نظام عدل منی لانڈرنگ اور ملزم وزیر اعظم ۔۔عامر عثمان عادل

آج قانون و انصاف کی ایک تاریخ رقم کر دی گئی
لاہور کے سپیشل جج سنٹرل کی عدالت میں 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ زیر سماعت تھا۔امکان یہی تھا کہ ملزم پر فرد جرم عائد کی جائے گی،لیکن  عین وقت پر کیا ہوا کہ ملزم کے وکیل نے معزز جج کے سامنے ایک کاغذ کا ٹکڑا رکھ دیا
اس پہ لکھا کیا تھا ؟
تحریری عرضداشت
جناب جج صاحب
زیر سماعت مقدمہ کا ملزم الحمد للہ اب مملکت پاکستان کا و زیر اعظم بن چکا ہے اور آج اسے کابینہ کے انتہائی اہم اجلاس کی صدارت فرمانا ہے لہذا آپ عدالتی کارروائی کو التوا میں رکھ دیجئے
جج صاحب نے تحریر پڑھی اور استفہامیہ انداز میں ایف آئی اے کے وکیل کی جانب دیکھا۔
ادھر سے مکمل خاموشی کو نیم رضا مندی سمجھا گیا
جج صاحب کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔۔
اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ عدالتی کارروائی کو مذاق نہ بنائیں پہلے ہی تاریخ پہ تاریخ لے چکے ہیں آپ۔
مقام حیرت ہے کہ ایف آئی اے جو ایک وفاقی ادارہ ہے وہ مکمل خاموش ہے گویا انہیں کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی وہ اب اس مقدمے کی پیروی کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جج صاحب نے ملزم کے وکیل کو ذرا سخت لہجے میں کہا عید کی وجہ سے لمبی تاریخ دینے جا رہا ہوں لیکن اب مزید گنجائش نہیں
وکیل زیر لب مسکراتے ہوئے دل ہی دل میں گویا کہہ رہا تھا
می لارڈ اگلی پیشی تک کیا پتہ آپ اس عہدے پہ رہتے بھی ہیں نہیں
شاید ہی دنیا کے کسی ملک کے عدالتی نظام میں ایسی کوئی نظیر ملے
16 ارب کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ
مرکزی ملزم اب وزارت عظمی کی مسند پہ جلوہ افروز
مقدمہ تیار کس نے کیا ایف آئی اے نے
اب وہ کس کے ماتحت ہے ؟
اسی ملزم کے
کچھ عرصہ قبل ایک ریٹائرڈ پولیس افسر نے اپنی یادداشتوں میں ایک واقعہ نقل کیا تھا اپنے پڑھنے والوں کی دلچسپی کی خاطر حاضر ہے
لکھتے ہیں میں نے کسی ضلع کی پولیس کا چارج سنبھالا اور بڑے مقدمات کی فائلز منگوا لیں
ایک مقدمہ قتل کی فائل دیکھی تو ماتھا ٹھنکا 302 کا کیس اور مرکزی ملزم آزاد
متعلقہ تھانے سے رپورٹ طلب کی
اگلے دن ایس ایچ او نے دفتر حاضر ہو کر زور سے سلیوٹ مارا اور مثل مقدمہ میرے سامنے رکھ دی
ورق پلٹا تو کیا لکھا تھا
دوران انکوائری انکشاف ہوا کہ زیر نظر مقدمہ کا مرکزی ملزم اب وزیر بن چکا ہے لہذا اب اس کی تفتیش ناممکن ہے اس لئے کیس داخل دفتر کئے جانے کی استدعا کی جاتی ہے
جب طے ہو چکا تھا کہ آپ کے اقتدار کی راہ میں حائل تمام کانٹے نکال دئیے گئے ہیں اب رسمی کارروائی باقی ہے تو کیا بہتر نہ ہوتا کہ عارضی مدت کے لئے کسی اور کو اس مسند پہ بٹھا دیتے
کیا کوئی کارکن دیرینہ اس لائق نہ تھا ؟
کوئی خواجہ ‘ کوئی ہاشمی کوئی چیمہ کوئی صادق ؟
آپ کی ہی حکومت بنتی
خود کو تمام تر جھوٹے مقدمات سے بری کرواتے اور پھر ایک شان سے وزارت عظمی کی خلعت فاخرہ پہن لیتے
کم از کم اس عہدے کو تو یوں بے توقیر نہ کیا ہوتا
دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی تو نہ ہوتی کہ دنیا کی پہلی حکومت ہے جس کا وزیر اعظم اور کابینہ ضمانت پر ہے
کاش اے کاش
آپ ہوس اقتدار پر یوں عدل و انصاف کے پورے نظام کو نہ وار دیتے
آج یہ نظام عدل اپنی توقیر تو کھو بیٹھا ہے
ایسا نہ ہو عوام کا اعتماد بھی کھو بیٹھے۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply