میں نے آواز کو آتے دیکھا-زبیر قیصر/تبصرہ ثمینہ سیّد

شاعری الہام کی صورت دلوں میں اترتی ہے اور جذبوں کے سیلِ رواں کی لفظوں میں ترتیب و تنظیم کرتی جاتی ہے۔ شاعری عطا ہے، خاص ودیعت ہے جو ہر دل پر مہرباں نہیں ہوتی۔ جن پر یہ دیوی مہربان ہوتی ہے پھر وہ اس کے بہاؤ کے ساتھ عمر بھر بہتے رہتے ہیں۔ ان کے جذبوں اور احساسات ہر تازگی اور شادابی رہتی ہے۔ وہ پژمردگی کو شعروں کے دامن میں ڈال کر تروتازہ اور مطمئن ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شاعر زبیر قیصر ہیں جن کی کتاب ” میں نے آواز کو آتے دیکھا” میرے سامنے ہے۔

زبیر قیصر کے شعروں سے میں بہت سال پہلے سے متاثر ہوئی۔ جب فیس بک پہ ہم لوگ نئے نئے ایڈ ہوئے اور احباب کی شاعری اور افسانے پڑھنے کو باآسانی میسر ہونے لگے تو ذہن و دل کو نئی روشنی اور شوق ملنے لگا۔ ان کا ہر شعر بہت عمدہ اور منفرد اسلوب لیے ہوتا ہے۔ اب کتاب میں موجود سو سے زیادہ غزلیں زبیر قیصر کی شاعری کے میدان میں پختگی اور سینئر شعراء کی رائے ان کا مان بڑھا رہی ہے۔
تیری تصویر مجھ سے لپٹی ہے
خود کو دیوار کررہا ہوں میں

محبت تو شاعری کا جزو لاینفک ہے۔ لیکن محبت کو دیکھنے کا، برتنے کا نظریہ ہر کسی کے ہاں الگ ہے۔ زبیر قیصر بہت سادگی سے بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔
یہ لکیریں نہیں ہیں چہرے پر
وقت نے مجھ پہ دستکاری کی

ایسے ہی بہت سارے خوبصورت اشعار زبیر قیصر کی شاعری کی تزئین کررہے ہیں۔
جناب قمر رضا شہزاد ان کی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں۔

“بہت کم نوجوان شعراء ایسے ہیں جنہوں نے غزل کے مزاج کو سمجھا اور مروجہ شعری سسٹم میں رہتے ہوئے اپنی الگ شناخت بنا رہے ہیں انہی میں ایک عمدہ شاعر زبیر قیصر بھی ہیں۔ ”
شمشیر حیدر کہتے ہیں ” زبیر قیصر ایسا خوش نصیب شاعر ہے جس نے بہت کم وقت میں اپنی الگ پہچان بنا لی ہے۔ ”
حمیدہ شاہین جی شاعری کے افق کا ایک روشن ستارہ ہیں وہ زبیر قیصر کی شاعری کے بارے میں کہتی ہیں۔
” زبیر قیصر جب تک رواں دواں ہے، نئے گوشے اس کو لبیک کہنے کے لیے تیار رہیں گے۔ شعری کائنات کی وسعت اس کو بلاتی رہے گی۔ ”
ہنستا رہتا ہوں پر خوشی کم ہے
زندگی میں بھی زندگی کم ہے

شعر و ادب کے کارزار میں جہاں سینئرز اپنے آپ کو ہی بڑا اور ماہرِ اسلوب سمجھتے ہیں اور جونئیرز ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہیں۔ ایسے میں اتنے سینئرز اور ہم عصروں کی مثبت رائے زبیر قیصر کی شاعری کی پختگی کے لیے سند ہے۔
کتنے امکان بن گئے قیصر
ایک دیوار کو بناتے ہوئے

سلمان باسط کہتے ہیں “زبیر قیصر کا شعری سفر میرے سامنے ہے۔ اس نوجوان نے بہت کچھ۔ عرصے میں تسلسل کے ساتھ عمودی پرواز کی۔ اس کے پاس ششدر کردینے والا ہنر ہے۔ ”
سجاد بلوچ کہتے ہیں “زبیر قیصر سے میری دوستی کا عرصہ اور زبیر کی شاعری کی عمر تقریباً برابر ہیں۔ وہ محبت کی شاعری کرتا ہےاور نفرت کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ ”
ڈاکٹر عنبرین صلاح الدین کہتی ہیں۔ ” زبیر قیصر کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہےکہ وہ شاعری میں زندگی کے فطری آہنگ کو برقرار رکھتا ہے۔ ”
نئے مصرعے بنا لیے تم نے
بات لیکن وہی پرانی کی
وقتِ رُخصت کا بھیگتا منظر
کیا محبت کا اعتراف نہ تھا؟
پھر اس کے بعد کٹی عمر بدگمانی میں
بس ایک بار سنا اس کا بے یقیں لہجہ
تمہارے عشق میں باندھی ہے دھڑکنوں کی لے
اب اس سے بڑھ کے ریاضت تو ہو نہیں سکتی
بچھڑ گیا تو اب دھوپ بھی ستاتی ہے
کھلا کہ سایہ ء دیوار بھی اسی کا تھا
میں جانتا ہوں بلا کا زمانہ ساز ہے تو
بس ایک میں کہ منایا نہیں گیا تجھ سے
مصرعہ ء تر نکالتا ہوں میں
دل کے پودوں کی آبیاری سے
نکالتا ہے تو جس طور رات سے سورج
ہماری شب سے ہمیں بھی نکال ویسے ہی
حضور رزق کمانے دیں مجھ کو بچوں کا
کہ میں خدا کی طرف ہوں نہ آپ کی جانب

ایک سے بڑھ کے ایک عمدہ شعر اس کتاب میں موتیوں کی طرح دمک رہا ہے۔ ایسی اب و تاب کہ انتخاب مشکل ہے۔
یہ زرد شال میں لپٹی ہوئی حسیں لڑکی
ہمارے گاؤں کا موسم اداس کر دے گی

اور اس شعر کے ساتھ اختتام کرتی ہوں اپ بھی کتاب حاصل کریں اور زندگی کی گرہیں کھولتی شاعری پڑھیں۔
وقت کے اس نگار خانے میں
سب تماشہ ہیں، سب تماشائی

Advertisements
julia rana solicitors london

زبیر قیصر بہت اچھے شاعر ہیں اور زمانے کے تقاضوں سے بھی خوب واقف ہیں۔ انٹرنیٹ کے تمام ذرائع کو بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ فیس بک کے سرگرم شاعر ہیں۔خوبصورت کتاب کے لیے  مبارک باد اور نیک خواہشات۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply