فاروق بلوچ کی تحاریر
فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ/ کامریڈ فاروق بلوچ

“یہ تحریر وقت کے ایک ایسے صفحے پر رقم کی جا رہی ہے جس پر گزرے ہوئے لمحات کے خُونچکاں دھبّے ابھی خشک نہیں ہوئے…” واشنگٹن کی وہ شام غیر معمولی تھی۔ افق پر سورج نہیں، پیشانی پر شکست کی←  مزید پڑھیے

امتِ منتشر اور صدائے پاکستان زندہ باد /کامریڈ فاروق بلوچ

“ہم چراغ جلانے پر یقین رکھتے ہیں، مگر اندھیروں سے سمجھوتہ نہیں کرتے۔” دنیا کے جغرافیے پر ایک دائرہ ہے، جو بظاہر اسلامی دنیا کہلاتا ہے، مگر حقیقت میں وہ ایک ایسا زخم ہے جس کے کنارے ایک دوسرے سے←  مزید پڑھیے

موسمیاتی تبدیلی — ایک برصغیر، ایک تندور، اور چند بیکار انسان /کامریڈ فاروق بلوچ

پیش گفتار: قدرت کے تھپڑ اور انسان کی ڈھٹائی تاریخ کا دامن تھپڑوں سے بھرا پڑا ہے — قدرت کے۔ لیکن انسان ہے کہ آئینہ تو دیکھ لیتا ہے، مگر اپنی شکل پہ غور نہیں کرتا۔ 1783 کا “چالیسہ قحط”←  مزید پڑھیے

شعور کی تنہائی /کامریڈ فاروق بلوچ

انسان جب پہلا قدم زمین پر رکھتا ہے تو ماں کی گود اور آسمان کے سائے میں ہوتا ہے۔ اسے نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے، اور اسے کہاں جانا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ←  مزید پڑھیے

خون کا ایک اور دریا؟ – جنگی جنون، عوامی محرومیاں اور جنوبی ایشیا کا المیہ/کامریڈ فاروق بلوچ

“ہم ایک جیسے ہیں، پھر بھی دشمن کیوں ہیں؟” پاکستان اور بھارت—دو ایسے ہمسایہ ممالک جو کبھی ایک ہی وجود کا حصہ تھے۔ دونوں کے بطن سے ایک تاریخ، ایک تہذیب، ایک زبان، ایک دکھ، اور ایک خواب جنم لیتے←  مزید پڑھیے

فقر کا شہزادہ /کامریڈ فاروق بلوچ

وقت سے ماوراء شخصیات: تاریخ کے اوراق پلٹتے جائیے، ہر صفحے پر ایک نام کندہ ملے گا جو اپنے عہد سے آگے جیا۔ کچھ لوگ اپنے وقت کے ہوتے ہیں، اور کچھ وقت اُن کے ہونے سے معتبر ہوتا ہے۔←  مزید پڑھیے

معافی – ایک تہذیبی قدر /کامریڈ فاروق بلوچ

۱۔ تمہید — معافی: لفظ سے آگے کی حقیقت ہر تہذیب کی بنیاد کچھ ایسی قدروں پر رکھی جاتی ہے جنہیں نہ آئین تحریر کرتا ہے نہ ادارے نافذ کرتے ہیں۔ یہ وہ غیر مرئی اصول ہوتے ہیں جو معاشرت←  مزید پڑھیے

ابلیس کی مجلسِ شوریٰ: ایک پرولتاریہ تنقید (تیسری قسط) – کامریڈ فاروق بلوچ

مارکسی تناظر میں ابلیس کا “نظامِ کہن” اور جدلیاتی مادیت اقبال کے ابلیس کی فکر کا بنیادی محور “نظامِ کہن” کی بقا ہے۔ وہ اپنے مشیروں کو یقین دلاتا ہے کہ اگر پرانی سماجی، سیاسی اور معاشی روایات برقرار رہیں←  مزید پڑھیے

ابلیس کی مجلسِ شوریٰ: ایک پرولتاریہ تنقید (دوسری قسط) -کامریڈ فاروق بلوچ

پرولتاریہ اور اقبال کا “متبادل نظام” پہلی قسط میں ہم نے “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ” کو سرمایہ داری، جمہوریت اور مذہب کے استحصالی پہلوؤں کے تناظر میں پرکھا۔ نظم میں ابلیس اور اس کے مشیران کی گفتگو درحقیقت جدید سرمایہ←  مزید پڑھیے

ابلیس کی مجلسِ شوریٰ: ایک پرولتاریہ تنقید (پہلی قسط) – کامریڈ فاروق بلوچ

عہدِ انقلاب ادب کا سب سے بلند منصب محض جمالیاتی اظہار نہیں، بلکہ اس کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ فکر کے دھاروں کو ایک دوسرے کے مقابل لا کر انسانی ذہن کو نئے سوالات اور نئے امکانات سے←  مزید پڑھیے

مقدمہ “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ: پرولتاریہ تنقید(1)- کامریڈ فاروق بلوچ

*ابتدائیہ (زیر نظر تحریر اقبال کی نظم کی پرولتاریہ تنقید کا مقدمہ ہے جس کو حتی المقدور اختصار کے ساتھ مرتب کیا ہے. مقدمہ کے بعد مزید پانچ اقساط میں نظم کی پرولتاریہ تنقید کی اشاعت ہو گی) نظم محض←  مزید پڑھیے

رمضان: اطاعت یا انحراف؟ -کامریڈ فاروق بلوچ

دنیا ہمیشہ سے دو متضاد اصولوں پر چلتی آئی ہے—حاکم اور محکوم، غالب اور مغلوب، مالک اور مزدور۔ ہر تہذیب میں عبادات کی رسمیں رہی ہیں، اور ہر معیشت نے ان عبادات کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش←  مزید پڑھیے

فاروق بلوچ

افسانہ: *دروازے کے سوراخ سے چٹان تک* آخری حصہ مصنف: کامریڈ فاروق بلوچ ۷ رات کی سیاہی گہری ہوتی جا رہی تھی۔ سرد ہوا دروازوں سے ٹکرا رہی تھی اور دور کہیں شہر کی گلیوں میں تنہائی سرگوشیاں کر رہی←  مزید پڑھیے

دروازے کے سوراخ سے چٹان تک(1)- کامریڈ فاروق بلوچ

یہ شہر عجیب تھا۔ یہاں ہر دروازہ ایک داستان تھا، اور ہر داستان ادھوری۔ یہاں کے باسی عجیب تھے—نہ مکمل رخصت ہوتے، نہ مکمل قیام کرتے۔ وہ لوگ جو ایک دوسرے کے قریب آتے، کچھ وقت ساتھ گزارتے، پھر اچانک←  مزید پڑھیے

محبت:ایک سرمایہ دارانہ الجھن/کامریڈ فاروق بلوچ

محبت ایک ایسا جذبہ ہے جسے انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے مقدس، لازوال اور نفع و نقصان کی حد بندیوں سے ماورا سمجھا گیا ہے۔ مگر کیا یہ سچ ہے؟ جدید دنیا میں، جہاں ہر چیز کی قیمت لگائی جاتی←  مزید پڑھیے

افسانہ: آخری صف کا طالب علم / کامریڈ فاروق بلوچ

وہ ہمیشہ آخری صف میں بیٹھتا تھا۔ نہ اتنا نمایاں کہ استاد کی نگاہیں اس پر ٹک جاتیں، نہ اتنا غیر اہم کہ مکمل فراموش کر دیا جاتا۔ وہ ایک درمیانی سا وجود تھا— بین السطور پڑھی جانے والی تحریر،←  مزید پڑھیے

حقیقی انسانیت اور حقِ خود ارادیت/کامریڈ فاروق بلوچ

انسانی تاریخ جدوجہد کی تاریخ ہے— آزادی کی، انصاف کی، برابری کی۔ ہر دور میں انسانیت کی سچائی کو وہی فکر تسلیم کیا گیا ہے جو فرد کے حقِ خود ارادیت کو مقدس جانتی ہے. انسان کو استحصال، جبر اور←  مزید پڑھیے

افسانہ: ردی کی ٹوکری میں شناخت/ کامریڈ فاروق بلوچ

دفتر کی دیواریں ہمیشہ یکساں لگتی تھیں، جیسے صدیوں سے یہاں وقت رک گیا ہو۔ یہاں کام کرنے والے لوگ بھی ایک جیسے تھے—چپ چاپ، مشینی انداز میں چلتے پھرتے، اپنے چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں سجائے، جیسے وہ کسی نیم←  مزید پڑھیے

کہاں سے لائیں؟-کامریڈ فاروق بلوچ

تھانے کا داخلی راستہ اسی طرح بھیڑ بھاڑ سے بھرا ہوا تھا جیسے ہمیشہ ہوتا تھا۔ لوگ اپنی اپنی فریادیں لیے قطار میں کھڑے تھے، اور ہر چہرے پر امید اور مایوسی کا ایک عجیب امتزاج تھا۔ میں بھی انہی←  مزید پڑھیے

ترانوے ہزار پتلونیں/کامریڈ فاروق بلوچ

نوجوان سنجیدہ تاثرات کو قائم کرکے بولنے لگا. “لوہے اور پٹرولیم سمیت کئی دھاتوں اور قدرتی وسائل سے مالا مال مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ موریطانیہ کی غربت زدہ بدحال عوام کو فقط زراعت َاور مویشیوں کا سہارا ہے”. زیرتعلیم نوجوان←  مزید پڑھیے