معیار یا مقدار؟-تحریر/زبیر بشیر

جی ہاں! یہ وہ سوال ہے جو ہم اکثر مختلف مواقع پر ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ اس سوال کے مخاطب اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے اکثر ناپ تول کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے پوچھا جانے چاہیے کہ ان کے نزدیک کارکردگی کا معیار کیا ہے، مقدار یا معیار؟  ایک طرف غیر معیاری چیزوں کا انبار موجود ہو اور دوسری طرف ایک معیاری چیز موجود ہو تو ذی شعور معیاری کا انتخاب کرے گا۔ اس تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آج کل مغربی ذرائع ابلاغ میں ایک شور سا اٹھا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین جلد اپنا “ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ” کھو سکتا ہے۔ بات یہ کہ بھارت میں آبادی کی رفتار تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک چین میں یہ شرح متوازن ہے تو بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے پہلے  ہی اقوام متحدہ کے پاپولیشن رواں ماہ  “2023 ورلڈ پاپولیشن اسٹیٹس رپورٹ” جاری کی تھی  جس میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ بھارت اس سال کے وسط میں چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ یہ چین میں آبادی کو متوازن رکھنے کے اقوام متحدہ کے 2030 پائیدار ترقیاتی ایجنڈے  کے کامیاب اطلاق کا  نتیجہ ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چین کی ایک اور بڑی کامیابی کی تحسین کی جاتی لیکن چین کے لیے بغض سے بھرے مغربی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ چین کی ترقی بڑی مشکل کا شکار ہو گئی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے قبل بھی حالیہ برسوں میں چین کی آبادی کی پالیسی سے لے کر عمر رسیدہ افراد کی آبادی میں اضافے تک، پھر پیدائشی آبادی میں کمی تک مغربی میڈیا بار بار نئے موضوعات ڈھونڈنے میں مصروف رہاہے اور ان کا مقصد اس طرح کے بیانیے کی منطق تیار کرنا ہےکہ  اگر “ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ” غائب ہو گیا تو چین زوال پذیر ہو جائے گا، اور عالمی معیشت اس سے متاثر ہوگی۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا ہے؟ چین نے زبردست ترقی کی ہے اور بڑی آبادی کے ساتھ پائیدار اور مستحکم معاشی ترقی کا معجزہ تخلیق ہے۔

پیدائشی آبادی میں کمی اور بچے پیدا کرنے کی خواہش میں کمی دنیا کو درپیش عام مسائل ہیں۔ اس کا معاشی ترقی کے مراحل، لوگوں کی بیداری اور دیگر سماجی و اقتصادی عوامل سے گہرا تعلق ہے۔ مثال کے طور پر، مغربی ترقی یافتہ ممالک کو عام طور پر مزدوروں کی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے. اس حوالے سے مغربی میڈیا یہ کیوں نہیں کہتا کہ ‘ڈیموگرافک نقصانات معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں’؟ کیا یہ “دوہرے معیار” کا ایک اور کھیل نہیں ہے؟

اس حوالے سی جی ٹی این نے حالیہ دنوں ایک سروے کروایا جس میں شریک 88.4 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ چین کے انسانی وسائل اعلیٰ معیار کی اقتصادی ترقی کے لیے کافی ہیں۔ چین کی بڑی آبادی کی بنیاد اور بڑی آبادی کے بنیادی قومی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور “ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ” کی بنیادی شرائط اب بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ، کسی ملک کا “ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ” نہ صرف کل مقدار پر منحصر ہوتا ہے، بلکہ اس کا انحصار معیار پر بھی ہوتا ہے۔ نہ تو  چین کا “ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ” غائب ہوا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر چین  “ٹیلنٹ ڈیویڈنڈ” بھی تیزی سے تشکیل پا رہا ہے۔ سروے میں شریک  91.8 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ “ٹیلنٹ ڈیویڈنڈ” چین کی جامع قومی طاقت کی  ترقی کے لیے ایک مضبوط محرکہ فراہم کرتا رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آبادی میں اضافہ کسی ملک کی ترقی کا فائدہ اور بھاری بوجھ دونوں ہوسکتا ہے۔ اس وقت،چین میں تقریباً 900 ملین محنت کش ہیں، اور ہر سال 15 ملین سے زیادہ نئے محنت کشوں کا اضافہ ہوتا ہے. مزید  اہم بات یہ ہے کہ چین میں 240 ملین سے زیادہ افراد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے، اور نئی لیبر فورس میں تعلیم کے سالوں کی اوسط مدت 14 سال تک پہنچ گئی ہے. یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ چین کا “ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ” غائب نہیں ہوا ہےبلکہ”ٹیلنٹ ڈیویڈنڈ”  کی شکل اختیار کر رہا ہے، جو چین کی اقتصادی اپ گریڈیشن کے لئے محرک قوت بن جائے گا اور دنیا کو اس سے بھی فائدہ پہنچے گا۔

Facebook Comments

Zubair Bashir
چوہدری محمد زبیر بشیر(سینئر پروڈیوسر ریڈیو پاکستان) مصنف ریڈیو پاکستان لاہور میں سینئر پروڈیوسر ہیں۔ ان دنوں ڈیپوٹیشن پر بیجنگ میں چائنا میڈیا گروپ کی اردو سروس سے وابستہ ہیں۔ اسے قبل ڈوئچے ویلے بون جرمنی کی اردو سروس سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ چین میں اپنے قیام کے دوران رپورٹنگ کے شعبے میں سن 2019 اور سن 2020 میں دو ایوارڈ جیت چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply