پار چناں دے – چندربھاگا سے چناب تک کا سفر(حصّہ اوّل)۔۔ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

کچھ سال پہلے کوک سٹوڈیو نے ایک گانا ریلیز کیا تھا جس کے بول کچھ یوں تھے

”پار چناں دسے کلی یار دی
گھڑیا گھڑیا آوے گھڑیا”

یہ گیت بہت مشہور ہوا تھا جس میں سوہنی مہیوال کی کہانی بیان کی گئی تھی جو چناب میں گھڑے پہ تیر کہ پار واقع جھونپڑی میں اپنے محبوب مہیوال سے ملنے جایا کرتی تھی۔
تب سے سوچ رہا تھا کہ محبت کی داستانوں کے امین، چناب کی اپنی کہانی بھی سن لینی چاہیئے کہ سرحد پار چندربھاگا کے نام سے جانا جانے والا یہ دریا بہت قدیم ہے جس کا ذکر ویدوں میں بھی ملتا ہے۔
پرانے لوگوں نے ہی دریاؤں کی تقسیم کچھ یوں کی تھی
راوی راسقاں

سندھ صادقاں

چناب عاشقاں

یہ دریا محبتوں کی کئی کہانیاں بھی اپنے ساتھ بہائے کشمیر و پیر پنجال سے پنجاب دھرتی تک لاتا ہے۔ اور پنجاب دھرتی تو ہے ہی رومان کی سرزمین جہاں چناب کنارے ہیر رانجھا ، مرزا صاحباں اور سوہنی مہیوال جیسی تین بڑی لوک کہانیوں نے جنم لیا ہے۔ اس لیئے اگر یہ کہا جائے کہ چناب کے پانیوں میں عشق بہتا ہے تو چنداں غلط نہ ہو گا۔ کیا وجہ ہے کہ یہ دریا صوفیاء اور عاشقوں کا پسندیدہ دریا رہا ہے۔ ؟

ندی کنارے جو نغمہ سرا ملنگ ہوئے

حباب موج میں آ آ کے جل ترنگ ہوئے

ارم کے پھول ازل کا نکھار طور کی لو

سخی چناب کی وادی میں آ کے جھنگ ہوئے

کبھی جو ساز کو چھیڑا بہار مستوں نے

تو گنگ گنگ شجر ہم زبان چنگ ہوئے

آئیں اس کی تاریخ اور اس کے سفر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ چناب کے تین پڑاؤ ہیں بھارت، جموں کشمیر اور پاکستان جن کا باری باری ذکر اس مضمون میں کیا جائے گا۔

بھارت کے شمال میں ریاست ہماچل پردیش واقع ہے جو اپنی دلکش وادیوں اور ہل اسٹیشنز کے حوالے سے مشہور ہے۔ ہمالیہ کے بلند و بالا پہاڑوں سے گھری اسی ریاست سے پھوٹتا ہے وہ دریا جسے ”پنجاب کی گنگا” کہا جائے تو غلط نہ ہو گیا کہ پنجاب کی رومانوی لوک داستانیں اسی کے کناروں سے پھوٹی ہیں۔ پیار و محبت کے اس دریا کو ہم چناب کہتے ہیں۔
چناب، ‘چَن’ اور ‘آب’ سے مل کر بنا ہے، چن کا مطلب چاند اور آب کا مطلب پانی ہے۔ یہ دریا بالائی ہمالیہ میں ٹنڈی (ضلع لاہول) کے مقام پر دریائے چندرا اور بھاگا کے ملاپ سے معرض وجود میں آتا ہے۔ انہی بالائی علاقوں میں یہ ”چندربھاگا” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جموں کے علاقے سے بہتا ہوا پاکستانی پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے اور ضلع جھنگ میں تریموں بیراج کے مقام پر یہ دریائے جہلم سے ملتا ہے اور پھر دریائے راوی کو ملاتا ہوا اوچ شریف کے مقام پر دریائے ستلج سے مل کر پنجند بناتا ہے، جو کوٹ مٹھن سے پہلے دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔

آئیں اس دریا کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور اس کے کنارے آباد شہروں کا جائزہ لیتے ہیں۔
چندرا، ہندی اور سنسکرت میں چاند دیوتا کو کہا جاتا ہے جس سے چندرماں اور چاند بھی مراد لیئے جاتے ہیں۔ یہ دریا ہماچل میں ”سُوریہ تل” جھیل کے جنوب سے نکلتا ہے۔ سُوریہ تل یا سورج تل جھیل بھارت کی تیسری اور دنیا کی اکیسویں بلند جھیل ہے جو قریباً 800 میٹر لمبی ہے۔ یہ لہہ منالی ہائی وے پر مشہور ”بارا لاچا درہ” کے پاس واقع ہے۔ اس جھیل کے پانی کا ماخذ بھی بارا لاچا کے گلیشیئر اور نالے ہی ہیں۔

جھیل کے جنوب سے نکل کر چندرا ایک نالے کی صورت بہتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا رخ جنوب سے مشرق کی جانب ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ جگہ پہاڑی علاقہ ہے اس لیئے یہاں کوئی خاص بڑا شہر آباد نہیں ہے۔ جنوب مشرق کے اپنے سفر میں یہ دریا ”چندرا تل” نامی جھیل کے قریب سے اپنا رُخ جنوب کی طرف کر لیتا ہے۔ چندرا تل ضلع لاہول سپتی میں واقع ہماچل کی ایک مشہور جھیل ہے جو سیاحتی مرکز کے ساتھ ساتھ آبی حیات کا مسکن بھی ہے۔ جیسے جیسے چندرا جنوب کی جانب رینگتا ہے اس کے کناروں پر آبادی بڑھتی جاتی ہے۔

”درہ کُنزم” اور کُنزم سٹوپا کے قریب سے گزر کہ یہ دریا ”بٹل” پہنچتا ہے جو ہماچل کے سب سے بڑے دیہاتوں میں سے ایک ہے۔ بٹل سے اس کا رُخ مغرب کی جانب ہوتا ہے اور یہ بٹل –کازا اور پھر لہہ-منالی ہائی وے کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا ”خانگسر” پہنچتا ہے۔ خانگسر سے یہ شمال کی جانب بل کھاتا ہوا ٹنڈی پہنچتا ہے جہاں بھاگا اس کا منتظر ہے۔
یہ تو تھا چندربھاگا کے چندر کا سفر اب چلتے ہیں بھاگا کی جانب۔

دریائے بھاگا، بھاگ سے نکلا ہے جسے ہندومت میں قسمت کا دیوتا کہا جاتا ہے۔ بھاگ سورج دیوتا سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ یوں چندربھاگا کو چاند اور سورج کے ملاپ سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے۔

دریائے بھاگا، سُوریہ تل جھیل کے قریب سے ایک چھوٹے سے نالے کی شکل میں نکلتا ہے اور لہہ منالی ہائی وے کے ساتھ ساتھ مغرب کی طرف بہتا ہوا پتسوئی کے مقام پر اپنا رخ جنوب کو پھیر لیتا ہے۔ اس علاقے میں یہ بلند و بالا پہاڑوں کی گھاٹیوں سے گزرتا ہے جہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ کچھ مندر اور پگوڈے یہاں واقع ہیں۔ جسپا اور کیلونگ کی سر سبز وادیوں سے ہوتا ہوا دریائے بھاگا ”ٹنڈی” کے مقام پر اپنے بچھڑے ساتھ چندرا سے بغل گیر ہو کر چندرابھاگا بن جاتا ہے۔ یوں برصغیر کا ایک عظیم دریا تشکیل پاتا ہے۔

ٹنڈی سے چندربھاگا کا سفر مغرب کی جانب شروع ہوتا ہے جہاں یہ ”تریلوک ناتھ” اور کشوری سے ہوتا ہوا اُدے پور پہنچتا ہے۔
اُدے پور ہماچل کا مشہور شہر ہے جس کا پرانا نام ”مرکل” تھا جویہاں موجود ”مرکلا دیوی” کے مندر کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔ پھر چمبہ کے راجہ اُدے سنگھ کے نام پر اس شہر کا نام رکھا گیا جو آج ایک ضلعی صدر مقام ہے۔

ادے پور اور قریب واقع تریلوک ناتھ مندر، اس علاقے کے دو اہم زیارتی مقامات ہیں جو ہندو اور بدھ دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے لیئے متبرک ہیں۔
ادے پور کے بعد یہ بہت سی سنسان گھاٹیوں میں بہتا ہوا رنسانی سے شمال کی جانب موڑ کاٹتا ہے۔ ہماچل کے چھوٹے چھوٹے شہروں جیسے منڈھل اور دھرواس سے ہو کر چندربھاگا مقبوضہ جموں و کشمیر میں داخل ہو کر چناب بن جاتا ہے۔

جموں کے سرسبز پہاڑوں میں بہتا ہوا چناب بہت سے جھرنوں کا پانی خود میں سموتا ہوا ”پدار” پہنچتا ہے جو ضلع کشتواڑ کی ایک تحصیل اور خوبصورت وادی ہے۔
اس کی اگلی منزل کیرو ہے جہاں اس پر ”کیرو ہائیڈرو الیکٹرک” پاور پراجیکٹ لگا کر بجلی بنائی جاتی ہے۔ اسکے بعد یہ گلہار سے ہو کردول پہنچتا ہے جہاں ”دلہستی” ڈیم بنایا گیا ہے۔ اس سے کچھ آگے چناب میں ”مراؤ” دریا شامل ہوتا ہے اور اس کا سفر جنوب کی جانب شروع ہوتا ہے۔
جنوب کی جانب بہتے ہوئے اس کے کناروں پہ مندِروں کے ساتھ ساتھ مساجد کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے۔

یہاں کچھ آگے چناب کنارے کشتواڑ شہر آباد ہے۔ کشتواڑ ریاست کے تمام ضلعوں میں ماسوائے اضلاع لداخ و ڈوڈہ، بلحاظ رقبہ سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس علاقے کو نیلم و زعفران کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پدار میں نیلم کی بہت بڑی کان ہے جبکہ پوچھل کی وادی میں بڑے پیمانے پر زعفران کاشت کیا جاتا ہے۔

معدنی لحاظ سے یہ سرزمین بہت قیمتی ہے ۔ ابرق، سیسہ، جپسم اور نیلم منظر عام پر آچکے ہیں اور دوسری پوشیدہ معدنیات کا سراغ ابھی تک نہیں لگایاگیا ہے۔ پہاڑوں کی ڈھلانوں میں چیل، پرتل، دیودارسمیت دیگر عمارتی لکڑی کے جنگلات لہلہاتے ہیں۔ ان جنگلوں میں ہر قسم کا چھوٹا بڑا شکار پایاجاتا ہے۔

قدیم زمانہ میں کشتواڑ کی طرف سے مغلوں اور کشمیری تاجداروں کو جو خراج دیاجاتا تھا اس میں باز اور جرہ پرندے بھی شامل ہوتے تھے۔ یہاں کی زرعی پیداوارمیں مکئی،جو گندم اور دالیں شامل ہیں۔

آگے چل کر  تھاتھری کے مقام پر چناب کا رخ مغرب کو ہو جاتا ہے۔ یہاں آہستہ آہستہ پہاڑ چھوٹے ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ”ڈوڈا” شہر آ پہنچتا ہے۔ یہ شہر ضلع ڈوڈا کا صدر مقام ہے۔ یہاں سے آگے کے سفر میں چناب کا پاٹ چوڑا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور چندرکوٹ کے قریب اس میں واضح تبدیلی نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہاں بنایا گیا متنازعہ بگلیہار ڈیم ہے۔

اس ڈیم پر کام کا آغاز1999 میں ہوا جبکہ اس کا دوسرا فیز 2015 میں مکمل ہوا تھا۔ اس ڈیم کی ساخت کو لے کر پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے تحت کئی اعتراضات اٹھائے تھے جن پر ورلڈ بینک نے ایک سوئس سِول انجینیئر ”ریمنڈ لیفیٹی” کو ثالثی بنا کر بھیجا۔ ریمنڈ نے پاکستان کے کچھ قلیل اعتراضات کو تسلیم کیا جبکہ ڈیم کی اونچائی اور گیٹ کنٹرول سپل وے کے اہم معاملے پر اپنی حمایت بھارت کے پلڑے میں ڈال دی۔

یہ پاور پراجیکٹ ضلع رام بن کی حدود میں پیر پنجال کی پہاڑیوں کے دامن میں بنایا گیا ہے۔ وادئ چناب کا یہ ضلع اپنی سیاحتی سرگرمیوں خصوصاً پیرا گلائڈنگ، گالف، ٹریکنگ، کیمپنگ اور ہائیکنگ کے لیئے جانا جاتا ہے۔

یہاں سے چناب مقبوضہ جموں کے ضلع ریاسی میں داخل ہوتا ہے اور مقبوضہ علاقوں کو بھارت سے ملانے والی سب سے بڑی سڑک سرینگر- کنیا کماری ہائی وے(جو کشمیر سے تامل ناڈو تک جاتی ہے) کے ساتھ چلتا ہوا شمال کی طرف جاتا ہے جہاں اس کے کنارے میترا اور رام بن آباد ہیں۔ یہاں سے کچھ آگے یہ سرینگر کنیا کماری ہائی وے کو چھوڑتا ہے اور ایک بڑی ندی کا پانی لے کرجنوب کو بل کھاتا ہوا ”دھرم کنڈ” پہنچتا ہے جہاں اس کے کنارے جپسم و دیگر معدنیات کی کانیں موجود ہیں۔

چناب کا سفر پیر پنجال کی پہاڑی گھاٹیوں میں جاری ہے یہاں تک کہ دھاروٹ سے ہو کہ یہ اُس جگہ آ پہنچتا ہے جہاں اس پر ایک خوبصورت محرابی شکل کا ریلوے پل بنایا گیا ہے جس کا نام ہے ”چناب ریل محراب پل”۔ یہ ایک خوبصورت پل ہے۔

یہاں میں یہ بات بھی کہنا چاہوں گا کہ بھارت نے اپنے ریلوے نیٹ ورک کو اتنی ترقی و وسعت دی ہے کہ اسے جموں تک لے آیا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ حال ہے کہ نئے ٹریکس بنانا تو کجا ہمارے کئی ٹریکس بند ہو کر بے کار پڑے ہیں۔ کاش کہ ہمارے ہاں بھی سیاحتی مقامات جیسے سوات، مری، مظفرآباد وسکردو کو ریلوے لائن سے ملا دیا جائے۔

یہاں سے آگے چناب کا پاٹ پھر چوڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس میں کہیں کہیں چھوٹے جزائر نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں شمال اور مغرب سے اس میں ندیاں ملتی ہیں اور کچھ جنوب میں اس پر بنایا گیا ”سلال ڈیم” آ جاتا ہے۔

یہ ایک رن آف ریور ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ہے جو 1970 سے 1987 تک کے عرصے میں بن کہ تیار ہوا یوں یہ سندھ طاس معاہدے کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر میں بنایا جانے والا پہلا بھارتی منصوبہ تھا۔

ڈیم سے آگے دریا کا پاٹ سکڑنا شروع ہوتا ہے اور سلال شہر آ جاتا ہے۔ سلال سے یہ تلواڑا پہنچتا ہے جہاں سے اس کا پاٹ پھر چوڑا ہوتا ہے ۔ یہاں چناب کنارے رافٹنگ پوائنٹس بنائے گئے ہیں۔
کچھ آگے مشرق سے ایک اور شاخ اس میں ملتی ہے اور اس کے پانی کو جلا بخشتی ہے۔ یہاں یہ مختلف شاخوں میں بٹ جاتا ہے جن میں مغرب اور پھر مشرق سے کشمیر کا پانی لے کہ دی نالے شامل ہوتے ہیں۔

اب ہم چناب کے تنگ پاٹ کے ساتھ جموں میں داخل ہونے کو ہیں جو مقبوضہ ریاست میں اس دریا کا آخری پڑاؤ ہے۔ یہاں اس کی اہم منزل اکھنور ہے۔
اکھنور جموں کا ایک مشہور اور قدیم شہر ہے جس کا ذکر مہا بھارت میں ”ویراٹ نگر” کے نام سے آیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب شہنشاہ جہانگیر کی کشمیر یاترا کے دوران آنکھیں خراب ہوئیں تو ایک بزرگ کے مشورے پر اس نے اس جگہ کا دورہ کیا۔ چناب سے آنے والی ہواؤں نے اس کی آنکھوں کو صحت بخشی اور اس نے اس جگہ کو آنکھوں کا نور قرار دیا جو بگڑتے بگڑتے اکھنور بن گیا۔
ایک دوسری جگہ یہی روایت اس کی بیوی  سے منسوب ہے کہ آنکھیں خراب ہونے پر اس نے چناب کے پانی سے آنکھیں دھوئیں تو آنکھوں کا نور واپس آ گیا اور یوں اکھنور شہر کا نام پڑ گیا۔ ان میں سے سچ کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔

اکھنور ایک تاریخی شہر بھی ہے۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے مطابق یہ شمال میں وادئ سندھ کی تہذیب کے آخری قلعوں میں سے ایک تھا۔
اکھنور ہی وہ جگہ ہے جہاں پہاڑ اور ان کی وادیاں چناب کو میدانی علاقوں کے سپرد کر دیتی ہیں اور اس کی روانی کچھ کم ہو جاتی ہے۔
اب چناب کا سفر بجانب جنوب مغرب ہے اور یہ دیوی پور، گکھڑال، پرگوال اور سروال سے ہوتا ہوا مختلف شاخوں میں بٹ کر ٹگوال آ پہنچتا ہے۔ یہ مقبوضہ جموں کشمیر و پاکستان کی سرحد پر آخری علاقہ ہے۔

یہاں سے چناب پاک سر زمین میں داخل ہو جاتا ہے اور ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے۔
ضلع سیالکوٹ پاکستانی حدود میں چندربھاگا کو خوش آمدید کہتا ہے۔ یہاں گنگوال نامی قصبہ سے گزر کہ پہلے اس میں تیروتی نالہ اور پھر مشرقی سمت سے دریائے تَوی آ ملتا ہے۔
کیلاش گلیشیئر سے نکلنے والا دریائے توی جموں شہر سے بہہ کر سیالکوٹ کی حدود میں داخل ہوتا ہے اور چناب میں مل جاتا ہے۔ عام طور پر بھارت میں دیگر دریاؤں کی طرح 141 کلومیٹر لمبا دریائے توی بھی مقدس سمجھا جاتا ہے۔

یہاں سے کچھ ہی جنوب میں ضلع سیالکوٹ و گجرات کی سرحد پہ چناب پر پاکستان کا پہلا بند باندھا گیا ہے۔ یہ مرالہ ہیڈورکس ہے۔
برطانوی دور میں نہر اپر چناب کو پانی کی سپلائی کے لیئے یہاں ایک بند تعمیر کیا گیا تھا۔ پھر آبپاشی اور سیلاب سے بچاؤ کے لیئے یہ نیا بیراج 1968 میں تعمیر کیا گیا تھا۔
پاکستان کی دو اہم ترین نہریں، مرالہ راوی لنک کینال اور اپر چناب کینال یہاں سے نکلتی ہیں۔ اپر چناب گوجرانوالہ اور شیخوپورہ کے اضلاع کو سیراب کرتی ہوئی مانگا کے قریب راوی میں مل جاتی ہے۔

مرالہ راوی لنک کینال 1956 میں چناب کا پانی راوی کو منتقل کرنے اور ضلع سیالکوٹ و گوجرانوالہ کی اراضی کو سیراب کرنے کے لیئے بنائی گئی تھی۔ 65 کی جنگ میں اسی نہر کو نشانہ بنا کہ بھارتی فوج نے حملہ کیا اور پاک فوج کے ہاتھوں پسپائی اختیار کی۔

ہیڈ مرالہ سے آگے چناب کا پاٹ چوڑا ہو جاتا ہے۔ یہیں جلال پور جٹاں کے قریب کشمیر سے آتا ہوا ”دوارا نالہ” مغربی جانب سے چناب میں گرتا ہے۔ یہاں سے چناب گجرات و گوجرانوالہ کے اضلاع کے بیچ حد بندی بناتا ہوا بہتا چلا جاتا ہے۔
یہ علاقہ پنجاب کے زرخیز ترین علاقوں میں سے ہے۔ یہاں چناب کنارے آباد پاکستان کا پہلا بڑا شہر گجرات ہے۔
برقی آلات، بجلی کے پنکھے و فرنیچر سازی کے لیئے مشہور گجرات کو ”نشانِ حیدر” کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔ اس ضلع کے تین فوجی جوان نشان حیدر حاصل کر چکے ہیں جن میں راجہ عزیز بھٹی شہید، میجر شبیر شریف شہید اور میجر محمد اکرم شہید شامل ہیں۔

تصاویر بشکریہ ایم بلال ایم(منظر باز)

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply