شین خالئی۔۔حسیب یوسفزئی

شین خالئی۔۔حسیب یوسفزئی/دریائے آمو کے  مغرب سے لیکر سندھو دیوتا کے  جنوب تک کا خطہ جو اونچے اونچے پر ہیبت پہاڑوں پہ مشتمل ہے۔ یہ خطہ تو ہے ہی حسین پر یہاں کے باسی بھی کوئی کم حسین نہیں۔ نہ انکے ارادے یہاں کی پہاڑوں سے کم اونچے ہیں۔ یہ سارا خطہ پشتون قبائل کی اکثریت پہ مشتمل ہے۔

وہ چاہے امن و آشتی کے پیامبر مہاتما گوتم بدھ کے  قدیم مجسموں کا وارث  شہرِ جلال آباد ہو یا کوہ ہندوکش سے نکلنے والے  دلفریب دریا کے کنارے واقع شہرِ کابل،  اناروں کی طرح سرخ سرخ رخساروں والی حسیناؤں کا دیس قندھار ہو یا شہرِ رومان پشاور، گندھارا تہذیب سے یادگار شہرِ مردان یا گل نرگس سے مزیّن وادیوں کی سر زمین ملاکنڈ ۔ العرض جہاں کہیں پشتون آباد ہیں۔ ان میں بہت کچھ  مشترکہ  ہے، اور اسی طرح یہاں پروان چڑھنے  والا ادب بالخصوص رومانوی ادب ” شین خال” کے  تذکرے کے بغیر مکمل اُدھورا ہے۔

” شین خال” یعنی نیلا تِل وہ نشانات ہوتے ہیں جو پشتون دوشیزائیں و خواتین اپنی حسن آرائی کے لیے ماتھے، تھوڑی یا رخساروں پہ کندہ کرتی ہیں۔ واضح رہے پہلے زمانے میں یہ نقوش مستقل ہوتے تھے۔ اگرچہ اب یہ رسم رو بہ زوال ہے اور خال خال ہی  کہیں دکھائی  دیتی ہے۔ تاہم آج بھی پشتون خواتین شادی بیاہ کی تقریبات پہ عارضی   تِل لگاتی ہیں۔

اس رسم کی بنیاد کب پڑی۔۔ اس بارے وثوق سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ تاہم چونکہ آج بھی پشتون مائیں اپنے  بچوں کو نظرِ بد سے بچانے کے لیے سرمہ سے یہ خال لگاتی ہیں ، سو گمان غالب ہے کہ اس رسم کا آغاز اسی طرح سے ہوا ہوگا۔

بہرحال خال گودنا ہر ایک کے  بس کی بات نہیں ہوا کرتی تھی۔ اسکے لئے ہر دیہہ میں خصوصی عورتیں ہوتی تھیں۔ جو اس کام میں مہارت رکھتیں ۔ وہ تین چار سوئیوں کے ذریعے اس جگہ کو آہستگی سے چھوتیں جہاں خال لگوانا ہوتا۔ اور یوں خون نکلنے کے بعد وہاں کاجل مل لیتیں۔ نتیجتاً ایک مستقل نقش ترتیب پاتا۔

تصویر میں سانولی رنگت والی حسینہ کا نام شلپا ادوانی عرف شین خالئی ( نیلے تل والی ) ہے۔ انکی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ انکے اجداد نے بٹوارے کے وقت دیگر کئی خاندانوں کی طرح بلوچستان سے ہندوستان ہجرت کی اور وہاں راجھستان میں ایک کمیونٹی کی صورت قیام پذیر ہوئے۔ یہ کاکڑ قبیلے کی ایک ذیلی شاخ ہے اور واحد پشتون قبیلہ جو مذہباً ہندو ہیں۔

شلپا کہتی ہے کہ وہ کئی سال اپنی اصل شناخت کے بارے میں سرگرداں رہیں۔   پھر انکی افغان طلباء سے ملاقات ہوئی۔ اگرچہ شلپا پلی بڑھی راجھستان کی تہذیب میں  ہی ہے ، پر   گھریلو ماحول کی وجہ سے پشتو سمجھ اور بول لیتی ہے۔ اور یوں انہیں اپنی کمیونٹی کی زبان اور بزرگ خواتین کی طرف سے خاص خاص مواقع پہ کئے جانے والی رقص ” اتن” کی اصلیت  بارے معلوم ہوا۔ پر سب سے بڑھ کر انکے لئے کمیونٹی کے بزرگ خواتین کے  چہروں پہ وہ پُراسراریت کے حامل، ہزاروں سالوں کی تاریخ سمیٹے، نیلے رنگ کے نقوش ” شین خال” اب مزید پراسرار نہیں رہیں۔

شلپا ادوانی اپنی اس پوری کہانی کو ایک ڈاکیومنٹری کی شکل میں فلم بند کر چکی ہے۔ جسے بارڈر کے دونوں پار کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔ یہ ڈاکیومنٹری یوٹیوب پر ” شین خالئی” کے نام سے موجود ہے۔

پشتو فولک لٹریچر تو شین خال کے  مرکزی خیال سے مزیّن ہے۔

پیکی له سترگو سه بالا که

زہ دی دا شین خال په ارمان راغلی یمه

محبوب اپنی محبوبہ سے؛

یہ زلفیں اپنی جبیں سے ہٹاؤ

کہ میں تیرے نیلے تل کے  دیدار کی امید لے کر آیا ہوں

دا مخ دی سپین خال پکی شین دے

دا می یقین دی لیونے به شم میینه

( ایک تو آپکا چہرہ سفید اوپر سے اس پہ نیلا تل

مجھے یقین ہے دیکھ کر میں مجنون ہوجاؤں گا)

افسوس جس طرح سے جنگ اور شدت پسندی نے کئی ہزار افراد کی جان لی۔ اسی طرح سے یہ خوبصورت رسم بھی انکی نذر ہوئی ۔ مذہبی شدت پسندوں نے خال کو حرام جانا۔ کیوں؟ یہ کسی کو نہیں پتہ اور نتیجتاً شین خال رخصت ہوتا  چلا  گیا۔

بہرحال پشتون پُر امید ہیں کہ امن اور آشتی کا وہ سنہرا دور پھر سے لوٹ آئے گا۔ یہی خطہ ہوگا، ٹپہ ہوگا اور نغمہء رباب ہوگا۔

امید می شته امن به راشی

بیا به جوڑہ دا باچا خان زیارت له زونه

( امید یہی ہے کہ امن آئے گا

Advertisements
julia rana solicitors london

( تب ساتھ ساتھ باچا خان کی زیارت پہ جائیں گے)۔

Facebook Comments

Haseeb Yousufzai
صرف دو ہی شوق ہیں لکھنا اور پڑھنا۔۔۔۔ اور بدقسمتی سے دونوں میں بمثلِ عاشق نامراد ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply