کر مسافروں کو چیری بیچتے ملتے ہیں۔ ایک ننھی بچی سے خوش ہو کر چیری خریدی تو مسکراہٹ سے اس کے چہرے پر چیری کا رنگ جھلکنے لگا۔

گاؤں سے گزر کر سڑک غیر ہموار ہونے لگتی ہے۔ مسلسل چڑھائی کانوں پر دباؤ ڈالنے لگتی ہے۔ ایک طرف نہایت اونچے پہاڑ، اور دوسری طرف گہری کھائیوں کی موجودگی دل کی دھڑکن کو بے ترتیب کرنے کے لیے کافی ہے۔ نہ دل سنبھلتا ہے، نہ ہی سڑک۔ بل کھاتے، چکراتے، چڑھائی چڑھتے بالآخر آنکھوں کے سامنے ایسا منظر کھلتا ہے جس کی وسعت دو آنکھوں کے پردے پر سمونا ممکن نہیں۔

تنگ درے کے سفر کے بعد بلندی پر دیوسائی ہتھیلی کی طرح پھیلا ہوا ملتا ہے۔ بڑے پانی کے پل کو عبور کریں، تو شیوسر جھیل تک ایک پتھریلی سڑک کھلے میدان کی وسعت میں چلتی جاتی ہے۔ شیوسر جھیل کا مقامی زبان میں مطلب ‘اندھی جھیل’ ہے۔ یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ہے۔ اس کے گہرے نیلے پانی اپنے پس منظر میں برف پوش پہاڑیوں اور پیش منظر میں سرسبز گھاس اور رنگ برنگے جنگلی پھولوں کے ساتھ موسمِ گرما میں ایسا نظارہ پیش کرتے ہیں کہ آنکھ حیرت زدہ پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہے۔

موسم صاف ہو تو جھیل کے عقب میں قاتل پہاڑ نانگاپربت کی برف پوش چوٹی نظر آتی ہے اور جھیل اگر پُرسکون ہو تو نانگاپربت کا عکس پانیوں میں یوں گھلتا دِکھتا ہے جیسے کسی نے نِیل میں سفیدی گھول دی ہو۔ گرد و نواح کی کسی پہاڑی پر چڑھ کر دیکھیں تو شیوسر جھیل کی  نیلاہٹ پوری آب و تاب کے ساتھ انسانی دل نما شکل میں نظر آتی ہے۔ یہ جھیل دیوسائی کا دل ہے۔

یوں تو دیوسائی سے عشق ہونے کے سبب اپنی سفری زندگی میں کئی بار محبوب کے وصال کو گیا۔ کبھی تو محبوب نے بانہیں کھول کر میرا استقبال کیا اور کبھی دیوسائی برف کی سفید چادر اوڑھ کے الگ تھلگ بیٹھا رہا اور اذنِ دیدار نہیں ملا۔ بہت کم لوگوں نے شاید سردیوں میں اس میدان کو پار کرنے کا جوکھم اٹھایا ہو۔ میں دیوسائی کو نومبر میں دیکھنا چاہتا تھا جب سیاحوں سے پاک یہ میدان بالکل قدرتی حالت میں تنہا ہو۔

مجھے اس دن سدپاره کی چوکی سے ہی موسم دیکھ کر واپس اسکردو پلٹ جانا چاہیے تھا۔ فوجی گاڑیاں آدھے راستے سے واپس پلٹ رہی تھیں اور گزرتے ہوئے انہوں نے اشارہ کیا کہ آگے برف باری اور خراب موسم ہے واپس ہو جاؤ، مگر میرے اندر دیوسائی جانے کی خواہش شدید تھی۔ میری چھٹی حِس کہہ رہی تھی کہ دیوسائی جاؤ۔ اس غلطی کی سزا یہ تھی کہ دیوسائی میں مسلسل گرتی برف سے ایک تو جیپ ٹریک چھپ گیا تھا اور راستہ نظر نہیں آتا تھا، دوسرا سارا دن جیپ کے پہیوں کو چَین لگا کر ساتھ دھکا بھی لگانا پڑتا۔ جیپ برف میں دھنستی تھی اور برف کئی جگہوں سے آئینے جیسی بن چکی تھی جس پر پاؤں پھسلتا تھا۔

وہ سارا دن برفباری میں دھکا لگاتے، برف کھودتے، منظر و موسم کو دیکھتے، اور خدا کو یاد کرتے گزرا۔ تھکاوٹ تو جو ہوئی سو ہوئی، پر قدرت نے ہماری محنت کا جو انعام دیا وه لاجواب تھا۔ قدرت آپ کی محنت کا انعام آپ کے حوالے کرنے سے پہلے اپنی پوری قیمت وصول کرتی ہے۔ تنہائی کے عالم میں کئی منظر ایسے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے خدا ہمیں ہی دکھا رہا ہے۔ بس یہی سوچ کر اسی لمحے ایک سجدہ بے اختیار کرنے کو جی کر اٹھتا ہے۔ دیوسائی کی ہیبت ناک تنہائی اور خراب موسم میں جب بادلوں میں بالکل قطبِ شمالی کی آسمانی روشنیوں کی طرح رنگ چمکنے لگیں تو آپ سجدہ نہیں کریں گے کیا؟

شیوسر جھیل سے ذرا پہلے براؤن ماده ریچھ اور اس کا چھوٹا بچہ ہمیں نظر آئے۔ برفباری میں حدِ نظر اچھی نہیں تھی، پر میرے لیے یہ میرے سفری لمحوں میں سب سے خوشگوار لمحہ تھا۔ ویسے بھی میرے پاس دو سو ملی میٹر سے زیادہ فوکل لینتھ کا لینز  نہیں تھا۔ دوربین لگائے میں ریچھ ماں اور بچے کی حرکتیں دیکھتا رہا۔ تین ہمالیائی سرخ لومڑیاں بھی نظر آئیں جو سکون سے میری جیپ کے آگے سے گزر گئیں۔

شیوسر جھیل پر جانے تک برفباری انتہائی شدید ہو چکی تھی۔ جھیل پر برف گرتی تھی اور اس سفیدی میں حدِ نظر 20 میٹر سے زیاده نہیں تھی۔ میں جیپ میں بیٹھا قدرت کو اصل حالت میں محسوس کر سکتا تھا اور کہیں آس پاس ریچھوں کی بو پھیلی تھی، لومڑیوں کا خاندان تھا، اور مارموٹ بلوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ دیوسائی نے سفید چادر اوڑھنا شروع کر دی تھی۔ وہاں میرے، ڈرائیور، اور قدرت کے سوا کوئی نہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نیلی جھیل پر سفید روئی جیسے گولے برس رہے تھے۔ شدید سردی میں مشقت بھرا دن گزارنے کے بعد دیوسائی کو پار کر کے چِلم چوکی تک پہنچتے پہنچتے شام پھیل رہی تھی۔ چِلم کی فوجی چوکی میں اندراج کروا کے استور روڈ پر نکلا تو کچھ فاصلے پر ایک چھوٹی سی لڑکی اپنی دو بھیڑوں کے ساتھ اچھلتی کودتی چلی جا رہی تھی۔ جیپ کی آواز سن کر بھیڑوں نے سڑک کنارے پناہ لی۔ بچی نے پیچھے مڑ کر مسکرا کے دیکھا تو دل پر جمی ساری برف پگھل گئی، ساری تھکاوٹ اتر گئی۔ گاڑی میں بیٹھے ڈرائیور اور میں بھی مسکرا دیے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply