بات/مختار پارس

دیکھیں بات یہ ہے کہ ساری بات میں بات ہی یہی ہے کہ کوئی بات ہی نہیں۔ اگر کوئی بات ہوتی تو اب تک سامنے آ گئی ہوتی۔ جو بغل میں سے چھریاں نکال کر سامنے آ جائیں، وہ بات کرنے والے اب رہے ہی نہیں۔ یہ جو منہ ہلا رہے ہیں اور اچھل رہے ہیں، بات نہیں کر رہے صرف بلوا کر رہے ہیں۔ ان کی مجبوری کو سمجھیں تو بات کی گرہ کھل جائے گی۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ بندہ شاہ کا مصاحب ہو اور کچھ بولنے کی کوشش نہ کرے۔ لیکن آپ گھبرائیں نہیں، نہ ان سے کوئی بات ہو سکے گی اور نہ ان کی بات بن سکے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

 

 

 

بات ان کی سمجھ میں تو تب آۓ گی جب یہ مائل بہ سخن ہونگے۔ اگر یہ پھبتیاں کستے ہوئے فرشی سلامیاں بھر بھر کر گھنا گھنا باجتے رہیں گے تو انقلاب تو کیا یہ جلاب بھی نہیں لا سکیں گے۔ امن و امان کی خواہش ہے تو ان کے منہ میں ان کی اتاری ہوئی جرابیں ٹھونسنا پڑیں گی۔ دہی بھلے کھانے آۓ تھے اور نسوار کھا کر جا رہے ہیں ، بھلا یہ بھی کیا بات ہوئی؟
جو بات منے کی ماں میں ہے، وہ کائنات کی کسی ناکتخدا میں نہیں۔ ایک آگ کا دریا ہے، تیرنے کی مجال تو کبھی تھی ہی نہیں اور ڈوبنے کی بھی اجازت بالکل نہیں۔ قسم ہے کہ حیاتِ ناتواں میں ایک بار بھی کبھی باتوں کا دھواں کہیں سے اٹھتا ہوا دکھائی دیا ہو۔ جب بھی ہمارے لب وا ہوتے ہیں تو وہ پہلے ہی سمجھ جاتی ہیں کہ کون سے لفظ میرے دہن سے پھوٹنے والے ہیں۔ اور پھر ناکردہ خاموش سوالوں کے جواب یوں عطا ہوتے ہیں جیسے افق پر سے پرندے شام ہوتے ہی گھونسلوں کی طرف لوٹتے ہیں۔ جب کبھی قسمت سے کہیں جانا ہو تو نہ جانے انہیں کیسے خبر ہو جاتی ہے اور وہ وقتِ رخصت سے بہت پہلے ہی حرکات و سکنات کی جانچ پڑتال ایسے شروع کردیتی ہیں جیسے انہوں نے وہ سارے رقعے پڑھ رکھے ہیں جو مجھے کبھی موصول ہی نہیں ہوئے۔ جو میں تھوڑا لجا کر پوچھ بیٹھوں کہ میری جان آپ پر قربان، آخر بات کیا ہے، یہ مجھے جلاد کی طرح کیوں دیکھ رہی ہو تو ابتلائے حالات کی ایسی بات کہہ دینے میں ان کا ثانی نہیں کہ ھم جہاں جا رہے ہونگے، وہ سب بھول کر ان کی آنکھوں میں ڈوب جانے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
بات ہی کچھ ایسی ہے کہ ناگوار محسوس ہو گی مگر کہے دیتا ہوں کہ آمد کو جامد کرنا محال ہے۔ آج عالمِ استغراق میں انکشاف ہوا کہ ہم نے تو زیست تمیز اور تہذیب کا تہبند سنبھالنے میں گزار دی اور الف ننگے لوگ دین اور دنیا کی ان بلندیوں کو پہنچ گئے جہاں کشف و کرامات کے بھی پر جلتے ہیں۔ تمام عمر یہی ہدایت ملی کہ شیخ چلی کے خواب نہیں دیکھنا اور خیالی پلاو سے گریز کرنا ہے کہ یہ طریقہ مستقبل کو ماضی میں دھکیل دیتا ہے۔ بتایا تو یہی گیا تھا کہ محمد بن قاسم بھی پاکستانی تھا۔ ہمارا تو کوئی رہبر ایسا نہیں تھا جس کے ہاتھ میں تلوار اور بات میں تیر نہ ہوں۔ زمانے نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ اب جس کے سر پر سینگ نہیں ہوتے،اب وہ بھی رہنما ہے۔ ہر الٹے سیدھے خواب دیکھنے والا ” آنٹریپرینور“ کہلاتا ہے اور سب خیالی پلاو” ای کامرس “ پر بک رہے ہیں۔ کڑکڑاتے نوٹوں کی جگہ کرپٹوکرنسی نے لےلی ہے۔ کلاسیکی رقص سکھانے والے تفسیر پڑھا رہے ہیں اور زلف تراش اور خیاط سیاست کے داو پیچ آزما رہے ہیں۔ سودا کرانے کے ماہر سوداگر اور دوائے دِل بیچنے والے خود سودا ہو گئے۔ گلوکار ساہوکار ہوگئے اور مصور اور مفکر کاکوں سے اور فاقوں سے کھیلتے جا رہے ہیں۔ وہ جو رئیس تھے یا کبیر تھے، مدبر تھے یا مشیر تھے، سب دیکھا کیے ہیں کہ غضب خدا کا، مشکل سے ایک زندگی ملی تھی اور وہ بھی ملا اور ملاوٹ کی نظر ہو گئی۔ وہ مارا۔۔۔ ! پتہ نہیں کیا بات تھی جو کہنا چاہتا تھا اور پتہ نہیں کیوں وہ بات کہاں سے کدھر نکل گئی۔
خدا کا لاکھ شکر کہ بات آگے نہ بڑھ سکی۔ اگر بات بڑھ جاتی تو چاچے کی چاچی سے چائے کی چینک کے چٹخ جانے پر چوں چاں ہو جاتی۔ گوالے، گاوں میں گائے کا دودھ گڈویوں میں گن گن کر گھاس کے گڈوں پر گرا دیتے اور شاعروں کو شروع دن سے ہی خلاف شرع شرارتیں کرنے کی شرمندگی پر شیر و شکر ہونا پڑتا۔ ندیدے اور ناراض نادانوں کو ندامت کے نوخیز نشانات کو نئے سرے سے نمودار کرنا پڑتا۔ لاری پر لاہور سے لاڑے لانے والے للو لمبی لمبی للکاریاں مارتے ہوئے لوازمات کی جانب نہ لپکتے اور جملہ جانوروں کو جان کی امان میں اور جہاں گردوں کو جاہلوں کی طرح جان اور جناب کی جستجو میں جوتیاں اور جرمانے نہ جھیلنے پڑتے۔ کہنے کی بات کو کہہ دینے کی کرامات ہر کسی کی کتاب میں کہاں لکھی ہوتی ہے۔ بھانت بھانت کے بھیدی بھس کی بھری بھینسوں کی طرح بھاں بھاں کرنے سے پہلے کسی کے بھرم کا تو خیال رکھتے اور کام کی بات یہ ہے کہ کار ساز میں کمال وہی کر پاتا ہے جو کاغذ کی طرح کاٹ دار ہونے کے باوجود کرم کتابی کی کارستانیوں پر خاموش رہتا ہے اور بات کو آگے نہیں بڑھنے دیتا۔
قصہ کوتاہ یہ کہ جس کو مگس اور پروانے میں فرق کا معلوم نہ ہو، اس سے کیا بات کی جائے۔ مکھن لگانے میں اور محبت میں صرف طریقہ کار ہی نہیں بلکہ آلہ کار اور انجامِ کار بھی مختلف ہوتے ہیں۔ انہیں کون بتائے کہ چکنی چپڑی باتیں کرنے والے چپڑکناتیے دونوں جہانوں کی نعمتوں کے حقدار ہو سکتے ہیں اور محبت کے مسافر جو گندم کھا کر نکالے گئے تھے، ” آب جو “ پی کے پھر عالم برزخ کے ہمسائے میں جہنم داخل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ گلزار ایک کارزار ہے جہاں فائدہ شہد کی مکھی کی طرح گلِ تازہ کا جوس پینے میں ہے نہ کہ خس و خار سے الجھ کر بے پر و بال ہونے میں۔ کیا کسی نے لوگوں کو کبھی بھِڑ کے چھتوں میں ہاتھ ڈالتے دیکھا ہے؟ انسان نے بھی ہمیشہ وہیں بات کی ہے جہاں سے اسے سماعتوں کی امید ہوتی ہے۔ انسان کے کسی جذبے کی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں جب تک کہ اس کو زبان نہ مل جائے۔ یہ علیحدہ بات کہ زبان عطا ہوتے ہی انسان یہ بھرپور کوشش کرتا ہے کہ حیوانوں کی قدر و قیمت میں اضافہ کر دے۔ نطق تمام عمر مصروف عمل رہ کر صرف ایک کام کی بات کر ڈالے تو یوں سمجھیں کہ یہی وہ بات تھی جو کل کائنات تھی۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply