مجھے یاد ہے(قسط نمبر 3)۔۔۔حامد یزدانی

(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)
قسط نمبر 3۔۔۔۔
جمعۃالوداع کی نماز اِس بار والد صاحب کے ساتھ نورشاہ روڈ والی دومنزلہ مسجد  میں ادا کی ہے۔امّی جان نے اس بار ہم سب کے لیے پڑوسن خالہ سے جنھیں سب ’’جان‘‘ کہتے ہیں رنگدار خانوں والے سُوتی کپڑے کے کُرتے اور سفید پاجامے سلوائے ہیں۔ امّی کہتی ہیں کہ جمعۃ الوداع کو بھی نئے کپڑے پہننا چاہئیں۔ کپڑے کی سفید ٹوپیاں ہم نے پرانی والی ہی پہن رکھی ہیں۔ امّی جان نے پنساری کی دکان سے منگوائے کالے رِیٹھوں سے پرانے کپڑوں کے ساتھ ان ٹوپیوں کو بھی دھو کر چمکا دیا ہے۔مجھے اپنے ڈھیلے ڈھالے بُھورے سویٹر میں سے نیم کے پتوں کی مہک آرہی ہے۔ امّی جان گرمیاں آتے ہی سردیوں کے کپڑے ٹرنک میں رکھ دیتی ہیں اورکپڑوں کی تہوں میں عبداللہ شاہ کے ٹبّے سے منگوائے نیم کے پتے رکھ دیتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ ان پتوں کی مہک ٹڈیوں کو دُور رکھتی ہے۔

٭٭٭٭٭
گلی کے کونے پر بھّیا جی کی پان سگریٹ کی دکان کے ساتھ بیکری کُھلی ہے۔ ہم سب بچے بیکری سے کیک  پیسٹری لینا چاہتے ہیں۔ والدصاحب ہمیں بیکری میں لے جاتے ہیں اور اپنی اپنی پسند کی کیک پیسٹری دلواتے ہیں۔ میں کپ کیک پسند کرتا ہوں جس میں خشک مربّہ بھی ڈالا گیا ہے۔ ہم سب خوش ہیں۔
ہم ہر صبح تازہ ڈبل روٹی بناتے  ہیں انڈے اور مکھن سے۔ آدھی ڈبل روٹی بھی فروخت کرتے ہیں۔کبھی” ٹرائی کرکے دیکھیے۔‘‘ بیکری والا شستہ اردو میں والدصاحب کو بتا رہا ہے۔
ٹھیک ہے، کل صبح آپ ہی کی ڈبل روٹی سے ناشتہ کریں گے۔‘‘ والد صاحب کیک پیسٹری کے پیسے ادا” کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
عیدالفطر کی نماز مسجد چاہ جھنڈی میں پڑھی گئی ہے۔ نماز  کے بعد سب محلے داربڑھ بڑھ کر ایک دوسرے سے بغل گیر ہورہے ہیں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ والدصاحب ہرایک سے گلے ملنے میں متامل ہیں اور جلدی سے اس ہجوم سے باہر جانا چاہتے ہیں۔ ہم مسجد سے نکل کر باہر آتے ہیں۔ بچے شور مچاتے کھلونے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔ ہماری گلی کے پاس ہی ’’آسمانی‘‘ جھولے لگے ہوئے ہیں جن کے چلتے ہی چُوں چاں، چُوں چاں کا شور بلند ہونے لگتا ہے۔ بھا بشیراور ان کے بھائیوں نے اس بار بھی قتلمبا لگا رکھا ہے۔ مٹھائی کی دکان باہر سڑک تک آئی ہوئی ہے۔ ایک ریہڑھی پر ٹھنڈی ٹھنڈی بوتلیں بِک رہی ہیں۔ گھر پہنچ کر  امی جان سے ایک ایک روپیہ عیدی ملتی ہے۔ ہم سب اسے خرچ کرنے باہر کو بھاگتے ہیں۔
امی جان ہمیں آوازیں دیتی رہ جاتی ہیں: ’’ ٹھہرو، یہ شِیر خورمہ تو کھاتے جاو‘‘۔ گرما گرم اور چٹ پٹے قتلمبے کے سامنے شیر خورما بے چارہ کیا کرے۔

٭٭٭٭٭
ہم سب بھائی سکول سے ابھی ابھی گھر پہنچے ہیں۔ والد صاحب  کھانا بنا رہے ہیں۔ ہمیں بہت عجیب لگ رہا ہے۔ انہیں پہلے کبھی کھانا بناتے نہیں دیکھا۔ امی جان کسی وجہ سے آج ہی لائل پور گئی ہیں۔ بستے ایک طرف پھینک ہم سب بھی ان کے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔
پاپا جی، آپ کو کھانا پکانا آتاہے؟‘‘ راشد والد صاحب  کو ہنڈیا چولہے سے اتار کر اس پرتوا رکھتے ہوئے” دیکھ کر معصومیت سے پوچھتا ہے۔
ہاں، بالکل آتا ہے۔ آپ کی امی سے شادی ہونے سے پہلے ’لاہور میں بھی اور پھر دہلی اور بمبئی میں بھی کئی برس اکیلا یا دوستوں کے ساتھ رہا ہوں۔تو کھانا ہم خود ہی بناتے تھے۔
آپ کے دوست تب کون تھے، پاپا؟‘‘ ماجد پوچھتا ہے۔
لاہور میں شام ڈھلے ہم چند دوست دھرم پورہ والے نہر کے پُل پر ملاکرتے تھے۔اس لیے دوست ہمیں مذاق سے ‘‘یارانِ پُل‘‘ کہا کرتے تھے۔عبدالحمید عدم، چُنی لال کاوش سرحدی،احسان دانش، شہرت بخاری، انجم رومانی، حفیظ قندھاری، قتیل شفائی اور پھر ساحر لدھیانوی لاہور آئے تو وہ بھی شامل ہوگئے۔‘‘ والد صاحب چِکنی مٹی سے بنے چولہے میں جلتی لکڑیوں کی آگ پردھرے  توے پر روٹی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں۔ ’’ ساحر سے تو بعد میں دلی اور بمبئی میں بھی ساتھ رہا۔ہم نے ایک ہی کمرہ کرائے پر لے رکھا تھا جس کا کرایہ ادا کرنے کے لیے کئی بارایک سود خور پٹھان سے پیسے ادھار لینا پڑتے تھے۔ ہم سبھی تب کام وام ڈھونڈنے میں لگے ہوئے تھے۔‘‘۔
اب ہم ان کی بنائی قدرے چھوٹی چھوٹی روٹیاں اور چنے کی دال کا شوربے والا کھا رہے ہیں جس میں انھوں نے آلو بھی ڈال رکھے ہیں۔ یہ سالن تو امی جان نے کبھی نہیں بنایا۔
’امی جان کو بتاوں کا تو وہ بہت ہنسیں گی‘
مجھے یقین ہے کہ دوسرے بھائی بھی یہی سوچ رہے ہیں ۔
٭٭٭٭٭
“چلو بھئی، آج تم لوگ اپنے پاپا کو باہر تک رخصت کرکے آؤ۔ آج سے انھوں نے بس کے بجائے سائیکل پر دفتر جانے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔
امی جان نے مسکراتے ہوئے اعلان سا کیا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس تبدیلی کا سبب دریافت کرنا ضروری نہیں سمجھ رہا۔شاید ہم سب انھیں سائیکل چلاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ والد صاحب  کریم سٹریٹ سے نکل کر مولابخش روڈ سے ہوتے ہوئے چند منٹ میں چوک جنازہ گاہ پہنچ جایا کرتے ہیں اور وہاں سے اومنی بس پر سیکریٹری ایٹ اور وہاں سے کرش نگر۔ مگر آج ان کا ارادہ مختلف ہے۔ ہم سب بچے ان کے ساتھ کرائے والی سائیکلوں کی دکان پر پہنچے ہیں۔ ایک چھوٹے سے جلوس کی صورت میں۔ انھیں سائیکل وصول کرتے، بیگ کو ہینڈل سے لٹکاتے اور پھر سائیکل پر سوار ہوکر پیڈل مارتے چوک جنازہ گاہ کی طرف جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔اور و ہیں کھڑے رہتے ہیں جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوجاتے۔

اگلے روز صبح ہم پھر ان کے ساتھ سائیکل والی دکان پر جانے کو تیا رہیں مگر امی جان اعلان کرتی ہیں:
آج سے تمھارے پاپا نے پھر سے بس پر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لگتا ہے سائیکل سواری کا شوق ایک ہی دن” میں پورا ہوگیا۔‘‘یہ کہتے ہوئے  وہ مسکرا بھی رہی ہیں۔
ہم میں سے کسی نے بھی نہ تو والد صاحب کے فیصلے میں تبدیلی کا سبب پوچھنا ضروری سمجھا اور نہ ہی امی جان کی مسکراہٹ کی وجہ۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں یوں بھی ہمارے پاس بہت سے مشاغل ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
“ارے بھئی حامد،یہ کیا ہے؟‘‘ والد صاحب  خاکی رنگ کی میری اوّلین’ بیاض‘ ہاتھ میں تھامے کھڑے ہیں۔
“میری بیاض ہے۔۔۔شاعری کی۔میں جواب دیتا ہوں۔”
“آپ کی شاعری ۔۔۔!؟”وہ صفحات پلٹتے ہوئے کہتے ہیں۔’’یہ نظم تو اسماعیل میرٹھی کی ہے اور یہ” علامہ اقبال کی،یہ ہیں حالی۔۔۔چلو یہ تو میرا قطعہ ہے اور یہ والی خالد یزدانی کی نظم لگتی ہے۔ وہ ’میری‘ بیاض کے اوراق پلٹتے ہوئے کہہ رہے ہیں۔ پھر پوچھتے ہیں: ’’ کہاں سے لی ہے آپ نے یہ شاعری؟”
رسالوں اور اخباروں سے۔ اور کہاں سے!جو شعر اچھا لگتا ہے میں اُسے اپنی اس ’’بیاض‘‘ میں درج کر لیتا” ہوں اور جو چیز میری بیاض میں درج ہے وہ تو پھرمیری ہی ہوئی نا؟‘‘ میں اعتماد سے جواب دیتا ہوں۔
نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ اپنی بیاض میں لکھ لینے سے کوئی تخلیق آپ کی نہیں ہو جاتی۔ آپ کی اپنی تخلیق” وہ ہوتی ہے جو آپ خود سوچ کر لکھتے ہیں۔‘‘ والد صاحب کہہ رہے ہیں۔
’’ خود سوچ کر۔۔۔؟‘‘
جی ہاں۔ خود سوچ کر، ایک خیال کو بیان کرنا ہوتا ہے اپنے الفاظ میں، بہتر سے بہتر انداز میں۔‘‘  وہ کہہ” رہے ہیں اور میں سراپا استعجاب ہوں۔

٭٭٭٭٭
پاپا میں نے یہ نظم لکھی ہے ’’بارش کا موسم‘‘۔۔۔ سکول کی ’’بزمِ ادب‘‘کے لیے، یہ دیکھیے۔”  میں نظم والاورق والد صاحب کے سامنے کردیتا ہوں۔وہ پنسل سے مصرعے تبدیل کرتے جارہے ہیں۔ ورق مجھے واپس دیتے ہیں۔
“اب پڑھیں اِسے”۔ وہ کہتے ہیں۔”میں پڑھتا ہوں۔”
“اب یہ اچھی لگ رہی ہے۔” میں خوش ہوکر کہتا ہوں۔
“تو ٹھیک ہے اب آپ اسے سنا سکتے ہیں اپنی نظم کے طور پر۔” وہ مسکرا کر کہتے ہیں۔
“میری نظم۔۔۔! “میں مسرت اور جوش بھرے لہجے میں کہتا ہوں اور نظم کو احتیاط سےبستے میں رکھ لیتا ہوں۔
٭٭٭٭٭
بھائی ساجد یزدانی اور ان کے دوستوں کی ثقافتی تنظیم سٹار آرٹس سوسائٹی نے نابھہ روڈ پر واقع نیو لاہور انگلش کالج میں ایک مشاعرہ کا اہتمام کررکھا ہے۔ اپنے دوست بابر شوکت صاحب کے اصرار پر میں بھی اس میں شریک ہونے آگیا ہوں۔ کالج کے شاعر پرنسپل ملک واصف علی واصف صاحب سے تعارف ہوتا ہے۔ وہ مجھ سے استفسار کرتے ہیں کہ آج سنانے کے لیے کیا لایا ہوں ۔میں اپنی تازہ  نظم  ’’میرا وطن‘‘  ان کے سامنے کر دیتا ہوں۔ وہ نظم پر ایک خاموش سی نگاہ دوڑاتے ہیں، مُسکراتے ہیں، نظم مجھے واپس کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’لگتا ہے نظم یزدانی صاحب کی نظر سے نہیں گزری‘‘۔ میں عرض کرتا ہوں کہ واقعی میں یہ نظم انہیں نہیں دکھا سکا۔ واصف صاحب نظم میں کسی سقم کی نشان دہی تو نہیں کرتے تاہم ان کے جملے نے مجھے کچھ سوچنے پر ضرور مجبور کر دیاہے۔
والد صاحب سے واقعہ کا ذکر کرتا ہوں۔ اپنی نظم ان کو دکھاتا ہوں۔ میرے اصرار پر وہ بہت سہل انداز میں ان فنی نکات کی وضاحت کردیتے ہیں جو واصف صاحب کے جملے کا مقصود ہوں گے۔ بات کچھ کچھ سمجھ میں آگئی ہے۔

٭٭٭٭٭
میں اور چھوٹا بھائی راشد ماہنامہ ’محفل‘ کے دفتر میں والد صاحب سے سکول کے کام میں مدد لینے آئے ہیں۔ والد صاحب کے میز کے سامنے والی دو کرسیوں پر رشید کامل صاحب اور جعفربلوچ صاحب بیٹھے ہیں۔ بائیں طرف والی ایک کرسی پر ایک اور صاحب بیٹھے ہیں۔ گردگرد لمبے بالوں اور میلے کپڑوں میں۔ میری نظر ان کی قینچی کے چپل پرجاتی ہے۔ وہ بار بار مرمت کروائی گئی ہے۔ انھوں نے اپنا ایک پاوں کُرسی پر کھینچ لیا ہے اور اب رکابی  میں انڈیل انڈیل کر چائے پی رہے ہیں۔ میں نے انھیں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ چائے پیتے ہوئے وہ والد صاحب سے بات بھی کرتے جاتے ہیں۔ رشید کامل صاحب اور جعفربلوچ صاحب خاموش ہیں۔ چائے ختم کرکے وہ صاحب چلے جاتے ہیں۔
“یہ صاحب، کون تھے، پاپا؟ میں نے انھیں پہلے کبھی نہیں دیکھا یہاں”۔ ان کے جانے کے بعد میں والدصاحب کے قریب جاکر پوچھتا ہوں۔
“وہ بھی ہمارے دوست ہیں اور بہت اچھے شاعر ہیں۔ ان کا نام ساغر صدیقی ہے۔” والد صاحب جواب دیتے ہیں۔
“ان کی چپل بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔ مجھے لگتا ہے ان بے چاروں کے پاس نوکری  نہیں ہے۔”
میں کچھ سوچتے ہوئے کہتا ہوں۔والد صاحب میری بات کا کچھ جواب نہیں دیتے۔بس ہلکا سا مسکرا کر مجھے دیکھتے ہیں اور مہمانوں سے مخاطب ہوجاتے ہیں۔۔۔اور مجھے یاد آنے لگتا ہے کہ
جب والد صاحب کی پہلے والی نوکری اچانک ختم ہوگئی تھی تو میری چپل بھی بار بار ٹوٹنے لگی تھی۔ ٹوٹی چپل ہاتھ میں تھامے یا پاؤں ہی میں گھسیٹتے ہوئے امی جان کے پاس پہنچتا اور انھیں دکھاتا۔ وہ کہتیں: ’’ جاو، یونس موچی سے کہو اسے ٹانکا لگا دے۔‘‘ میں   منھے قصائی کی دکان کے ساتھ بیٹھے یونس کے پاس جاپہنچتا۔ وہ کہتا”یار، اب کہاں سے گانٹھوں اسے؟ اسے اب ریٹائر ہی کردو۔ نئی لے لو چپل۔”
میں یہ ساری بات من و عن امی جان کو بتا دیتا تھا۔ جسے سن کر وہ ہمیشہ کہتیں: ’’ بہت باتیں کرتا ہے یہ یونس کا بچہ۔۔بس اب تمھارے پاپا کی نوکری لگنے ہی والی ہے۔ چپل بھی نئی لے دوں گی اور بُوٹ بھی۔ ٹھیک؟”
یہ سن کر میں خوش ہو جاتا ہوں اور دوستوں کے ساتھ کھیلنے گلی میں بھاگ جاتا ہوں۔مجھے یاد ہے۔
٭٭٭٭٭
(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply