سٹِل نیس اِز دا کی(Stillness is the Key)۔انور مختار

ریان ہالیڈے Ryan Holiday امریکی ادیب ہیں انھوں نے سیلف ہیلپ نفسیات سمیت History، philosophy، how to live کے علاوہ marketing پر 12 سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں ان کی ایک کتاب” Ego is the Enemy” (ایگو از دی اینمی) کا اردو ترجمہ “انا آپ کی دشمن ہے” کے عنوان سے امیر حکمت صاحب نے کیا ہے اس کتاب میں انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ’زہریلی انا‘ کی وجہ سے ایسا ہو سکتا ہے کہ ہماری خوشیوں کا انحصار باہر سے ملنے والی تعریف کا محتاج ہو جائے۔وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ہم تعریف، تسلیم کیے جانے اور سوشل میڈیا پر بھی لائیک کیے جانے کی خواہش کریں گے۔

 

 

 

ہالیڈے کہتے ہیں کہ جب ہمیں دوسروں کی تعریف اور تحسین کی عادت ہو جائے تو ایسے لوگ اپنے شوق اور ولولے کو نظر انداز کرتے ہیں اس کتاب میں ان لوگوں کے حالاتِ زندگی بیان کیے، جو انا کا شکار ہوکر رسوائے زمانہ ہوئے، ان کی دُنیاوی سلطنت تباہ و برباد ہوگئی اور ان کی موت یا اختتام، لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا۔ انہوں نے انا سے بچنے والے لوگوں کا بھی ذکر کیا اور قارئین کو تاکید کی کہ وہ ان کی پیروی کریں، تاکہ دُنیا میں امن و سُکون اور آشتی سے زندگی گزار سکیں
Ryan Holiday (born June 16, 1987) is an American author, modern Stoic, public-relations strategist, owner of the Painted Porch Bookshop, and host of the podcast The Daily Stoic. Prior to becoming an author, he served as the former director of marketing and eventually an advisor for American Apparel. Holiday’s debut in writing was in 2012 when he published Trust Me, I’m Lying. Holiday’s notable works include his books on Stoic philosophy, such as The Obstacle Is the Way, Ego is the Enemy, Stillness is the Key, Courage is Calling, and Lives of the Stoics.
ریان ہالیڈے کی ایک اور کتاب” Stillness is the Key” ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ
All great leaders, thinkers, artists, athletes, and visionaries share one indelible quality. It enables them to conquer their tempers. To avoid distraction and discover great insights. To achieve happiness and do the right thing. Ryan Holiday calls it stillness–to be steady while the world spins around you.
In this book, he outlines a path for achieving this ancient, but urgently necessary way of living. Drawing on a wide range of history’s greatest thinkers, from Confucius to Seneca, Marcus Aurelius to Thich Nhat Hanh, and John Stuart Mill to Nietzsche, he argues that stillness is not mere inactivity, but the doorway to self-mastery, discipline, and focus.
Holiday also examines figures who exemplified the power of stillness: baseball player Sadaharu Oh, whose study of Zen made him the greatest home run hitter of all time; Winston Churchill, who in balancing his busy public life with time spent laying bricks and painting at his Chartwell estate managed to save the world from annihilation in the process; Fred Rogers, who taught generations of children to see what was invisible to the eye; Anne Frank, whose journaling and love of nature guided her through unimaginable adversity.
More than ever, people are overwhelmed. They face obstacles and egos and competition. Stillness Is the Key offers a simple but inspiring antidote to the stress of 24/7 news and social media. The stillness that we all seek is the path to meaning, contentment, and excellence in a world that needs more of it than ever.
جاوید چوہدری روزنامہ ایکسپریس میں اس موضوع پر لکھتے ہیں کہ
ولیم گلیڈ اسٹون (William Gladstone) 1868ء سے لے کر 1894 تک 26 سال برطانیہ کی سیاست کا اہم ترین شخص رہا‘ وہ مسلسل چار بار وزیراعظم اور چار بار وزیرخزانہ بھی بناَ گلیڈ سٹون کا دور افراتفری‘ کساد بازاری اور صنعتی اور زرعی کھچاؤ کا زمانہ تھا چنانچہ اسے دن رات کام کرنا پڑتا تھالیکن وہ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود روزانہ لکڑیاں بھی کاٹتا تھا‘ وہ روز شام کے وقت سوٹ اتارتا تھا‘ مزدوروں کا لباس پہنتا تھا‘ کلہاڑی اٹھاتا تھا اور اکیلا جنگل میں نکل جاتا تھا اور جب تک تھک کر چُور نہیں ہو جاتا تھا وہ اس وقت تک کلہاڑی سے درخت کاٹتا رہتا تھا‘ چھٹیوں کے دوران بھی اس کا یہ معمول جاری رہتا تھا۔ اس نے ایک بار مسلسل دو ہفتے لگا کر ساٹھ فٹ اونچا درخت کاٹا‘ درخت جب گر گیا تو اس نے آری سے اس کے ٹکڑے کیے‘ انھیں ریڑھے پر لادا‘ اسے آرے پر لے کر گیا‘ اس کے تختے بنوائے اور پھر وہ تختے اپنے ہاتھوں سے اپنے اصطبل کی چھت پر لگائے‘ ولیم گلیڈاسٹون کا کہنا تھا درخت کاٹنے‘ لکڑیاں تراشنے اور پھر انھیں چھتوں اور دیواروں پر لگانے سے میرا سٹریس ختم ہو جاتا ہے اور میں فریش ہو جاتا ہوں‘ کیسے؟ ہم اس طرف آنے سے پہلے ونسٹن چرچل کی مثال بھی لیں گے‘ یہ بھی برطانوی وزیراعظم رہے ہیں۔

انھوں نے دوسری جنگ عظیم لڑی اور جیتی تھی اور وہ سیاست دان کے ساتھ ساتھ لکھاری‘ گھڑ سوار اور دانشور بھی تھے‘ان کا تعلق برطانیہ کے اعلیٰ طبقے کے ساتھ تھا اور وہ دوسری جنگ عظیم کے انتہائی خوف ناک دور میں وزیراعظم بنے تھے‘ چرچل کا دور بھی اہم تھا‘ یورپ میں جنگ ہو رہی تھی‘ لندن پر بم برس رہے تھے اورپوری دنیا بارود اور آگ کا دوزخ بنی ہوئی تھی لہٰذا چرچل بھی دن رات مصروف رہتا تھا لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوں گے چرچل اپنی تمام تر مصروفیات کے ساتھ اپنے ہاتھ سے روزانہ دو سو اینٹیں لگاتا تھا‘ وہ باقاعدہ اینٹیں اٹھاتا تھا‘ اینٹیں لگانے کا مسالہ تیار کرتا تھا‘ خاموشی سے بیٹھ کر اینٹیں چنتا تھا اور اپنے اوزار صاف کر کے واپس وزیراعظم ہاؤس چلا جاتا تھا۔ میں نے یہ دونوں واقعات ریان ہالی ڈے کی کتاب میں پڑھے ہیں‘ مصنف نے دونوں واقعات لکھنے کے بعد بتایا‘ ہمارے دماغ میں بیک وقت ہزاروں خیالات دوڑتے بھاگتے رہتے ہیں اور ہم خیالات کے اس شور اور افراتفری کی وجہ سے اہم چیزوں پر توجہ نہیں دے پاتے‘ ہم زندگی کے بڑے فیصلے بھی نہیں کر پاتے اور خیالات کے اس شور اور افراتفری سے نبٹنے کا صرف ایک طریقہ ہے‘ ہم روزانہ تھوڑی دیر خاموش بیٹھ جائیں‘ آنکھیں بند کریں اور اس وقت کچھ بھی نہ کریں‘ نہ کچھ سوچیں‘ نہ کچھ سنیں اور نہ ہی کچھ بولیں بس خاموش بیٹھے رہیں۔ یہ کیفیت خاموشی (Silence) کہلاتی ہے اور یہ مراقبے سے ملتی جلتی کیفیت ہوتی ہے اور یہ ہمارے سلگتے تڑپتے دماغ کو سکون اور شانتی دیتی ہے مگر یہ فارمولا عام لوگوں کے لیے ہوتا ہے جب کہ چرچل اور گلیڈ اسٹون جیسے لوگوں کو خاموشی سے بھی بڑی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ خوراک ہوتی ہے جمود (Stillness)اور اس کیفیت کے لیے آپ کو کوئی ایسا کام منتخب کرنا پڑتا ہے جس کے لیے انتہائی یک سوئی ضروری ہوتی ہے‘ آپ اپنے روزانہ کے معمولات میں سے وقت نکال کر گھنٹہ دو گھنٹہ اس کام کو دیتے ہیں اور وہ کام آپ کے دماغ سے افراتفری نکال کر اس میں ’’سٹل نیس‘‘ لے آتا ہے اور آپ کے ذہن کا شور تھم جاتا ہے۔

ہو سکتا ہے آپ  اس تصور سے اتفاق نہ کریں لیکن آپ یقین کریں دنیا میں بڑے کاموں کے لیے سٹل نیس ضروری ہوتی ہے‘ شاید اسی لیے مغل بادشاہ کیلی گرافی کیا کرتے تھے‘ موسیقی کی دھنیں بنایا کرتے تھے‘ مصوری کرتے تھے‘ شاعری میں منہ مارتے تھے اورڈیزائننگ کیا کرتے تھے‘ مغل بادشاہ اورنگ زیب کے بارے میں کہا جاتا تھا وہ اپنے ہاتھوں سے قرآن مجید بھی لکھتا تھا اور ٹوپیاں بھی سیتا تھا‘ مورخین اس کے اس شوق کی وجہ سے اس کا مذاق اڑاتے تھے لیکن اس کے اس شوق کی وجہ بھی سٹل نیس تھی۔ اورنگ زیب 27 سال مسلسل جنگ لڑتا رہا تھا‘ اس نے دکن کے وہ علاقے بھی فتح کیے تھے جن کی طرف اکبراعظم بھی رخ نہیں کر سکا تھا لہٰذا اورنگ زیب کو اتنے بڑے کام کے لیے سٹل نیس کی ضرورت تھی اور قرآن مجید کی خطاطی اور کروشیے سے باریک ٹوپیاں سی کر اسے وہ ارتکاز‘ وہ سٹل نیس ملتی تھی‘ جلال الدین محمد اکبر نے موسیقی کا ذوق پال لیا‘ اس نے تان سین جیسے شخص کو کھود کر نکالا‘ اسے اپنے نورتنوں میں شامل کیا اور وہ روزانہ گھنٹوں اس کے الاپ اور تانیں سنتا تھا۔ مورخ اس کی اس عادت کو بھی فضول اور بے وقوفی قرار دیتے تھے لیکن وہ اشوک کے بعد ہندوستان میں طویل ترین حکومت کرنے والا بادشاہ تھا‘ وہ 49سال تخت پر متمکن رہا اور بنگال سے لے کر کابل تک اس کی حکومت تھی‘ اتنی بڑی سلطنت کو سنبھالنے کے لیے اسے اتنی ہی بڑی سٹل نیس درکار تھی اور یہ اسے صرف تان سین اور موسیقی ہی دے سکتی تھی‘ آپ اکبر کی ساری فتوحات اور مینجمنٹ سسٹم سائیڈ پر کر دیں تو بھی شہزادہ سلیم کے ساتھ اس کی جنگ چھوٹا واقعہ نہیں تھا۔ شہزادہ سلیم (جہانگیر) اس کی اکلوتی نرینہ اولاد تھی اور اس اولاد کے لیے بادشاہ نے ننگے پاؤںسیکڑوںکلو میٹر سفر کیا تھا لیکن پھروہی بیٹا ایک کنیز کے لیے اپنے باپ سے ٹکرا گیا اور باپ کو اس کے ساتھ باقاعدہ جنگ کرنی پڑ گئی‘ آپ خود فیصلہ کیجیے اکبراعظم کو اس جنگ کے لیے کتنی سٹل نیس کی ضرورت پڑی ہو گی؟ شاہ جہاں آرکیٹیکٹ اور مصور تھا‘ وہ اپنے ہاتھ سے تصویریں بھی بناتا تھا اور عمارتوں کے نقشے بھی‘ آپ کو آج بھی ہندوستان میں اس کے شاہ کار نظر آتے ہیں۔ بھارت ہر سال صرف تاج محل سے بلین ڈالر کماتا ہے اور یہ شاہ جہاں کابرصغیر پر کتنا بڑا احسان ہے اور رہ گیا بہادر شاہ ظفر تو اسے شاعری کا چسکا تھا‘ مورخین اس کے مشاعروں کا مذاق بھی اڑاتے تھے لیکن آپ آخری مغل بادشاہ کی ٹریجڈی دیکھیے‘ اس کی سلطنت اس کے سامنے ڈھیر ہو رہی تھی‘ وہ صرف لال قلعے تک محدود ہو کر رہ گیا تھا اور اس کے اخراجات کے لیے بھی وہ مہاجنوں اور جوہریوں کا محتاج تھا‘ دہلی کے جوہری روز دربار میں آتے تھے۔

بادشاہ اپنی انگوٹھیاں اور ہار بیچتا تھا اور پھر کہیں جا کر ابراہیم ذوق کے لیے بخشش کا بندوبست ہوتا تھا چنانچہ بہادر شاہ ظفر اگر شاعری کی باریکیوں میں پناہ نہ لیتا تو کیا کرتا؟ یہ شاعری ہی تھی جس نے اسے 87سال کی عمر تک زندہ رکھا تھا ورنہ وہ برسوں پہلے بابر کی گرتی ہوئی سلطنت کے نیچے آ کر فوت ہو چکا ہوتا اور زمانے کے قبرستان میں اس کا نام تک نہ ہوتا۔ ہم سب انسانوں کو دماغ کی افراتفری‘ ذہن کے شور اور روح کے فشار سے جان چھڑانے کے لیے خاموشی چاہیے ہوتی ہے اور ہم اگر خدانخواستہ کوئی اہم کام کر رہے ہیں یا کوئی بڑا سوچنا اور کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سٹل نیس چاہیے ہوتی ہے اور دنیا میں سٹل نیس کے لیے زیادہ ٹولز موجود نہیں ہیں‘ آپ کو ولیم گلیڈ اسٹون کی طرح سوکھے اور گرے ہوئے درخت کاٹنے پڑتے ہیں اور آپ یہ بھی یاد رکھیں انسان میں جب تک جسمانی اور ذہنی یک سوئی نہیں ہوتی یہ اس وقت تک کلہاڑی نہیں چلاسکتا‘ آپ جب لکڑی کاٹنے میں انوالو ہو جاتے ہیں تو وہ لمحہ سٹل نیس کا لمحہ ہوتا ہے۔ آپ کا دماغ فالتو سوچوں اور افراتفری سے پاک ہو جاتا ہے‘ آپ اسی طرح کسی دن چرچل کی طرح اینٹیں لگا کر دیکھیں‘آپ کی دماغی کیفیات بدل جائیں گی‘ کیسے؟ اینٹ کے لیے میتھ میٹیکل کنسنٹریشن (ریاضیاتی ارتکاز) چاہیے ہوتی ہے‘ آپ توجہ اور کیلکولیشن کے بغیر اینٹیں لگا کر دیکھیں دیوار ٹیڑھی بھی ہو گی اور کم زور بھی چنانچہ آپ اگر صحیح اور درست اینٹیں لگانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اپنے کام پر توجہ دینی ہو گی اور چرچل اس حقیقت سے واقف تھا‘ اسی طرح موسیقی‘ مصوری اور کیلی گرافی بھی سٹل نیس کا بہت بڑا ٹول ہے‘ آئن سٹائن کا زیادہ تر وقت وائلن بجانے میں خرچ ہوتا تھا‘ شاید اسی لیے وہ دنیا کو سب سے بڑا سائنسی تصور (Theory of Relativity) دے گیا۔

عباسی خلفاء کیلی گرافی کے ماہر ہوتے تھے اور یورپ کے تمام بڑے بادشاہ مصوری اور مجسمہ سازی کرتے تھے‘ دنیا کے تمام بڑے لکھاریوں اور شاعروں کو باغبانی‘ زراعت اور جانور پالنے کا شوق تھا‘ لیوٹالسٹائی کسان تھا‘ وہ اپنے ہاتھوں سے کھیتوں میں کام کرتا تھا‘ چارلس ڈکنز اور شیکسپیئر باقاعدہ مالی تھے‘ یہ پھول اگاتے تھے اور گھنٹوں ان کی نگہداشت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ننانوے فیصد انبیاء کرام جانور پالتے تھے‘ یہ بھیڑ بکریاں اور اونٹ چراتے تھے اور ترک بادشاہ اور شہزادے لوہار ہوتے تھے‘ یہ اپنی تلوار اور تیر خود بناتے تھے‘ آپ نے ارطغرل ڈرامے میں ارطغرل کو لوہا کوٹتے اور تلوار کی دھار تیز کرتے دیکھا ہوگا‘ یہ صرف ڈرامائی سین نہیں تھا‘تمام عثمانی شہزادے اپنی تلواریں خود بنایا کرتے تھے اور وہ یہ فن اپنے دور کے لوہاروں سے باقاعدہ سیکھتے تھے اور اس سے انھیں بھی سٹل نیس کی دولت حاصل ہوتی تھی۔ میں جانتا ہوں آپ اور میں شہزادے‘ بادشاہ‘ وزیراعظم اور آئن سٹائن نہیں ہیں‘ ہم عام لوگ ہیں لیکن انسان بہرحال انسان ہوتا ہے وہ خواہ چرچل ہو یا اللہ دتہ اداس‘ ہم سب انسان ہیں اور انسانوں کو ٹینشن بھی ہوتی ہے اور ڈپریشن بھی اور آپ اگر روزانہ اس کیفیت سے گزرتے ہیں تو پھر آپ بھی ہاتھ سے کام شروع کر دیں‘آپ بھی کوئی نہ کوئی فن سیکھ لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ اگر اینٹیں نہیں لگا سکتے تو پھول ہی اگا لیا کریں‘ آپ کیلی گرافی‘ مصوری یا موسیقی ہی سیکھ لیں‘ آپ کو سٹل نیس بھی مل جائے گی اور آپ کے دماغ کا فشار بھی تھم جائے گا‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لیں‘ اگر کام یاب ہو گئے تو میرے لیے دعا کر دیجیے گا اور اگر ناکام رہے تو بھی میری اصلاح کے لیے دعا فرما دیجیے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply