دو ہزار آٹھ میں دو ماہ پاکستان گزار کر واپس گلاسگو لوٹا تو اتفاقاً بھٹی(فرضی نام) سے ملاقات ہو گئی۔ بھٹی لاہور بار سے پرانا واقف تھا اور بار سیاست میں متحرک۔میں نے پوچھا، بھٹی تو یہاں کیسے؟ کہنے لگا یار اس وکلا تحریک نے وکالت برباد کر دی ہے۔ سو بھوکا مرنے سے اچھا کہ وزٹ ویزے پر یہاں آ گیا تھا اور اب ایک تنور پہ نان لگاتا ہوں۔ بیوی بچے ساتھ ہیں اور دو کمرے کا ایک فلیٹ ہے۔ بھٹی نے فورا اپنے فلیٹ منتقل ہونے کی دعوت دی اور کمرے کا کرایہ بھی مناسب تھا، سو میں اگلے ہی دن اس کے فلیٹ سامان لے گیا۔ پوپٹ، سوہنے بھٹی نے نوجوانی میں اپنی غربت کا علاج ایک اعلی سرکاری افسر کی بیٹی سے شادی میں دھونڈا تھا۔ غربت تو دور نہیں ہوئی، البتہ اب تین بچے تھے، ایک کمرہ تھا اور چوبیس گھنٹے کا جھگڑا۔ جھگڑے کی وجہ بھٹی کا مشرقی یوروپین عورتوں میں دلچسپی لینا تھا جو بھابی کے نزدیک بے وفائی اور بھٹی کے نزدیک سیٹل ہونے کی کوشش تھی۔ روز رات کو میاں بیوی بلاناغہ دو سے تین گھنٹے جھگڑتے اور اختتام تھپڑ، مکوں اور رونے سے ہوتا۔ میں دو ہفتے تو برداشت کرتا رہا مگر ایک رات تو حد ہو گئی۔ اندھیرے میں ڈوبے فلیٹ میں بھابھی کچن سے چھری لے کر للکارتی نکلی کہ تجھے جو مستی آئی ہے آج میں نے تیری مردانگی ہی نہیں رہنے دینی۔ میں نے بستر سے چھلانگ مار کر فورا پہلے تو اپنے کمرے کو کنڈی لگائی کہ کہیں اندھیرے میں کمرہ غلط نہ پکڑ لیں، اسی رات سامان پیک کیا اور اگلے ہی دن فلیٹ بدل لیا۔
دو ہزار سات میں میں گلاسگو میں ہی تھا جب مشرف نے جسٹس چوہدری کو برطرف کیا۔ بطور وکیل اور بطور ایک مرحوم جج کی اولاد کے مجھے دکھ تھا، اور شاید سب ہی کو تھا۔ اسی دکھ میں کامریڈ مزمل اور میں نے اپنی یونیورسٹی کے دوسرے دوستوں کو ساتھ لے کر پاکستانی قونصلیٹ کے سامنے مظاہرہ بھی کیا اور مختلف فورمز پہ تقاریر بھی۔ مگر سچ پوچھیے تو بس دل کو تسلی دیتے تھے اور لگتا یہ ہی تھا کہ آمر کا کیا بگڑے گا۔ مگر پھر وکیل اٹھے، میڈیا ساتھ ہوا، پاکستانی قوم جاگی، اور ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوا جو پاکستان ہی نہیں دنیا میں ہمیں ممتاز کر گئی۔ چیف تیرے جانثار۔۔۔۔ بے شمار بے شمار، کے نعروں میں لگتا تھا وہ انقلاب دروازے پہ دستک دے رہا ہے، جس کا خواب دیکھتے فیض رخصت ہوئے۔ مایوس رخصت ہوئے۔
دو ہزار آٹھ میں پاکستان گیا تو عدالتیں ویران تھیں، سائل خوار اور وکلا، ان کی اس وقت کی حالت کیلیے شاید لفظ ابھی ایجاد ہونا ہے۔ والد کے دوستوں نے فورا واپس لوٹ جانے کا مشورہ دیا کہ سینیئر وکلا بھی چیزیں بیچ کر گزارا کر رہے تھے۔ ہاں بھوک تھی، خواری تھی، مار تھی مگر ایک قوم تھی جو تلی ہوئی تھی کہ ہمارا چیف واپس کرو۔ میں نے ابھی تک اپنی قوم کو کسی مقصد کیلیے کبھی یوں یک سو اور یک جہت نہیں دیکھا جیسی تب تھی۔ انقلاب کی دستک تھی، اعتزاز کا ماں جیسی ریاست کا خواب تھا اور کرد کی للکار تھی۔ فتح کی امید جوان تھی۔ ایک مشہور سابق جج مشرف سے فنڈ لے کر وکلا میں بانٹنے کو کوشش کرتے تھے کہ وکلا میں پھوٹ پڑے، لیکن فاقے کاٹتے وکیل بھی وہ پیسے لینے سے انکار کر دیتے تھے۔ میں اور مجھ سے کئی اور کمزور یہ حالات دیکھ کر بھاگ گئے کہ جب حالات اچھے ہوئے تو لوٹیں گے، مگر پھر حالات نے ہی لوٹنے نہ دیا۔
چیف صاحب بحال ہوئے تو لگا کہ اب بہت کچھ بدلے گا۔ اور کچھ نہ بدلا تو عدالتی نظام تو بدلے گا۔ جس میں لوگ وکیل نہیں جج کرتے تھے، وکلا کلائنٹ کیلیے ایک دوسرے کو کاٹنے پہ آ جاتے تھے اور رشوت دئیے بغیر تاریخ بھی نہیں ملتی تھی۔ ہمیں لگتا تھا کہ چیف صاحب ہمیں وہ نظام دے کر جائیں گے کہ عدل کی منزل آئے گی، انصاف دہلیز پہ ہو گا اور ریاست ماں کے جیسی ہو گی۔ ہم نے ایک بت بنایا اور اسکے گرد نعرے لگائے، چیف تیرے جاں نثار، بے شمار بے شمار۔ مگر بت تو ہوتے ہی ٹوٹنے کیلئے ہیں۔ بت نے فقط وہ کیس اٹھائے جن کا “ٹکر” چینل چلا سکیں۔ وہ نوٹس لیے جن میں کوئی خوبرو اداکارہ دو بوتل کی قیمت کچھ بھی دے دے۔ بت نے وہ پجاری جج بنائے جو بنواس میں بت کی آرتی اتارتے تھے خواہ ان پجاریوں کا براہمن ہونا بھی ثابت نہ ہو۔ سب سے پہلے “کرد” چیخا، “عدالتوں میں فرعون بیٹھے ہیں”، پھر اعتزاز کا ماں سی ریاست کا خواب ٹوٹا، اور ارسلان چوہدری کیس میں بت اپنے سنگھاسن سے اتر آیا، اوندھے منہ گرا اور ٹوٹ گیا۔
چیف تیرے جاں نثار،
کچھ تو کر لے اب کی بار۔
وکلا کی یہ چیف بحالی تحریک جسے عوام نے عوامی بنا دیا، اپنے پیچھے کئی دربدر وکیل، وکلا گردی کی روایت، سیاسی فیصلے، مایوس اور دُکھی دانشور، اقربا پروری اور ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں چھوڑ گئی۔ جسے کبھی ہم نے بت بنایا تھا، وہ اب خط لکھ کر کبھی پلاٹ مانگتا ہے اور کبھی گاڑی۔
پھر وطن عزیز میں ایک اور تحریک چلی۔مگر اس بار چیفؔ کی بجائے خاؔن تھا۔ اس میں بھی بہت سے لوگ تھے۔ اسکو بھی عوام نے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ دھرنے ہوئے۔ استعفے دیے اور واپس لے لیے گئے۔ مگر یہ تحریک بھی اپنے پیچھے بس کچھ مایوس لوگ، ایک ناکام شادی، اداس ہاشمی، مزید اداس دانشور اور کچھ ٹوٹے خواب چھوڑ کر ختم ہو گئی۔ شاید بطور قوم ہمارے قسمت میں خوابوں کی کرچیاں ہی لکھی ہیں۔
چیف تیرے جاں نثار ۔ ۔ ۔ خانؔ کے بھی ہو گئے خوار!
(انعام رانا لندن میں وکالت سے وابستہ ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ وکالت اور تحریر، دونوں معاشرے میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ انعام کو خواب دیکھنے کی عادت ہے)
Facebook Comments
بہت عمدہ تحریر شائد بطور قوم خوابوں کی کرچیاں ہی لکھی ہے پر خوشی ہے آپ کاوش تو کر رہے ہیں ۔
???? بہت عمدہ رانا صاحب ????
ہم اسی اعزاز پر خوش ہیں کہ ہم نے دونوں دفعہ ‘بروا کے پات’ دیکھ کر قوم کو بتایا تھا کہ امیدیں وابستہ نا رکھنا. خواب ٹوٹیں تو بہت دکھ پہنچاتے ہیں.
کتنے دوست ایسے ہیں جو انقلاب کی امیدیں ٹوٹنے کے بعد نا امید ہو کر دیار غیر میں جا بیٹھے.
افسوس صد افسوس. اس قوم کو رہبر کھوکھلے ہی ملتے ہیں.
ہم بھی تو نجات دھندہ دھونڈنے کے بہت شوقین ہیں بھائی
عزیز ابن الحسن صاحب
آپ نے بالکل ٹھیک لکھا۔
ہمارے خیال میں جسٹس چودھری کو انسان سمجھنا چاہیے، بشری کمزوریوں کے تحت جس سے غلطیاں ممکن ہیں۔ لیکن وقت کے فرعون کے سامنے کھڑے ہونے اور حرفِ انکار بلند کرنے کا لافانی اعزاز اس سے کوئی چھین نہیں سکتا۔
عدلیہ کی اصلاح ایک طویل اور صبر آزما عمل ہے، لیکن پی سی او ججوں کے گند کی صفائی کے ذریعے اس کی ابتدا جج صاحب نے ہی کی۔ انکے اسی عمل کی وجہ سے دوٹرکوں کی مدد سے ملک پر قبضہ کرنے کے خواہشمند طالع آزماؤں کو بار بار سوچنا پڑ رہا ہے کہ اگر اب کی بار انڈیمنٹی دینے کے لیے کوئی منیر، کوئی انوارالحق، کوئی ارشاد نہ مل سکے گا۔ تحریک چلے گی، پی سی او نہ چل پائے گا،،، دما دم مست قلندر ہوگا ،،،، اور پھر شاید وہ لمحہ آ ہی جائے جب ارضِ خدا کے کعبے میں ستر سالوں سے براجمان بتوں کو اٹھوا کر اہلِ صفا،، مردودانِ حرم کو مسندوں پر بٹھائے جانے کا سلسلہ شروع ہو جائے۔
رہے نام اللہ کا
جو ناظر بھی ہے منظر بھی
جو حاضر بھی ہے غائب بھی