گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(7)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

’’ کوئی بات نہیں۔ گنگا میا کی کرپا سے سب اچھا ہی کٹ رہا ہے۔ تم سب خیال رکھنا۔ زمیں داروں کے پنجوں میں کسان نہ پھنسیں، کوششیں کرتے رہنا۔ پھر تو آکر میں دیکھ ہی لوں گا۔ اور بتاؤ تمہاری طرف فصل کا کیا حال چال ہے؟ اوکھ کتنی بوئی ہے؟‘‘

’’ ایک پانی پڑ گیا تو فصل اچھی ہو جائے گی۔ اُگی تو بہت اچھی تھی، لیکن جب تک رام جی نہ سینچیں، آدمی کے پانی دینے سے کیا ہوتا ہے؟ اوکھ بوئی ہے دو بیگھا۔ اچھی اٹھان ہے۔ کسی بات کی فکر نہیں۔ اب دِیّر کا بھی کچھ اناج بکھار میں پڑا ہے۔‘‘

’’ بابو سب کیسے ہیں؟‘‘ مٹرو نے لڑکوں کے بارے میں پوچھا۔

’’ بڑے کو اسکول بھیج رہا ہوں۔ اسے لازمی پڑھانا ہے پاہُن ! کم از کم ایک آدمی کا گھر میں پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے۔ پٹواری زمیندار جو قانون کی بہت بگھارتے ہیں، اس کا علم حاصل کئے بغیر ان کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ ان پڑھ گنوارسمجھ کر وہ ہر قدم پر ہمیں بیوقوف بناکر نچوڑتے ہیں۔ ہم اندھوں کی طرح ہکا بکا ہوکر ان کے منہ تکتے رہتے ہیں۔ دِیّر کے بارے میں بھی انہوں نے کوئی قانون نکالا ہے۔ کہتے ہیں کہ جن کاحق جنگل پر تھا، انہیں کا زمین پر بھی ہے۔ پاہُن اپنی زور زبردستی سے ہی تو وہ جنگل کٹواکر بیچتے تھے۔ ان کا کیا کوئی سچ مچ کا حق اس پر تھا! پوچھنے پر کہتے ہیں، تم قانون کی بات کیا جانو! بڑے آئے ہیں، قانون بگھارنے والے دیکھیں گے، کیسے فصل کاٹ کر گھر لے جاتے ہیں! ہل کی مُٹھیا تو پکڑی نہیں، مشقت کبھی اٹھائی نہیں، پھر کس حق سے اس کو فصل ملنی چاہئے؟ جن ہلواہیوں نے محنت کی، انہی کا تو اس پر حق ہے! اور پاہُن ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہ فصل انہی کے گھر جائے گی!‘‘

’’ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے! اوہ ہاں، کچھ کھانے پینے کی چیز نہیں لایا؟ ستّو کھانے کو بہت دنوں سے جی کر رہا تھا۔‘‘مٹرو نے ہنس کر کہا۔

’’ لایا ہوں، پاہُن تھوڑا ستّو بھی ہے، نیا گڑ اور چیوڑا بھی ہے۔ باہر دروازے پر دھرا لیا ہے۔ کہتا تھا، پہنچ جائے گا۔ تمہیں مل جائے گا نہ پاہُن ؟‘‘ پوجن نے اپنا شک دور کرنا چاہا۔ دروازے پر وہ جمع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کہتا تھا، خود اپنے ہاتھ سے دے گا۔ افسر نے قانون قاعدے کی بات کی، تو کچھ نہ سمجھ کر بھی جمع کر دیا تھا۔

’’ ہاں،آدھا تو مل ہی جائے گا۔‘‘

’’ اور باقی؟‘‘ پوجن نے حیرت سے پوچھا۔

’’ باقی قاعدے قانون کی پیٹ میں چلا جائے گا!‘‘ اتناکہہ کر وہ زور سے ہنس پڑا۔ بوڑھا سسر اور پوجن اس کا منہ تکتے رہ گئے۔ وہ پھر بولا،’’اب کی آنا، تو گوپی کے گھر کی خبر لانا نہ بھولنا۔‘‘

’’ آؤں گا تو ضرور لاؤں گا۔ مگر پاہُن ، آنا اب مشکل ہی معلوم پڑتا ہے۔ فرصت ملتی کہاں ہے؟ اور پھرتم لوگ تو مزے سے ہی ہو۔‘‘پوجن نے مجبوری ظاہر کی۔

’’ پھر بھی کوشش کرنا۔ خیر خبریں ملتی رہتی ہیں، تو کسی اور بات کی فکر نہیں رہتی ۔۔۔‘‘

ملاقات ختم ہونے کی گھنٹی بج اٹھی۔ہنستے ہوئے آنے والے چہرے اب اداس ہوکر بھاری دل کیلئے لوٹنے لگے۔ کوئی سسک رہا تھا، کوئی آنکھوں کو صاف کر رہا تھا، کوئی ناک چھنک رہا تھا، کسی کی آواز ہی بند ہو گئی تھی۔ پلٹ پلٹ کر وہ دروازے کی طرف ہوئے اپنے رشتے داروں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

آٹھ

دو برس گزرتے گزرتے گوپی کے یہاں مہمانوں کا آنا جانا شروع ہو گیا۔ گوپی ابھی جیل میں ہے، اس کے چھوٹنے میں قریب دو سال مزید ہیں، یہ جان کر بھی وہ مہمان نہ مانتے۔ وہ ستیہ گرہیوں کی طرح دھرنا ڈال دیتے۔ اپاہج باپ سے وہ گذارش کرتے کہ تلک لے لیں۔ گوپی کے چھوٹ کر آنے پر شادی ہو جائے گی۔

وہ دن ماں کی خوشیوں کے ہوتے۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر خوشی کی چمک چھا جاتی۔ وہ دوڑ دھوپ کرکے مہمانوں کی خاطر تواضع کا انتظام کرتی۔ بہو کو حکم دیتی کہ یہ کر وہ کر۔ لیکن بھابھی کے یہ دن بڑی بے چینی کے ہوتے۔بڑی جھنجھلاہٹ کے ساتھ وہ کام کرتی۔ چہرہ غصے سے تمتمایا رہتا۔ آنکھوں سے چنگاریاں چھوٹا کرتیں۔ ساس سے کبھی سیدھے منہ بات نہ کرتی۔ برتن بھانڈے کو ادھر ادھرپٹک دیتی۔ کبھی کبھی دبی زبان سے یہ بھی کہتی،’’ابھی جلدی کیا ہے؟ اسے چھوٹ کر تو آنے دو۔‘‘ تب ساس پھٹکار دیتی،’’اس کے آنے نہ آنے سے کیا ہوتا ہے؟ شادی تو کرنی ہی ہے۔ ٹھیک ہو جائے گی، تو ہوتی رہے گی۔ بوڑھے کی زندگی کا کیا ٹھکانہ ہے! انکے رہتے ٹھیک تو ہو جائے۔‘‘

بھابھی سنتی تو اس کے دل و دماغ میں ایک حیوان سا جاگ کر کھڑا ہوجاتا۔ سارا جسم جیسے ایک مجبوری بھرے غضب سے پھنک اٹھتا۔ آتے جاتے پیر زمین پر پٹکتی،گویا ساری دنیا کو چور چور کر دے گی۔ ہونٹ بھینچ جاتے، نتھنے پھول اٹھتے اورنجانے پاگلوں کی طرح کیا کیا بڑبڑاتی رہتی۔

ساس یہ سب دیکھتی تو جل بھن کر کہتی،’’تیرے یہ سب لچھن ٹھیک نہیں ہیں! مجھے دماغ دکھاتی ہے! جوبھگوان کے گھر سے لے کر آئی تھی، وہی تو سامنے پڑا ہے۔ چاہے رو کر گذار، چاہے ہنس کر، اس سے بھاگ نہیں! بھلے سے رہے گی، تو دو روٹی ملتی رہے گی۔ نہیں تو کسی گھاٹ کی نہ رہے گی، سب تیرے منہ پر تھوکیں گے!‘‘

’’ تھوکیں گے کیا؟‘‘ بھابھی جل بھن کر کہہ اٹھتی،’’باپ بھائی مر گئے ہیں کیا؟ ان کے کہنے سے نہ گئی، اسی کا تو یہ نتیجہ بھگت رہی ہوں! جہاں جان توڑوںگی وہیں دو روٹی ملے گی! روئیں وہ، جن کے جسم ٹوٹ گئے ہوں۔‘‘

اپنے اور اپنے مرد پر پھبتی سنی تو ساس جل بھن کر کوئلہ ہو کر چیخ پڑتی،’’اچھا! تو چار دن سے جو توُکچھ کرنے دھرنے لگی ہے، اسی سے تیرا دماغ اتنا چڑھ گیا ہے؟ تو کیا سمجھتی ہے مجھے؟ کسی کے ہاتھ کا پانی پینے والے کوئی اور ہوں گے! مجھ سے بڑھ چڑھ کے باتیں نہ کر! میرے ہاتھ ابھی ٹوٹ نہیں گئے ہیں! توُجو بھائی باپ پر اترائے رہتی ہے، تو وہاں جا کر بھی دیکھ لے! کر م جلیوں کو کہیں ٹھکانہ نہیں ملتا! اب تجھے کیا معلوم ہے؟ آٹے دال کا بھائو معلوم ہوگا، تب سمجھے گی کہ کوئی کیا کہتی تھی! میں اس بوڑھے کی بیماری کی وجہ سے مجبور ہوں، نہیں تو دیکھتی کہ تُو کیسے ایک بات زبان سے نکال لیتی ہے!‘‘

اس رگڑے کا آخری نتیجہ یہ ہوتا کہ یا تو بھابھی اپنے کرم کوکوس کوس کر رونے لگتی یا ساس سسر سنتے، تو بڑبڑانے لگتے،’’اے بھگوان اس شریر کو اٹھا لو! روز روز کے یہ طعنے سہے نہیں جاتے۔‘‘

محلے والوں کو اس گھر سے اب کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ روز مرہ کی بات ہو گئی تھی۔ کوئی کہاں تک کھوج خبر لے؟ ہاں، عورتوں کو ضرور کچھ دلچسپی تھی۔ رونا سن کر کوئی آ جاتی، تو بھابھی کو سمجھاتی بجھاتی،’’اب تمہیں غم کھا کر رہنا چاہئے۔ کون سی ساس دو باتیں بہو کو نہیں کہتی؟ ساس سسر کی خدمت ہی کر کے تو تمہیں زندگی کاٹنی ہے۔ ان سے اختلاف کرکے تم کہاں جاؤ گی؟ بھائی باپ جنم کے ہی ساتھی ہوتے ہیں، کرم کے ساتھی نہیں۔ کرم پھوٹنے پر اپنے بھی پرائے ہو جاتے ہیں۔‘‘ساس سنتی تو بڑی معصوم بن کر کہتی،’’کوئی پوچھے تو اس سے کہ میں نے کیا کہا ہے؟ تم سب تو جانتی ہی ہو کہ بھلا میں کچھ بولتی ہوں۔ ایک جوان بیٹا اٹھ گیا، دوسرا جیل میں پڑا ہے، وہ ہیں تو سالوں سے چارپائی توڑ رہے ہیں۔ مجھے کیا کسی بات کا ہوش ہے؟ ارے، وہ تو گنہگار جان ہیں، کہ نکلتی ہی نہیں۔ نصیب میں تکلیف سہنی لکھی ہے، تو آسانی سے کیسے مر جاؤں؟‘‘ ساس کہنے کو تو سب کچھ بھابھی سے کہہ جاتی، لیکن وہ جانتی تھی کہ کہیں وہ واقعی اگر اپنے باپ کے یہاں چلی گئی، تو مشکل ہو جائے گی۔ کون سنبھالے گاگھر دوار؟ اس کا تو ہاتھ پاؤں ہلنا مشکل تھا۔ سو ،بات کو سنوارنے کی غرض سے کہتی،’’کون سا بڑا کام ہے؟ تین افراد کا کھانا بنانا، کھانا اور کھلانا۔ یہی تو! اس پر بھی مجھ سے جو بن پڑتا ہے، کر ہی دیتی ہوں۔ اب کوئی مجھ سے پوچھے کہ اتنا بھی نہ ہوگا، تو کیا ہوگا؟ کوئی راجامہاراجہ تو ہم ہیں نہیں کہ بیٹھ کر کھائیں اور کھلائیں۔ ایسا کرنے سے بھلا ہما شُما کا گزر ہو گا؟‘‘

’’ نہیں بہو نہیں، تجھے سمجھنا چاہئے کہ ساس جو کہتی ہے، تیرے بھلے ہی کے لئے کہتی ہے۔ جان چرانے کی عادت تجھے نہیں ڈالنی چاہئے۔ بیوہ کی قدر کام سے ہی ہوتی ہے، چام سے نہیں۔‘‘وہ عورت کہتی،’’ بھگوان نہ کرے، کہیں ایسا وقت آن پڑے، تو کہیں کا کوٹ پیس کر عمر تو کاٹ لے گی۔‘‘

بھابھی کے کانوں میں یہ باتیں گرم سیسے کی طرح سارا تن من جلاتی چلی جاتیں۔ لیکن وہ کچھ نہ بولتی۔ غیر کے سامنے منہ کھولے، ایسی جرات اس میں نہ تھی۔ وہ چپ چاپ بس ٹھنڈی سانسیں بھرا کرتی۔ وہ بھی کہنے کو باپ کے گھر چلے جانے کی دھمکی ضرور دے دیتی تھی، لیکن سچ تو یہ تھا کہ وہ کہیں بھی جانا نہیں چاہتی تھی۔ اسکے دل میں جانے کیسے ایک امید بیٹھ گئی تھی کہ دیور کے آنے پر شاید کچھ ہو۔

ان ساس، بھابھی کی بھی اپنی اپنی غرض ہی تھی کہ لڑجھگڑکر بھی وہ پھر مل جل جاتیں۔ لڑائی کے دن کبھی ساس خفا ہوکرکھانا نہ کھاتی، تو اسے بھابھی منا لیتی اور بھابھی نہ کھاتی تو اسے ساس منا لیتی۔

سسر کو اپنی خدمت چاہئے تھی۔ انہیں وہ مل جایا کرتی تھی۔ بھابھی اپنی خدمت سے ان کو خوش رکھنا چاہتی تھی۔ بوڑھے اس سے خوش بھی رہتے تھے، کیونکہ ایسی خدمت گذاری انکی عورت سے ممکن نہ تھی۔ وہ بھابھی کی طرفداری بھی گاہے بیگاہے کر ہی لیتے تھے۔ وہ گوپی کیلئے آنے والے رشتوں کے بارے میں بھی اس سے باتیں کرتے تھے اور رائے مانگتے تھے۔ ایسے مواقع پر وہ بڑے طریقے سے کہہ دیتی،’’رشتہ تو برا نہیں، لیکن آدمی برابرکا نہیں ہے۔ لوگ کہیں گے کہ پہلی شادی اچھی جگہ کی اور دوسری بار کہاں جا گرے۔‘‘

بوڑھے سسر گھمنڈ کا احساس محسوس کر کے کہتے،’’سو توتُو ٹھیک ہی کہتی ہے، بہو۔ سو جگہ انکار کرنے کے بعد میں نے وہ شادیاں کی تھیں۔ کیا بتاؤں، سب گوٹی ہی بگڑ گئی! گھر اجڑ گیا۔ ایک دغا دے گیا، دوسرا جیل میں پڑا نصیب کاٹ رہا ہے۔ میرے رام لچھمن، سیتا ارملا کی جوڑی ہی ٹوٹ گئی۔ میں بے ہاتھ پاؤں کا ہو گیا۔‘‘کہتے کہتے ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے،’’اب میرا وہ زمانہ نہ رہا۔ کھیتی گرہستی سب بکھر گئی۔ اب ویسا کون سا ساکھ کا آدمی میرے یہاں رشتہ لے کر آئے گا، کون اتنا تلک جہیز دے گا؟‘‘

’’دل چھوٹا نہ کریں، بابوجی، ابھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ دیور آیا نہیں کہ سنبھال لے گا۔ سب کچھ پھر پہلے کی طرح جم جائے گا۔ تب تو کتنے آکر ناک رگڑیں گے۔ آپ ذرا صبر سے کام لیں، بابوجی! ابھی جلدی بھی کاہے کی ہے؟ وہ پہلے چھوٹ کر تو آئے۔‘‘

’’ ہاں بہو، یہی سب سوچ کر تو کسی کو زبان نہیں دیتا، لیکن تیری ساس ہے کہ جان کھائے جاتی ہے۔ کہتی ہے کہ زیادہ مین میخ نکالنے سے کام نہ چلے گا۔ اسے جانے کاہے کی جلدی ہے، جیسے ہم اتنے گئے گزرے ہو گئے ہیں کہ کوئی رشتہ جوڑنے ہی ہمارے یہاں نہ آئے گا۔ کچھ نہیں تو خاندان کی مان تو ابھی ہے۔ نہیں، میں کسی ایسی جگہ نہ پڑوںگا۔ اسکے کہنے سے کیا ہوتا ہے؟‘‘ سسر اکڑکر بولتے۔

انہی دنوں ایک دن شام کو ایک اجنبی آدمی نے آکر گاؤں کی مغربی سرحد کے تالاب کے کچے چبوترے پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک سے پوچھا،’’گوپی سنگھ کا مکان کس طرف ہوگا۔‘‘

گرمیوں کی شام تھی۔ اندھیرا چھا رہاتھا۔ آس پاس گھنے باغات ہونے کی وجہ سے وہاں کچھ زیادہ ہی اندھیرا ہو گیا تھا۔ کھلیان سے چھوٹ کر کسان یہاں آکر، نہا دھوکر چبوترے پر بیٹھ گئے تھے اور دن بھر کا حال چال سن سنا رہے تھے۔ بہتوں کے تن پر بھیگے کپڑے تھے اوربہتوں نے اپنے بھیگے کپڑے پاس ہی سوکھنے کو ڈال دیئے تھے۔ کئی تو اب بھی تالاب میں غوطہ ہی لگا رہے تھے۔ انکے کھانسنے کھنکھارنے اور ’’ رام رام‘‘ کہنے اور سیڑھیوں سے پانی کے ہلکوروں کے ٹکرانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ باغات سے چڑیوں کا شور اٹھ رہا تھا۔ ہوا بند تھی۔ لیکن تالاب کی دانتی پر پھر بھی کچھ تری تھی۔

سوال سن کر سب کی نگاہیں اٹھ گئیں۔ تالاب میں پڑے ہوؤں نے گردنیں اٹھااٹھا کر دیکھنے کی کوشش کی۔ ایک نے تو پوچھا کہ کون ہے، کس کا مکان پوچھ رہا ہے؟
اجنبی محض ایک لنگی پہنے ہے۔ جسم موٹا تگڑا ہے۔ سینے پر سیاہ گھنے بالوں کا سایہ چھا رہا ہے۔ گلے میں کالی تلڑی ہے۔ چہرہ بڑی بڑی مونچھوں داڑھی سے ڈھکا ہے۔ آنکھوں میں ضرور کچھ رعب اور غرور ہے۔ سر کے بال جٹائوں کی طرح گردن تک لٹکے ہوئے ہیں۔

جس سے سوال پوچھا گیا تھا، اس نے گوپی کے مکان کا پتہ بتا کر پوچھا،’’کہاں سے آنا ہوا ہے؟‘‘

’’کاشی جی سے آ رہا ہوں۔ وہاں جیل میں تھا۔‘‘اجنبی کہہ کر آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ ایک آدمی جیسے جلدی میں پوچھ بیٹھا،’’ارے بھائی، سنا تھا کہ گوپی بھی کاشی جی کی ہی جیل میں ہے۔ وہاں اس سے تمہاری ملاقات ہوئی تھی کیا؟‘‘

اجنبی ٹھٹھک گیااور بولا،’’ہم ساتھ ساتھ ہی تھے۔ اسی کی خبر بتانے آیا ہوں۔‘‘

یہ سن کر سب کے سب اٹھ کر اس کے چاروں جانب کھڑے ہو گئے۔ تالاب کے اندر سے سب گیلے بدن لیے ہی لپک آئے۔بہتوں نے ایک ساتھ ہی مشتاق ہوکر پوچھا،’’کہو بھیا، اس کی خبر۔اچھی طرح سے تو ہے وہ؟‘‘

’’ ہاں، مزے میں ہے۔ کسی بات کی فکر نہیں۔‘‘کہتا ہوا اجنبی آگے بڑھا، تو تمام اس کے ساتھ ہو لئے۔ جن کے کپڑے پھیلے ہوئے تھے، انہوں نے اٹھا لیے۔ ایک دوڑکر آگے اطلاع دینے چلا گیا۔

’’ اس کے سینے میں چوٹ لگی تھی، بھیا، ٹھیک ہو گئی نہ؟‘‘

’’ ہاں۔‘‘

’’ اور بھی گاؤں کے کئی آدمی اس کے ساتھ جیل گئے تھے۔ کچھ ان کی خبر؟‘‘

’’ وہ سب وہاں نہیں ہیں۔ شاید سینٹرل جیل میں ہوں گے۔‘‘

’’ تو تم دونوں ساتھ ہی رہتے تھے؟‘‘

’’ ہاں۔‘‘

’’ تمہیں کیوں جیل ہوئی تھی بھیا؟ کہاں کے رہنے والے ہو تم؟‘‘

’’ زمینداروں سے دِیّر کی زمین کو لے کر جھگڑا ہوا تھا۔ تم لوگوں کو معلوم نہیں کیا؟ ڈھائی تین سال پہلے کی بات ہے۔ مٹرو پہلوان کو تم نہیں جانتے؟‘‘

’’ ارے مٹرو پہلوان؟‘‘ سبھی حیرانگی سے بول پڑے،’’جے گنگاجی!‘‘

’’ جے گنگاجی!‘‘

’’ سب معلوم ہے بھیا سب! اسکی دھمک تو کوسوں پہنچی تھی۔ تو آپ کو سزا ہو گئی تھی۔ کتنے سالوں کی؟‘‘

’’ تین سال کی۔‘‘

’’ گوپی کی سزا تو پانچ سال کی تھی نہ؟ کب تک چھوٹے گا؟ بیچارے کی گھر گرہستی برباد ہو گئی، جورو بھی مر گئی۔‘‘

’’ کیا؟‘‘ حیران ہوکر مٹرو بول پڑا۔

’’ تمہیں نہیں معلوم؟ اس کی جورو تو سال اندر ہی مر گئی تھی۔ گوپی کو کسی نے خبر نہیں دی کیا؟‘‘

’’ خبر ہوتی تو کیا مجھے نہ کہتا؟ یہ تو بڑی بری خبر سنائی تم نے۔‘‘

’’ کوئی اپنے اختیار کی بات ہے بھیا؟ بھائی مرا، جورو مر گئی۔ باپ کو گٹھیانے ایسا پکڑ لیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ دم کے ساتھ ہی چھوڑے گا۔ جوان بیوہ الگ سسک رہی ہے۔ کیا بتایا جائے، بھیا؟ گوٹی بگڑتی ہے تو عقل کام نہیں کرتی۔ ایک زمانہ انکا وہ تھا، ایک آج یہ ہے! یاد آتا ہے، تو کلیجہ مسلنے لگتا ہے ۔۔۔ادھر سے آؤ۔‘‘

دور سے ہی رونے دھونے کی آواز آنے لگی۔ ماں بھابھی خبر پاتے ہی رونے لگی تھیں۔ پرانی باتوں کو بسور بسورکر وہ رو رہی تھیں۔ سن کر محلے کی جو عورتیں اکٹھی ہوئی تھیں، انہیں سمجھا کر خاموش کرا رہی تھیں۔ باپ کسی طرح اٹھ کر دیوار کا سہارا لے کر بیٹھ گئے تھے۔ ان کا دل بھی چپکے چپکے رو رہا تھا۔

کسی نے ایک کھٹولا لاکر بوڑھے کی چارپائی کے پاس ڈال دیا، کسی نے دیپک لاکر طاق پر رکھ دیا۔

مٹرو نے بوڑھے کے پاؤں پکڑ کر پالاگا۔ بوڑھے نے اسے آ سیس دیئے۔ پھر پوچھا،’’میرا گوپی کیسا ہے؟‘‘ اور پھوٹ پھوٹ کر رو اٹھے۔

کتنے ہی لوگ وہاں اپنے پیارے گوپی کی خبر سننے کے لئے جمع ہوگئے تھے۔ مٹرو جیسے گائے کی ہتھیا کرکے بیٹھا ہو، ایسا خاموش بھرا بھرا تھا۔ لوگ بھی آپس میں کچھ نہ کچھ کہہ کر ٹھنڈی سانسیں لینے لگے۔ کچھ بوڑھے کو بھی سمجھانے لگے،’’تم نہ رو کاکا! تمہاری طبیعت تو ویسے ہی خراب ہے اور خراب ہو جائے گی۔ بہت دن گزرے، تھوڑے دن اور باقی ہیں، کٹ ہی جائیں گے۔ جس بھگوان نے برے دکھائے ہیں، وہی اچھا بھی دکھائے گا۔‘‘

’’ پانی وانی توپیوگے نہ بھیا؟‘‘ ایک نے پوچھا۔

’’ ارے پوچھتا کیا ہے؟ جلدی گگرا لوٹا لا۔ تھکاماندہ ہے۔‘‘ایک بوڑھے نے کہا،’’ہاتھ منہ دھوکر ٹھنڈا لو، بیٹا۔ آج رات ٹھہر جاؤ۔ بے چاروں کو ذرا تسلی کو جائے گی۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply