سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار/ قسط 8۔۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

سرائیکی کے سو پسندیدہ اشعار کی آٹھویں قسط کا آغاز شہر سلطان کے سید اللہ وسایا بخاری جنہیں دنیائے ادب مہجور بخاری کے نام سے جانتی ہے کے شعر سے کرتے ہیں کہ:

پاڑیے سویچ ویندن اے وی امید ہے پئی
رُٹھرے منیج ویندن اے وی امید ہے پئی

(چاک رفو ہو جاتے ہیں یہ امید بھی ہے
ناراض مان جاتے ہیں یہ امید بھی ہے)

ضلع راجن پور کے علاقے فاضل پور کے نوجوان شاعر جو پیشہ کے اعتبار سے سکول میں معلم ہیں ایسی ایسی غزلیں لکھ لاتے ہیں کہ سامع بغیر بوجھ کے داد دیتے ہیں، ایسی ایسی سرائیکو لکھ رکھتے ہیں کہ قاری مسکرا کر واہ واہ کیے دیتا ہے، ملائم لہجے میں پتھریلی باتیں کرنے والے جام شوکت عزیز کا شعر دیکھیے کہ:

توں میݙی سَب توں وݙی ضرورت ہئیں
اونویں ضرورتاں تاں ڈھیر ساریاں ھِن

(تو میری سب سے بڑی ضرورت ہے
ویسے ضرورتیں تو ڈھیر ساری ہیں)

سرائیکی شعروں میں محبت سے جڑے درد اور غم کو ایسے بیان کیا کہ سننے والا یوں محسوس کرتا ہے جیسے درد اور غم کی تصویر دیکھ رہا ہو. یہ خاصیت بھکر کے مشہور شاعر سونا خان بےوس کی شاعری میں کیا ہی عیاں ہوتی ہے. اپنے محبوب کے لیے لکھا گیا اُن کا یہ شعر دیکھیے کہ:

بہاراں تیڈے در تے ڈیون سلامی
ایہا ھر قدم تے دعا منگدا راھنداں

(بہاریں تیرے در پہ دیں گی سلامی
یہی ہر قدم پہ دعا مانگ رہا ہوں)

کوئی انہیں عظیم شاعر کہہ رہا ہے، کوئی انہیں بابائے تھل کے نام سے یاد کر رہا ہے، میری مراد میانوالی کے عظیم فنکار فاروق روکھڑی سے ہے. عطاء اللہ عیسی خیلوی، منصور ملنگی اور مسعود ملک سمیت کئی گلوکاروں نے فاروق روکھڑی کی شاعری گا کر شہرت حاصل کی تھی. پانچ کتابوں کا تحفہ دینے والے فاروق روکھڑی اردو اور سرائیکی دونوں زبانوں میں خوب مشق کرتے تھے. اُن کے بہترین شعروں میں سے ایک ملاحظہ فرمائیں کہ:

ڈھاندے ،سنبھلدے، اٹھیندے وی رہ آں
مردے وی رہ آں تیں جیندے وی رہ آں

(گرتے، سنبھلتے، اٹھتے بھی رہے ہیں
مرتے بھی رہی ہیں جیتے بھی رہے ہیں)

مشہور مرثیہ نگار صفدر کربلائی بھکر میں سرائیکی شاعری کا معتبر حوالہ ہے. مرا حسین ابھی کربلا نہیں پہنچا، اور محبت رول ڈیندی ہے جیسی اعلی کتب سمیت صفدر کربلائی کی دس سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں. نذر جھنڈیر، محسن نقوی، اقبال سوکڑی جیسے شعراء سے داد وصول کر چکے ہیں. اُن کا ‘بڑا شعر’ ملاحظہ فرمائیں کہ:

جے الاونڑ ضروری ہووے تاں
سانگ تے وی خطاب تھی سگدۓ

(اگر بولنا ضروری ہو جائے تو
نیزے پر بھی خطاب ہو سکتا ہے)

سرائیکی شاعری کے ارتقائی سفر کی پڑتال کے لیے حضور بخش حقیر کی شاعری پڑھنا لازم ہے. قدیم سرائیکی شاعری کی روایتوں اور معیار کی جانچ کے لیے حضور بخش رند کی شاعری ایک معیار بن سکتی ہے. اُن کا لازوال شعر ملاحظہ فرمائیں جس میں شناختِ فردا سے منسلک المیے کو سرائیکی کے مخصوص روایتی عاجزانہ طریقے سے بیان کیا گیا ہے کہ:

میٹھا میں ویندا ولیاں میکوں ملنڑ وی نئیں ڈیندے
کیہہ ہئی کتھوں آئیئں میکوں باہنڑ وی نئیں ڈیندے

(میرے میٹھے میں جاتا ہوا لوٹا ہوں مجھے ملنے بھی نہیں دیتے
او کیا ہے؟ کہاں سے آئے ہو؟ مجھے بیٹھنے بھی نہیں دیتے)

ظفر عدم نے 2001ء سے شاعرانہ مشق شروع کر دی تھی مگر انکو پہچان 2013ء کے بعد ملی جب انہوں نے مختلف ادبی فورمز پہ شاعری باقاعدہ پڑھنا شروع کی. چھ سال سے زائد عرصہ تک اشو لال کے ادبی فورم سے وابستہ رہنے کے بعد اپنا الگ ادبی فورم بنا کر شاعری کی محافل منعقد کروا رہے ہیں. ایک طویل عرصہ کروڑ لعل عیسن کچہری میں منشی رہنے کے بعد اب عرضی نویسی کر رہے ہیں. سرائیکی وسیب میں ادب پرور اور شاعر نواز حلقہ احباب رکھتے ہیں. ظفر عدم اپنے لفظوں اور خیالات کی بےساختگی کی بنیاد پہ سرائیکی شاعری میں اپنی علیحدہ پہچان بنا رہے ہیں. عشق کے ساتھ سماج کو موضوع بنا رہے ہیں. عورت اور فطرت کے تحفظ کے لیے شاعری کر رہے ہیں. اپنے شعروں کو زمینی رشتوں سے ہمکنار کر رہے ہیں. وہ سرائیکی مشاعروں میں فرد کی اجتماعی زندگی  زیرِ بحث لانے کے لیے اپنے منفرد شعروں کی بدولت  راہ ہموار کر رہے ہیں. وہ مستقبل میں سرائیکی شاعری پر رومانیت کے اثرات کو بتدریج زائل ہوتے دیکھ رہے ہیں جس کی بدولت ظفر عدم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف شاعری بلکہ سرائیکی ادب کی دیگر اصناف کو ایک انقلابی تصور ملے گا. لیکن وہ سرائیکی وسیب کی حسین اور صحتمند روایتوں کے بھی امین ہیں. اپنی تاریخ سے بھی واقف ہیں. قدرتی ماحول اور نظام میں انسانی غلطیوں پہ بھی نوحہ خوانی کرتے ہیں. ہمہ جہت سرائیکی شاعر ظفر اقبال عدم کا شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:

انمباں دا کوئی درخت نی ریہا چھانواں مٹھیاں کوہنی
طوطے دیس وٹا گئین سارے لٹھے لالیاں کوہنی

(آموں کا کوئی درخت نہیں بچا چھاؤں میٹھی نہیں رہیں
طوطے وطن بدل چکے ہیں سب، کبوتر چڑیاں نہیں رہیں)

لیاقت پور رحیم یار خان کے دلنور نورپوری نعت اور غزل گو سرائیکی شاعر ہیں. غم ناک نظماں، گودڑی وچ لعل، چندر تارے اور ووٹ دا حقدار کون؟ سمیت 14 کتب شائع ہو چکی ہیں. آپ کا نام استاد شعراء میں شامل کیا جاتا ہے. دلنور نورپوری کا شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:

هزاراں میل دی منزل جے هووے یار کیا تهی پیا
جو  ہمت  کر تے  ٹر پوندن چمیندی پیر منزل هے

(ہزاروں میل کی منزل پہ اگر ہو یار کیا ہوا؟
جو ہمت کرکے چل پڑتے ہیں چومتی پیر منزل ہے)

سرائیکی میں پندرہ سو سال کی شاعری کے ثبوت موجود ہیں. قدیم شعری نسخوں میں مولانا نصیرالدین خرم بہاولپوری کے “یادِ رفتگاں عرف گنجِ شائگان” اور “خیابان خرم” بھی بدرجہ اتم شامل ہیں. خرم بہاولپوری پیشہ کے لحاظ سے عباس ہائی سکول احمد پور شرقیہ میں معلم تھے. وہ صرف شاعر نہیں بلکہ ماہر لسانیات بھی تھے. اردو میں بھی شاعری کی مشق کرتے تھے. اُن کا درج ذیل سرائیکی شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:

اوں ناز بھری مدھوی اکھ دا
ہک ہک جادو ہے لکھ لکھ دا

(اُس ناز بھری روشن آنکھ کا
اک اک جادو ہے لاکھ لاکھ کا)

آج کے دن میں سنجیدہ ترین سرائیکی شاعروں کی صف میں سر اٹھائے موجود ساحر رنگ پوری نہ صرف پڑھا لکھا بلکہ صاحب الرائے شاعر ہے. وہ محض شاعری برائے شاعری والے شاعر قطعاً نہیں ہے. بلکہ شاعر موصوف سماجی تنقید کے لیے شاعری کو ایک معتبر زریعہ سمجھتے ہوئے سرائیکی قوم اور عالمی انسان کے لیے سرائیکی اور اردو میں شعر کہہ رہے ہیں. عام سرائیکی کے “جذباتِ انسانی” کے سوز و ساز کو جس روایتی “شعری اسلوب” اور نفیس انداز میں شاعر موصوف نے پیش کیا ہے وہ قابل داد ہے. سرائیکی زبان کی شائستگی اور مٹھاس کو استعمال کرتے ہوئے انسانی قدروں کا احترام ساحررنگ پوری کی شاعری کا وصف اعلی ہے. ان کا یہ وصف ان کی سرائیکی قومی شاعری میں نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے. اپنی غزلوں میں “سرائیکی زندگی” کے جلوۂ صد رنگ کی ترجمانی کرنے والا یہ شاعرِ انقلاب نوا جب اپنی ذات سے بلند ہو کر خصوصاً سرائیکی قوم اور بالعموم عالمی عوام کی عظمتوں کے گیت کاتا ہے تو اس کے اشعار ذہن و دل کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں. ہمارا ایک دوست رنگ پور مظفرگڑھ کے ساحر رنگ پوری کو “سرائیکی کا ساحر لدھیانوی” کہتا ہے. اُن کا ایک شاندار شعر ملاحظہ فرمائیں کہ:

جھمر دے پڑ لڳدے رہسن بیرکاں ݙہدیاں رہسن
جھومری بھلا سائرن کولوں ڈر تے کتھاں لکدن

Advertisements
julia rana solicitors london

(رقص کی محفلیں سجتی رہیں گی بیرکیں گرتی رہیں گی
رقاص بھلا سائرن سے ڈر کے کہاں چھپا کرتے ہیں؟)

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply