• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • شاکر شجاع آبادی:اصل کہانی کیا ہے۔۔آغرؔ ندیم سحر

شاکر شجاع آبادی:اصل کہانی کیا ہے۔۔آغرؔ ندیم سحر

ایک کہانی اس ویڈیو سے شروع ہوتی ہے جو ایک ہفتہ قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں شاکر شجاع آبادی کے بیٹے‘اسے موٹر سائیکل پر”لٹکائے“ ہسپتال کی جانب گامزن ہیں۔اس ویڈیو میں یہ تاثر دیا گیا کہ سرائیکی وسیب کے ہیرو کو پاکستانی گورنمنٹ اور عوام نے آخری وقت میں بالکل اکیلا چھوڑ دیا ہے‘سرائیکی زبان کا یہ ہیرو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے اور اس کے اہل خانہ کے پاس علاج کے پیسے تک نہیں لہٰذا اس ویڈیو کا مقصد حکومتی اور عوامی بے حسی ثابت کرنا تھا۔ویڈیو وائرل ہوئی‘عوام کو حکومت کو گالیاں دینے کا موقع مل گیا‘ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں نے شاکر شجاع آبادی کے بارے سوشل میڈیا پر مضامین اور ”مقالہ جات“کی لائن لگا دی۔محض چند گھنٹوں میں یہ موضوع اہم ترین قومی ایشو بن گیا‘ پورا ملک”ایک پیج“ پر اکٹھا ہو گیاکہ ہماری حکومت اور عوام انتہائی بے حس ہیں‘انہیں اپنے ہیروز کی قدر کرنا بالکل بھی نہیں آئی۔

میں نے اس بارے میں تحقیق کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ خبر میرے لیے بھی دکھ بھری تھی۔شاکر شجاع آبادی بلاشبہ سرائیکی زبان و ادب کا معتبر حوالہ ہیں‘ان کی شاعری میں وسیب کی کہانی اور مٹتی قدروں کو جس عمدگی سے پیش کیا گیا‘میں اس کا مداح تھا اور ہوں۔شاکر شجاع آبادی ہوں یا دیگر ایسے قلم کار جن کی عمر کا بیشتر حصہ قومی و مادری زبان کی تعمیر و ترقی میں گزرا ہو‘انھیں بالکل بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ میں نے اس بارے میں حکومت پنجاب اور دیگر ادبی اداروں سے معلومات اکٹھی کرنا شروع کر دیں‘ جہاں سے دوسری کہانی نے جنم لیا۔

میرے لیے یہ خبر انتہائی حیران کُن تھی کہ شاکر شجاع آبادی کو امداد کے نام پر اس سے قبل لاکھوں روپے کی رقم دی جا چکی ہے،یہ رقم چیکس کی صورت میں ان کے بیٹوں کو دی گئی جس کا ریکارڈ (چیکس نمبرز سمیت)دو روز قبل انفارمیشن اینڈ کلچر ڈیپارٹمنٹ کے ایک معتبر آفیسر نے میرے سامنے رکھ دیا۔میں جب دو روز قبل یہ ریکارڈ پڑھ رہا تھا‘عین اسی وقت ہمارے صوبائی وزیر تین لاکھ کا چیک دینے شاکر شجاع آبادی کے پاس پہنچ رہے تھے۔میں ابھی گزشتہ ریکارڈ پڑھنے میں مصروف تھا کہ جہانگیر ترین ملاقات کو پہنچے‘انھوں نے پانچ لاکھ نقد اورپچاس ہزار ماہانہ وظیفے کا اعلان کیا۔ ابھی سوشل میڈیا پر جہانگیر ترین کی تعریفیں جاری تھیں کہ حکومت پنجاب نے تین لاکھ کے ساتھ شاکر شجاع آبادی کے لیے ماہانہ چھتیس ہزار وظیفے کا اعلان کر دیا۔حکومت پنجاب کے اعلان کے کچھ ہی دیر بعد سابق ویزر اعظم یوسف رضا گیلانی شاکر ہاؤس پہنچے اور دس لاکھ روپے کا چیک پیش کیا۔

یہ تو وہ امداد ہے جو گزشتہ دو دروز میں شاکر شجاع آبادی کو دی گئی مگر معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا‘ہمیں تھوڑا پیچھے جانا پڑے گاتاکہ اصل معاملے تک پہنچا جا سکے۔

15فروری 2017ء کو حکومت نے شاکر شجاع آبادی کے لیے دو لاکھ روپے کا چیک بھجوایا‘جس کاچیک نمبر: 704870 تھا‘ 29مئی 2017ء کو حکومت نے دوبارہ ایک لاکھ روپے کا چیک بھیجا‘جس کا چیک نمبر:716686 تھا۔11جنوری 2019ء کو حکومت نے ایک دفعہ پھر شاکر شجاع آبادی کو تین لاکھ کا چیک بھجوایا‘چیک نمبر:857089 تھا‘اسی دوران(2018ء) ڈپٹی کمشنر لاہور نے بھی خصوصی دل چسپی لیتے ہو وزیر اعلیٰ  پنجاب کی اجازت سے شاکر شجاع آبادی کو علاج کے لیے پانچ لاکھ کا امدادی چیک بھجوایا۔2جنوری 2020ء میں ایک دفعہ پھر شاکر شجاع آبادی کو تیس ہزار کی رقم بھیجی گئی جس کا چیک نمبر: A045753 تھا۔27ستمبر 2021ء کو آٹسٹ فنڈ کے نام پر ایک دفعہ پھر شاکرصاحب کو نوے ہزار کا چیک بھیجا گیا جس کا نمبر:A224582 تھا۔اس کے علاوہ ایک سال قبل پنجاب انسٹی ٹیوٹ لینگونجز آرٹ اینڈ کلچر(پلاک) کی جانب سے ”پرائد آف پنجاب ایوارڈ“ کے موقع پربھی سرائیکی وسیب کے اس اکلوتے ہیرو کو تین لاکھ کا امدادی چیک دیا گیا۔اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے بھی جناب کو پانچ لاکھ کا امدادی چیک دیا گیا اور ماہانہ وظیفہ بھی دیا جارہا ہے جو تقریباً پندرہ یا بیس ہزار بنتا ہے۔

وسیب کے یہ پہلے ہیرو ہیں جنہیں ایک نہیں بلکہ دو دفعہ ”پرائڈ آف پرفارمنس“ اور دس لاکھ روپے دیے گئے۔مزید معلومات کے مطابق پیپلز پارٹی کے دور میں شاکر شجاع آبادی کے لیے چودہ لاکھ روپے کی امدادی رقم منظور ہوئی‘شہباز شریف نے بیس لاکھ روپے سے ان کااکاؤنٹ کھلوانے کا اعلان کیا تھا جس کا ماہانہ منافع ان کو ملتا ہے۔پنجاب حکومت نے پہلے بھی اور اب بھی ان کے علاج کے لیے تاحیات سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ملک ریاض سمیت دنیا بھر سے این جی اوز اور سرائیکی وسیب سے محبت کرنے والے محیر حضرات جو مدد کرتے ہیں‘ان کی تفصیل الگ ہے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ پلاک نے جناب کے بیٹو ں کو امداد کے لیے بلایا‘ڈی جی کے سامنے ان کے بیٹو ں نے خواہش ظاہر کی تھی کی امداد کی بجائے انھیں امریکہ کے ویزوں سے نواز ا جائے جس پر ڈی جی پلاک نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں کوئی سفیر نہیں ہوں“۔جنوبی پنجاب سے ہی دوستوں کی اطلاعات کے مطابق ہر دورِ حکومت میں شاکر شجاع آبادی کے بیٹے یہ کام کرتے ہیں‘کوئی نہ کوئی ویڈیو پیغام جاری کیا اور اس عظیم ہستی کے نام پر پیسہ اور امداد اکٹھی کی۔اگر تو یہ اطلاعات درست ہیں کہ میری حکومت سے گزارش ہے کہ شاکر صاحب کے اہل خانہ کو ملنے والی ساری امداد کا آڈٹ کروایا جائے‘جتنی دفعہ بھی مختلف ذرائع سے شاکر شجاع آبادی کو امداد ملی‘وہ کہاں خرچ ہوئی؟شاکر شجاع آبادی کے بیٹے کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟شاکر شجاع آبادی کے اہلِ خانہ کے بینک اکاؤنٹس‘رجسٹرڈ اراضی اور دیگر معلومات اکٹھی کی جائیں کیونکہ ہرسال اس طرح کی ویڈیوز جاری کر کے ملک میں یہ تاثر پیدا کرنا کہ حکومت اور عوام بے حس ہیں‘انھیں اپنے ہیروز کی قدر نہیں‘انتہائی منفی فعل ہے۔سرائیکی وسیب میں کیا اور کوئی اس قابل نہیں؟احمد خان طارق‘جن کو سرائیکی دوہڑے کا امام کہا جاتا ہے‘وہ اخیرعمر میں چار سال تک علیل رہے مگر حکومت یا عوام کی طرف سے ایک روپیہ تک نہ دیا گیا‘وہ سو سال سے زائد عمر پا کر 2017ء میں فوت ہوئے۔سرائیکی ادب سے محبت کرنے والے جانتے ہوں گے کہ احمد خان طارق کا مقام کیاہے۔ہر دور میں حکومت اس بات کا تنقید کا نشانہ بھی بنتی رہی کہ کیا سرائیکی وسیب میں ایک ہی شاعر پیدا ہوا ہے؟۔

Advertisements
julia rana solicitors

دو روز قبل جب یہ معاملہ سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا تھا‘کلچر ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے ایک آفیسر نے انتہائی کمال بات کی‘اس نے کہا کہ ”ایک طرف بے چارے جینوئن شاعر چھے چھے نوکریاں کریں اور دوسری جانب ایک ہی شاعر کو مسلسل نوازا جائے‘ایسا ممکن نہیں ہے“۔میری شاکر شجاع آبادی کی فیملی سے بھی گزارش ہے‘اگر میرے دیے گئے اعداد و شمار غلط ہیں‘یا انھیں لگتا ہے کہ حکومت اعلان تو کرتی ہے‘امداد نہیں دیتی تو مجھ سے ضرور رابطہ کریں‘میں ان کی تفصیلات بھی کالم میں لکھنے کے لیے تیار ہوں اور اگر میری معلومات درست ہیں تو پھر خدا را!اس قوم پر رحم کریں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply