سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/صدرسٹی میں عراقی فوج کے کرنل سے ملاقات(قسط20)۔۔۔سلمیٰ اعوان

کمرے میں بِچھے گہرے سُرخ خوش رنگ پھولوں سے سجے قالین پر وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب قریب بیٹھے تھے۔ڈھلتی عمروں میں بس تھوڑا ہی فرق ہوگا۔ دونوں اپنی عمروں کے حسابوں بڑے خوبصورت تھے۔سُرخ و سفید چہروں پر گھنی چھوٹی داڑھی جن میں سفید بالوں کی کثرت تھی۔ چھ فٹ سے بھی نکلتی قامتوں والے۔
گزشتہ رات جب ہم سعدون سٹریٹ سے گزرتے تھے۔یہاں رات جوان تھی۔افلاق ونڈ سکرین سے سڑک پر ٹریفک کے اژدہام کو دیکھتا تھااور میں سعدون سٹریٹ کی جولانیوں کو۔دفعتاََ وہ سوال لبوں پر آیا جو میرے اندرسالوں سے تھا۔ماڑا موٹا جواب بھی کچھ اِدھر اُدھر سے مِل گیا تھاپر تشنگی بدستور تھی۔حالات اور مواقع میسر آئے تو اندر سے نکل آیاکہ آخر عراقی فوج پیشہ ورانہ تربیت کے لحاظ سے اتنی ماٹھی نہ تھی اور جدید ہتھیاروں سے بھی لیس تھی تو پھر اتنی جلدی بغداد ڈھے کیسے گیا؟
ہم اب کاظمین کی طرف بھاگے جاتے تھے۔گاڑی چوتھے گئیر میں ڈالتے ہوے افلاق میری طرف دیکھے بغیر بولا۔
پہلی بات امریکی ڈالروں میں بہت کشش ہے اگر ایمان کمزور ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماشاء اللہ سے مسلمانوں میں غدّاروں کی کبھی کمی نہیں رہی۔دوسرے حکمران بھی کچھ اتنا پسندیدہ نہ تھا۔ میرے خیال میں سب سے بڑی اور اہم بات ہمارے صحرائی کنوئیں بڑی کشش کے حامل تھے۔انہیں فاحشاؤں اور طوائفوں سے سمجھداری اور دانائی سے بچایا جاسکتا تھا جس کی بہرحال ہمارے پاس اشد کمی تھی۔ یہ تو موٹی موٹی باتیں ہیں۔تفصیلی اندرونی کہانیاں اگر سُننی ہیں تو ذرا دلیری اور جی داری کی ضرورت ہے جو میرے خیال میں آپ میں ہے۔فوج کے ایک ریٹائرڈکرنل جو صدام کی خصوصی انٹیلی جنس سیل میں بڑا معتمد تھا سے مِل لیجئیے جو واقعات کے عینی شاہد ہیں۔سوالوں کے جواب تفصیلات کے ساتھ مِل جائیں گے۔
”خطرے والا معاملہ ہے کیا؟“میں نے اندر کی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے لہجے کو نارمل کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں پر القاعدہ اور دیگر عسکری گروپوں کے ساتھ ہمدردیاں تو ہیں نا اُن کی۔“
لمحے ذرا بوجھل ہوگئے۔پانچواں دن تھا اور ہر صبح ہوٹل میں میرے باہر نکلنے سے پہلے مروان کوئی دس بارتاکید کرتا تھا۔احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا۔میں نے افلاق کو دیکھا۔اندر کی تیز دھڑکنوں پر قابو پایا۔
”اُوپر خدا اور نیچے تم تو ڈر کِس بات کا؟جہاں جہاں سے جو جو مِل سکتا ہے وہاں وہاں لے چلو۔سفر تو کھوٹا نہ ہو۔“
”چلئیے میں رابطہ کرتا ہوں۔کل پر رکھئیے۔“
ٹیکسی سٹینڈ پر اپنے عبایا کو سنبھالتی اور سر کے ڈوپٹے کو ٹھیک کرتے میں نے زمین پر قدم رکھا۔افلاق نے دروازہ بند کِیا اور میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔اس کی چھاتی پر روز کی طرح بوسہ دیتے ہوئے میں نے حسبِ معمول سو ڈالر کا نوٹ اس کی جیب میں ڈالتے ہوئے اُسے خدا حافظ کہا۔
چیک پوسٹ سے گزرنے اور ہوٹل تک کے راستے میں اردگرد کے منظروں کی جگہ آج میرے ساتھ ایک سوچ تھی۔رات کے سنگ خوف،ڈر اور مایوسی کے جو عناصر چمٹے ہوئے ہوتے ہیں اس وقت وہ سب مجھ پر غالب تھے۔
اس وقت میں چاہ رہی تھی کہ سابقہ دنوں کی طرح ہوٹل کے مرکزی دروازے سے اندر گھستے ہی میرا سامنا مروان سے نہ ہو۔شاید کہیں ڈر تھا کہ وہ مجھے منع کرے گا۔روکے گا۔وہ حسب معمول اپنی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی اُسنے اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھیری اور چاہا کہ میں ٹہر کر اُسے دن بھر کی کارگزاری سناؤں۔مجھے رُکے بغیر آگے بڑھ جانا اچھا ہی نہیں لگا۔اور جب باتیں شروع ہوئیں تو صدر سٹی جانے والی بات بھی ہوگئی۔مروان نے تفکر سے مجھے دیکھا اور کہا۔
”وہاں جانے کی غلطی مت کریں۔بغداد کا خطرناک ترین علاقہ جہاں ہمہ وقت گیارہویں عراقی آرمی ڈویژن گردش میں رہتی ہے۔کنکریٹ کی لمبیSeperation Walls نے اُسے بقیہ بغداد سے الگ کررکھا ہے۔چیک پوسٹوں پر بخئیے اُدھڑتے ہیں۔ سب سے زیادہ جانی نقصان وہاں ہوتا ہے۔آئے دن بم بلاسٹ ہوتے ہیں۔“
جب اُس کے پاس سے اٹھی تو جیسے دم شکستہ سی تھی۔جیسے بجھی بجھی سی۔بندہ کتنا بھی دلیر کیوں نہ ہو سڑکوں پر،چوراہوں پر اپنے وجود کو ٹکٹروں میں کٹے پھٹے تو نہیں دیکھنا چاہتا۔
کمرے میں بوڑھیاں حسبِ معمول باتوں میں مصروف تھیں۔
”جانے کہاں کہاں کی آوارہ گردی کرتی آرہی ہے۔اُن کے چہروں پر سجا میرے لئیے یہ پوسٹر بڑا واضح تھا۔“
”جہنم میں جاؤ۔“میں نے بستر پر لیٹتے ہوئے لعنت بھیجی۔
ساری رات بس خدشات کی گھمن گھیریوں میں کٹی۔
صبح سویرے اُٹھ کرعالی مقام جناب ابو موسیٰ کاظم کے مزار کی جانب بھاگی کہ کمرے میں تو منجی پر منجی چڑھی ہوئی تھی۔جائے نماز جوتیوں والی جگہ پر بِچھا کر ”چَنگی آں یا مندی آں صاحب تیری بندی آں“ جیسا من پسند راگ الاپنا تو بڑا گھٹیا کام لگا۔چلو وہاں تقدس بھرا ماحول تو ہوگانا اور دُوری بھی نہ تھی۔دو چھلانگوں والا معاملہ تھا۔سو نماز کے بعد پھیلی ہتھیلیوں پر صاحب جی آکر بیٹھ گئے اور بندی ان کی ٹانگوں سے لِپٹ گئی۔
”اب اِس اتھری بندی کا تجھے ہی خیال کرنا ہے۔وہاں وہ سامی ٹامی یا ان کے مقامی چیلے چانٹے ریڈ کردیں۔پکڑی جاؤں اور پاکستانی دہشت گرد کے نام پر سیدھی ابوغربAbu-Ghrabکی سلاخوں کے اندر۔
اور ہاں لُور لُور کُتے کی طرح سارا دن پھرتی ہوں۔وقت تھوڑا ہے اور ہابڑا پڑا ہواہے۔اب تجھے تو معلوم ہی ہوتا ہے کہ بموں نے کہاں کہاں پھٹنا ہے تو وہاں نہیں لے جانا مجھے۔ دیکھ ناپیچھے بچے چھوڑ کر آئی ہوں۔انہیں تو میری کچھ اتنی شاید چاہ نہ ہو پر مجھے تو ہے نا۔نکّو بنا ڈالیں گے۔بڑھ بڑھ کر باتیں کریں گے۔بڑی شوقین تھی ایڈونچرس بننے کی۔بوٹی بوٹی ہوگئی ہوگی اجنبی جگہوں پر۔جنازے کا بھی پٹڑہ کردیا۔
تو خوف کا کھیتارسِس ہوگیا۔
گاڑی میں بیٹھ کر میں نے باہر دیکھا تھا۔مٹیالے آسمان کا دامن داغ دھبوں سے پاک تھا۔
دھوپ شعلے بھڑکاتی آگ کی مانند بھڑکیلی اور گرم تھی۔رات کے آنچل سے بندھے اندھیرے میں پلتا ڈر،خوف،نااُمیدی اور مایوسی سی کہیں نہیں تھی۔دن کی روشنی اُمید اور حوصلے میں لِپٹی سڑک پر میرے ساتھ ساتھ رواں دواں تھی۔
گاڑی سر پَٹ بھاگنے لگی تھی۔ایمہ (Aimma) برج سے اعظمیہ کے علاقے میں داخل ہوئے۔المغرب سکوائر AL-Maghrib Squareسے مُڑے۔دائیں جانب نجب پاشا اور بائیں جانب المغرب کی آبادیوں کو دیکھتے آگے بڑھتے گئے۔کہاں کا ڈر اور کیساخوف؟میں بغداد کو دیکھ رہی تھی۔آبادیوں کے درمیان سے گزر رہی تھی۔
کھجور کے درختوں سے سجی کشادہ سڑکوں اور خوبصورت پانچ منزلہ چھ منزلہ عمارتوں کے فلیٹوں کو دیکھتے ہوئے ہم مختلف آبادیوں سے گزرتے گئے۔ بغداد کا یہ مضافات بہت سی چھوٹی بڑی بستیوں میں گھِرا ہوا ہے۔یہاں ایسے علاقے بھی تھے جو نچلے متوسط طبقے کے تھے۔ہمارے ہاں کی قصباتی جگہوں جیسے جہاں دُھول مٹی اُڑتی ہے۔ بچے اُسی دُھول مٹی میں کھیلتے ہیں اور یک و دو منزلہ گھر اپنی غربت کا رونا روتے ہیں۔
بجلی کی وائرنگ تاریں کہیں چھوٹی چھوٹی گلیوں کے مکانوں کے بنیروں کواور کہیں دیواروں کو چُھوتی بے ہنگم انداز میں گھروں کے اندر داخل ہوتی ہیں۔دو گلیاں جو میں پیچھے چھوڑ کر آئی تھی ان کی حالت انتہائی ابتر،بیچوں بیچ گندے پانی سے بھری نالیاں جو آگے جاکر چھپڑ سے بناتی تھیں جہاں شاپر اُڑتے اور مرغولوں کی طرح فضا میں بکھرتے عجیب سے تاثرات کو جنم دیتے تھے۔
تموز Tammuzسے آگے امام علی سٹریٹ سے اشبیلہ میں داخل ہوئے۔یہاں سے آگے صدر سٹی کا علاقہ تھا۔ مختلف سڑکوں کے تیز رفتاری سے موڑ کاٹتے ہوئے افلاق کی حسب معمول کمنٹری جاری تھی۔
صدر سٹی بغداد کے مضافات کا وسیع وعریض علاقہ جو 1950ء میں عبدالکریم کے زمانے میں تعمیر ہوا۔یہ صدام سٹی تھا۔ ایک نام اس کا Tawara District بھی ہوا۔ اب یہ صدر سٹی ہے۔
یہ شیعہ اکثریت کا علاقہ ہے۔ پہلے یہاں ایک دو سُنیوں کے محلّے بھی تھے مگر آہستہ آہستہ وہ لوگ گھروں کو بیچ باچ گئے۔
علاقہ ملا جلا تھا۔بہت خوبصورت گھروں اور پارکوں والا اور ماٹھا سا بھی۔گرین زون پر زیادہ حملے یہاں سے ہوئے اور مزاحمت موثر ترین بھی اسی علاقے سے ہوئی۔وجہ اتحادی افواج کا بصرہ پر قبضہ اور اس کی بربادی تھی۔بصرہ میں شیعہ آبادی کثرت میں ہے۔دوسرے مقتدری الصدر گروپ کا ترجمان اخبارAl-Hawzaکا بند کرنا تھا۔
”یہ صدرسٹی کی سب سے بڑی مارکیٹ جمیلہ مارکیٹ ہے۔افلاق کے ہی اشارے پرمیں نے ال امام علی جنرل اسپتال کو دیکھا۔
مجھے تو علیحدگی والی دیوار کہیں نظر نہیں آئی تھی۔نہ میں نے عراقی یا امریکی سپاہیوں کو دیکھا تھا۔افلاق ہنس پڑا تھا۔ہم اس دھرتی کے باشندے ہیں چورراستوں کا اگر ہمیں علم نہیں ہوگا تو پھر کن کو ہوگا؟یہ خوبصورت علاقہ تھا۔
گھر کے سامنے بڑا خوبصورت پارک تھا۔ہرے رنگ کا بڑا سا گیٹ تھا۔بیل bellبجانے کا فائدہ نہ تھا کہ بجلی نہیں تھی۔من و عین لاہور کی کِسی پوش آباد ی کا منظر تھا۔ دستک پر کوئی گیارہ بارہ سالہ لڑکا ہاتھوں میں چھوٹے گیٹ کا پٹ تھامے وہی استقبالیہ کیفیات آنکھوں میں لئیے نمودار ہوا۔
بہت کشادہ صحن تھا۔جس کی مشرقی دیوار کے ساتھ کھجور کا چھوٹا سا درخت تھا۔ دس بجے کی بَلتی سڑتی دھوپ آنگن کے صرف ایک حصّے پر براجمان تھی۔صحن میں لٹکی تار پر مردانہ کپڑے پھیلے ہوئے تھے۔کمرے میں داخل ہونے سے قبل میری نظریں یونہی داہنی سمت والے دروزے کی طرف اُٹھ گئیں جو کُھلا تھا۔ایک نظر کی تاکا جھانکی نے بہت خوبصورت کشادہ سے آنگن اور اس میں ایک دو منزلہ گھر کا نظارہ پیش کِیا تھا۔
ایک معمر مرد باہر نکلا تھا۔چہرے پرمیٹھی سی مسکراہٹ کے ساتھ اھلاََ و سہلاََ کہتا ساتھ میں بتاتا کہ گھر میں ایک مہمان آیا ہوا ہے جس سے ملنا خوشگوار ہوگا۔اندر کمرے میں داخلہ ہوا۔بجلی نہ ہونے کے باوجود کمرہ کچھ اتنا گرم نہ تھا۔پنکھا چلتا تھایقیناََ یو پی ایس کی مہربانی تھی۔میں نے بیٹھنے کے ساتھ کمرے میں دیکھا۔ گہرے سُرخ خوش رنگ پھولوں سے سجے قالین پر ایک جانب دو میٹرس اُوپر نیچے دھرے تھے۔دوسری طرف صوفہ پڑا تھا اور قالین پر ایک اُڈھیڑ عمر کا مرد جو ہمارے اندر داخل ہوتے ہی کھڑا ہوگیا موجود تھا۔
پچاس پچپن کے ہیر پھیر میں جس نے استقبال کِیا تھا وہ بصیرالحانی پہلے آرمی میں کرنل تھا۔وہاں سے صدام کی خفیہ ایجنسی میں بھیجا گیا۔جنگ کے دنوں میں گرین زون میں تھا۔ سچا اور کھراعراقی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان بھی تھا۔کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کرنے اور کوئی بڑا جھپا مارنے کی بجائے سادگی سے اپنی جگہ کھڑا گردش لیل و نہار دیکھتاتھا۔بزدل تھا۔قناعت پسند تھا۔ساتھی گُھنا کہتے تھے۔چُپ چاپ سُن لیتاتھا۔ جب کالی اور چِٹّی ٹانگوں کے نیچے وزنی بوٹ دَگڑ دَگڑ کرتے قیمتی اشیاء کو روندتے، ٹھوکریں مارتے محل میں داخل ہوئے تو وہ کھڑا بَٹر بَٹر دیکھتا اور صرف یہ سوچتا تھا کہ وہ جاہ جلال، وہ دبدبہ، وہ کروفّر سب کیسے خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں۔یہاں پرندہ پَر نہیں مارسکتاتھا۔
اُس کی یادوں میں اتحادی فوجوں کے وہ لوگ بھی تھے جو کمروں میں جاتے، برآمدوں میں کھڑے ہوتے تو رُک رُک جاتے۔ان کی آنکھوں میں اُمنڈتی حیرتیں اور ان کے رُکتے قدم یہ بتاتے تھے کہ اُن کی سوچیں کیا ہیں؟مسلم دُنیا کے ایک سربراہ کا اِس درجہ کروفّر،ایسا شاہانہ انداز زندگی؟ ایسا تو اُس کا بھی نہیں جو دُنیا کا بادشاہ ہے اور جس کی فوجیں یہاں مارو مار کرتی آئی ہیں۔
اس عمرکے دوسرے بندے کا نام فارس مہدی تھا۔امریکہ سے ایرو ناٹیکل انجنیرنگ میں تربیت یافتہ۔ پہلے جماعت الفاتحین میں شامل مزاحمت کی تاریخ مرتب کر رہا تھا۔بعد میں القاعدہ میں شامل ہوگیا۔ روس امریکہ جنگ میں جہاد کے جذبوں سے لدا پھندا پاکستان پہنچا تھا۔ پشاور حیات آباد میں تین ماہ کے تربیتی کورس میں شامل ہوا۔آئی ایس آئی کے چند افسروں کے نام بھی اُس نے لئیے جن سے اُس کی دوستی تھی۔
میں نے دلچسپی اور حیرت سے اُسے جو کل کا ہیرو، آج کا زیرو اور مانا ہوا دہشت گرد تھاکو دیکھا تھا جس نے اجنبی جگہ پر بیٹھ کر میرے وطن کی بات کی تھی۔وہ کِسی حوالے سے بھی تھی مجھے اچھا لگا تھا۔مثبت اور منفی کی بحث کے بغیر۔یوں شکوک و شبہات کی پرچھائیں سی میرے دماغ سے اُٹھ کر میری آنکھوں میں آگئی تھیں۔شیعہ آبادی کی اکثریت والے علاقے میں القاعدہ کا یہ سرگرم کارکن کیسے؟ اور سوال ہونٹوں پر بھی آگیا تھا۔
جواب میں سُننے کو جو ملا وہ یوں تھا کہ وہ توخود شیعہ مسلک سے ہے پر شیعہ سُنی اتحاد کا بہت بڑا علمبردارہے۔اُس کا دشمن صرف امریکہ ہے۔حُلیے بدلنے میں اُسے کمال حاصل ہے۔بصیر الحانی کو تو گُورو کی طرح مانتا ہے۔ممکن نہیں کہ بغداد آئے اور ملے بغیر چلاجائے۔رات کو کوئی گیارہ بجے آیا تھا۔میرے لئیے یہ بھی ایک خوشگوار اور مسرت آمیز بات تھی کہ وہ انگریزی اچھی بولتے تھے۔عراقی پڑھی لکھی قوم جس کے ریڑھی والے بھی انگریزی کا دال دلیہ بخوبی کر سکتے ہیں۔
عراقی فوج کے بارے میں جو میری معلومات تھیں اُن ہی کی روشنی میں میرا سوال ہوا۔بصیر الحانی نے میرے تاثرات اور اندازوں کی نفی کی۔
”سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور انتہائی جدید ہتھیاروں سے لیس عراق میں داخل ہونے والی فوج تقریباََ پونے تین لاکھ تھی۔اس کا بھلا ایک ایسی فوج سے مقابلہ کیونکر ممکن تھا جو اسلحے اور تربیت کے لحاظ سے بہت کمتر تھی۔خلیجی جنگ نے بھی خاصا نقصان پہنچایا تھا۔تاہم پھر بھی اگر غدارّی جیسا اہم عنصر نہ ہوتا تو یقیناََ آنے والوں کوفوری سبق مِل سکتا تھا۔
میں آج تک اِس بات کا تجزیہ نہیں کر سکا کہ صدام کو آخر اپنی کِس فوجی قوت پر نازتھا؟جنگ سے کافی پہلے عراق کے فوجی تجزیہ نگاروں نے اپنی رپورٹوں میں بھی یہ واضح کر دیا تھا۔
مجھے وہ میٹنگز یاد ہیں۔سینئر عراقی فوجی افسروں کے ایک جنرل نے کہا ”سر! سی آئی اے کے پاس ہماری فوج کے بارے میں بہت اہم معلومات ہیں۔فوج میں خریدو فروخت ہو رہی ہے۔ہماری منصوبہ بندیاں، تیاریاں،حفاظتی انتظامات اُس معیار کے نہیں ہیں جو ایک بڑے دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔
دبے لفظوں میں ایک کرنل نے یہ اظہار بھی کردیا۔”آپ عراق سے محبت کرتے ہیں۔اِس محبت کا تقاضا آپ کی حکومت سے علیحدگی ہے۔“
عراق بچ سکتا تھا۔
پر ہٹ دھرمی اور انا پرستی نچلا بیٹھنے ہی نہ دے رہی تھی۔ تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہوا۔
کمرے میں قہوہ لے کر آنے والا بھی ایک عمر رسیدہ آدمی تھا۔ٹرے کو سلیقے سے قالین پر رکھتے ہوئے وہ ساتھ ہی بیٹھ گیا۔پلیٹ میں جو کھجوریں تھیں وہ سیاہی مائل جامنی سی تھیں اور بصرے سے آئی تھیں۔بصرے کانام سُنتے ہی لا شعور میں گونجتی آوازیں یلغار کرتی سامنے آ گئی تھیں۔ریڑھی بانوں کی صدائیں،بصرے کی کھجوریں۔کھجوریں بڑی رسیلی تھیں۔تلوں سے بھرا خوشبو اُڑاتا تازہ سمون بھی تھا۔
”لگتا ہے خاتون خانہ نے اِسے ابھی بیک کِیا ہے۔“میں نے کھجور منہ میں ڈالی۔ قہوے کا گھونٹ بھرا اور سمون کو توڑنے کیلئے ہاتھ بڑھایا۔
بصیر الحانی مسکراتے ہوئے بولے”ارے نہیں۔خاتون خانہ تو ناصریہ اپنے میکے گئی ہیں۔بچوں کو تعطیلات تھیں۔ملازم نے بنایا ہے۔“
قہوے کے گھونٹوں نے وہ سارے دن میری آنکھوں کے سامنے لاکھڑے کئیے تھے جب میں ٹی وی پر عراق کے وزیر اطلاعات سعید الصحاف کی بڑھکیں سُنتی تھی۔
بغداد کو سٹالن گراڈ بنانے کے عزم کا اظہارہوتا۔امریکی فوجوں کیلئے عراق قبرستان بنے گاجیسی بڑی بڑی باتوں کا شور تھا۔
سچی بات ہے ایسے اُمید بھرے دعوے۔آمین آمین کہتے زبان سوکھتی۔دعائیں وجود کے ہر ریشے سے اُٹھتی تھیں۔امریکہ پر لعن طعن اور کوسنوں کے سلسلے جاری تھے۔ وہ منظر میری یادداشتوں میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہے جب میں ٹی وی کے سامنے سے نہ ہٹتی تھی اور میری اپنے شوہر سے لڑائی ہوتی تھی جو مجھے کہتے تھے”رحم کرو اپنے اُوپر تمہارا بلڈ پریشر کتنا شوٹ کر رہا ہے اِن دنوں۔“
ایسے ہی دنوں میں جب میرے اپنے وطن کے چند تجزیہ نگار جنہوں نے حالات
کا بڑی سفاکی سے تجزیہ کِیا تھا بڑے زہر لگے تھے۔تب بارہا دُعائیں کیں کہ اللہ تعالیٰ صدام جِلا وطن ہوجائے۔ہار مان لے۔جُھک جائے۔اِس کمبخت ہلاکو خان کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے۔
ایک دن پہلے دیکھتی تھی پارلیمنٹ کی کاروائی۔عربی میں یہ کاروائی کچھ اتنی میری سمجھ میں نہ آتی تھی پر پھر بھی اِدھر اُدھر کے چینلوں سے جان جاتی تھی۔جس صبح حملہ ہوا پی ٹی وی کی پہلی خبر نے لرزا کر رکھ دیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply