• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آج کا اخبار (عوامی قانون سازی )۔۔محمد نور الامین

آج کا اخبار (عوامی قانون سازی )۔۔محمد نور الامین

آج کا اخبار (عوامی قانون سازی )۔۔محمد نور الامین/جون ایلیا نے کہا تھا کہ (آپ وہ جی مگر یہ سب کیا ہے۔۔۔۔تم مرا نام کیوں نہیں لیتی)
شوہر کا نام لینے سے گریز مشرقی خواتین جبکہ حقائق کے اظہار سے گریز کا وطیرہ پاکستان کے اراکین اسمبلی اور ذہین وزراء کا ہے جواقتدارکو طول دینے کی تدبیریں کسی دوسرے کی خاطر کرتے مگر اس سب کے بِل عوام کے نام پرپھاڑ رہے ہیں، وہ خود کو نہ صرف فریبِ نیت سے عوامی نمائندہ تصور کرتے ہیں بلکہ اسی جذبے سے متوقع قانون سازی کو عوامی مسائل کا ممکنہ حل بھی قرار دے رہے ہوتے ہیں، حالانکہ ممکن ہے چندسال بعد یہی قوانین کالعدم قراردے دئیے جائیں اور انہیں ذاتی خواہش یاکسی جادو ٹونے کے زیر اثرکارروائی سمجھ کر کوئی دانایکسر مسترد کردے، مگرجس طرح سے ممکنہ قانون سازی کے لیے بلوں کی بھاری (گٹھڑی) کو عوام کے کندھوں پر لاد کر اسمبلی میں لایا اور منظور کروانے کے جتن ہو رہے ہیں اس سے تو یہ لگتا ہے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے، حکومت اور اپوزیشن کی بقاء اسی میں ہے کہ پارلیمان کے دونوں ایوان اسے فوری منظور کر کے کیے گئے عہدکو وفاکریں۔

ad

قانون سازی کا چرچا ہمیشہ سے (اخبارات کی پیدائش سے)میڈیاکی ایسے ہی زینت بنتا ہے، جیسے پہلی بار روزہ رکھنے والے بچے کے لیے چاند رات کا تصور مسحور کن اور جذباتیت سے بھرپور ہوتا ہے،حالانکہ قوانین کے بننے اور بگڑنے یعنی ترامیم کے اثر کا عوام الناس پر ظہور کبھی کبھار ہی ہوتا ہے، لیکن میڈیا ایسے تمام مواقعوں پر پٹاخے پھوڑنا نہیں بھولتا، بالخصوص اختلاف رائے کی صورت میں تو قانون سازی کی خبروں کا مزہ دو آتشہ ہوجاتا ہے، یہی مشقِ سخن آج کل بھی جاری ہے جب حکومت نے 28 کے قریب بل اور ترامیم ایک ساتھ اسمبلی میں پیش کرنے اور ہر صور ت منظور کروانے کی ٹھان رکھی ہے، جبکہ اپوزیشن بغیر مفاد کے منظوری دینے کے موڈ میں نہیں۔ اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ پر نظر دوڑائیں تو عجب ہنگامہ آرائی ہے، بیانات کی حد سے گزرکر عملی کام کرنے کے لیے جواستطاعت درکار ہے وہ شاید ہمارے حکمران طبقے میں نہیں کہ دعوے، الزامات، دھمکیاں اور گئے وقتوں کے قصے کہانیاں خبروں کاوہ جزوہیں جن سے فرار یااجتناب ممکن نہیں سوتسلسل ہے کہ سال ہا سال گزرنے پر بھی اس میں تعطل آیانہ ہی جوش وخروش میں کمی واقع ہوئی ہے۔

البتہ سوچنے یاپوچھنے کی بات یہ ہے کہ ان دنوں جو قانون سازی ہو رہی ہے یا اسے روکنے کے لیے جو سازشیں کی گئی ہیں اس کا تعلق اس ملک کے 98 فیصد عوام سے کس درجہ تک کا ہے اور انہیں مستقبل قریب میں اس سے انفرادی یا اجتماعی طور پرکیا فائدہ اورنقصان ہوسکتاہے۔ اس ضمن میں عمومی جائزہ لیا جائے تو الیکٹرک ووٹنگ مشین کا کم از کم اس ملک کی 60فیصد آبادی پر فی الفورکوئی اثر نہیں پڑے گا کہ ان میں سے ووٹر کی شرح اور ٹرن آؤٹ کا تناسب منفی کر دیا جائے تو باقی کم و بیش ساٹھ فیصد عوام کو مشین سے ووٹ ڈالنے کا بل پاس ہونے کی خوشی ہے نہ کوئی افسوس، اسی طرح بھارتی گرفتار جاسوس کلبھوشن کو ہائیکورٹ میں اپیل کے حق سے متعلق بل کی منظوری سے بھی عوام کا دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ماحولیات اور موسمیات کے لیے نئی اتھارٹیزکے قیام سے عام آدمی کی زندگی میں بہار نہیں آئے گی، بندرگاہوں کی اتھارٹیز کے قیام یاا ن سے متعلق آرڈینینس میں ترمیم سے بھی کسان یا مزدور کو راحت نہیں ملے گی۔ مزید غور سے جائزہ لیا جائے تو مسلم فیملی لازمیں یتیم پوتے پوتی یا نواسوں کے جائیداد میں حصے سے متعلق یا میری ٹائم سکیورٹی سے بھی 15/20کروڑ لوگوں کو کچھ واسطہ نہیں، نیشنل کالج آف آرٹس، سٹیٹ بینک آف پاکستان، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے قیام، اراکین اسمبلی اور کچھ دھرنا میٹیریل کی انا کی تسکین کے لیے قانون سازی یا ترمیم وا ضافہ بھی خط غربت کے آس پڑوس میں مقیم عام آدمی کو دو وقت کی روٹی فراہم کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور جگا ٹیکس عائد کر کے وصول کیے گئے عوامی وسائل میں سے اربوں روپے مشترکہ اجلاس بلانے، اتحادیوں کو ا س میں شرکت پر آمادہ کرنے کے لیے کھلانے، اور پھر اس سب ڈرامے کو عوامی قرار دینے کی بات کوئی قانون دان تو شاید سمجھ لے، لیکن عام آدمی کو جو دن بھر کی مشقت سے کنبہ پالتا ہے اسے بالکل سمجھ نہیں آئے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گزشتہ دو ماہ سے قانون سازی کے حق اور اختلاف میں جس طرح کے بیانات میڈیا کی زینت بن رہے ہیں انہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ حکومت یا اپوزیشن میں سے کم از کم ایک فریق تو جہاد کر رہا ہے، تاہم نتائج دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے بیشتر تو ڈگڈگی پر ناچ رہے تھے، دو ایک حقائق کی بنید پر تلملارہے تھے اور باقی تماشائیوں کادل بہلانے کے جتن کر رہے تھے۔ کیونکہ تھوک کے حساب سے جس طرح بل پیش اور پاس ہوئے ان کا اندازہ اکثر لوگوں کوپہلے سے نہیں تھا،لیکن جو لوگ ایمپائر کے اشارے پر کھیلتے ہیں انہیں ہمیشہ کامیابی ملتی ہے یہ پاکستان کے وسائل و اختیارات پر قابض قوتوں کی تدبیر بھی ہے،ملکی تاریخ بھی اور شاید مستقبل کے لیے قسمت کالکھا بھی۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply