پیغام ِ پاکستان فتویٰ۔۔۔طاہر یاسین طاہر

دیر سے ہی سہی مگر کوئی کام تو ہوا، کوئی پیش رفت تو ہوئی۔ منزل کا تعین تو ہوا،دو گام سامنے کو تو اٹھے۔علما نے تاخیر کی جو انھیں نہیں کرنی چاہیے تھی، دہشت گردی کا مسئلہ بڑا واضح اور ثابت شدہ ہے، کالعدم تحریک طالبان ہو یا مولوی صوفی محمد کی کاکعدم نفاذ شریعتِ محمدی،لشکر جھگوی ہو یا القاعدہ و داعش، سب اپنی اصل میں دین کے نام پر قتال کرنے ولاے ہیں۔ ان کے خلاف فتویٰ دینے میں ڈیڑھ عشرے سے زیادہ وقت لگا دیا گیا۔یہ سرا سر کوتاہی ہے۔ ہاں البتہ کئی علما پہلے دن سے ہی دہشت گردوں کے مذہبی بیانیے کو دلائل سے رد کرتے آئے رہے ہیں، بے شک یہ لوگ لائق ِ تحسین ہیں اور وہ بھی جو اپنے فتاویٰ یا تحریر و تقریر کے بعد شہید کر دیے گئے۔زندہ و بیدار سماج البتہ فتووں کا محتاج نہیں ہوتا۔بیدار سماج کے بیدار مغز افراد معاشرتی ضروریات اور ترقی کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ ہم مگر لاچار ہیں۔سماجی رحجان پائیدار نہیں۔ منتشر الخیال اور منتشر المزاج افراد کا مجموعہ یکسوئی سے منزل کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ اسے ہانکنا پڑتا ہے۔تاریخ یہی ہے۔تاریخ سے مگر سیکھتا کون ہے؟کتابیں پڑھتا کون ہے؟سوشل میڈیا کی آمد نے معلومات کے دریا بہا دیے مگر تحقیق و جستجو اور تجزیہ کاری کے لیے جس جان کاوی کی ضرورت ہوتی ہے اس سے انسانی معاشرے کو دور کر دیا۔ہم تو پہلے سے کاہلی و سستی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ہاں فتویٰ آنے سے مجھے میر تقی میر بے طرح یاد آ رہے ہیں۔خدائے سخن کو سوجھی تو کہا کہ
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
یقیناً خود کش حملوں، نجی جہاد کی آبیاری کرنے اور تکفیر کے زور پہ عامۃ الناس کو قتل کرنے کے لیے فتاویٰ موجود ہیں۔ اسی طرح دیگر معاملات پہ بھی فتاویٰ دستیاب و موجود ہیں۔کوئی تحقیق کرے تو بیشتر فتاویٰ اپنے بطن میں علمی رویے کے بجائے ضد، اور مفتی کی انا کا تسکین لیے ہوئے ہیں۔ہمارا مسئلہ بحثیت پاکستانی ہی نہیں بلکہ بحثیت مسلمان بھی یہی ہے کہ ہم دہشت گردی کا شکار ہیں۔دہشت گردوں کو بھارت،اسرائیل، امریکہ،اور ساری عالمی براداری سپورٹ بھی کرتی ہے کہ یہ ہمارا ایک طرح کا قومی بیانیہ بن چکا ہے۔ سادہ بات مگر ہم فراموش کر دیتے ہیں کہ خودش حملےہوں،عالم انسانوں پہ یا سیکیورٹی فورسز پہ، ڈیوائسز کے ذریعے لوگوں کو نشانہ بنایا جائے یاداعشی مظالم کی شکل میں لوگوں کی گردنیں اڑا دی جائیں۔ یہ سب دہشت گردی ہی ہے،اور بے شک دہشت گرد اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے حق میں فقہی و دینی ” دلائل” بھی رکھتے ہیں۔یہ جنت کے چکر،یہ حوروں کے سودائی،یہ ساری ثابت شدہ باتیں ہیں۔اسے بد قسمتی کہیے کہ ملک میں خود کش حملوں کی لہر اٹھی اور پھر پھیلتی چلی گئی۔ ان خود کش حملوں کی کئی وجوھات ہیں۔ مثلاً امریکی ڈرون حملے، پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بننا،پاکستانی طالبان، کالعدم لشکر جھگوی، کالعدم سپاہ صحابہ ،کالعدم القاعدہ اور اسی فکر کی دیگر چھوٹی بڑی مسلح تنظیموں کا فکری پس منظر ،جو براہ راست القاعدہ و افغان طالبان سے جڑا ہوا ہے، یہ سارے اپنے تئیں “غزوہ ہند” کے لیے مرے جا رہے ہیں۔یہ ساری چیزیں مل کر ملک میں افراتفری اور دہشت گردی کا سبب بنتی چلی گئیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم برائی کی جڑ کاٹنے کے بجائے شاخوں کو تراشنے پر ساری قوت خرچ کرتے ہیں۔کالعدم تحریک طالبان اوراس کے فکری و عملی اتحادیوں کا زور بے شک پاک فوج اور پاکستان کے عدل پسند عوام نے توڑ دیا ہے۔داعش لیکن ایک بڑے خطرے کے طور پر افغانستان میں گھات لگائے بیٹھی ہے اور بے شک بہت کم مگر داعش کے فکری اتحادی موجود ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جو کبھی القاعدہ و کالعدم تحریک طالبان وغیرہ کے سلیپرز سیل تھے،اب ان کی کمین گاہیں داعشی دہشت گردوں کے لییے حاضر ہوں گی۔
ان تمام خطرات اور ان سےجڑے دیگر تحفظات و ممکنات کے باوجود پاکستانیوں کا عزم صمیم اور حوصلے انتہائی بلند ہیں۔خوارج صبح ِ قیامت تک موجود رہیں گے،اور اس خطرے و فتنے سے نمٹنے والے بھی فتح یاب ہوتے رہیں گے۔ہاں دکھ ہے تو اس امر کا کہ پیغام پاکستان فتویٰ جب اپنی رونمائی کے آخری مراحل میں تھا تو کالعدم شریعت ِ محمدی ﷺ کے سربراہ مولوی صوفی محمد کو بنگلہ نما جیل سے رہائی کر دیا گیا۔ کیا ریاستی اداروں کو صوفی محمد جیسے منظم دہشت گرد کے خلاف کوئی ایک ثبوت بھی نہیں ملا؟ احسان اللہ احسان کی تو میں بات ہی نہیں کر سکتا۔وہی احسان اللہ احسان جو کالعدم تحریک طالبان کا ترجمان تھا۔کیا وہ بھی کسی فتوے کی زد میں آ سکے گا؟کیا مولوی صوفی محمد بھی اس تازہ فتوے کی لپیٹ میں آئے گا؟ کیا داعش کو پاکستان آنے کی دعوت دینے والون کی طرف بھی فتویٰ آنکھ اٹھائے گا؟یہی کہ خدارا جڑیں بھی کاٹیں۔
للہ رب العزت نے جھوٹ،فریب،بد دیانتی سے منع فرمایا ہے۔ کیا سارے مسلمان واضح الٰہی احکام سے روگردانی نہیں کرتے؟ ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا۔اس کے باجودکیا بے گناہوں کا خون نعرہ تکبیر بلند کر کے نہیں بہایا جا رہا؟یہ سب ہو رہا ہے۔ اے کاش دین کی سطحی تفہیم کے بجائے دین کو فلسفیانہ آہنگ اور سوچ کے ساتھ قبول کیا جائے۔ غور و فکر کیا جائے۔قبل ازیں بھی مختلف مکاتب فکر کے 30 سے زائد علما نے ملک میں تخر یب کاری اور دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کو حرام قراردیا تھا۔اسلام آباد میں ایک سیمینار کے بعدعلمائے کرام کے دستخطوں سے جاری والے فتوٰی میںفرقہ وارانہ منافرت، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کو فساد فی الارض قرار دیا گیا تھا اور ایسی سرگرمیوں کے خلاف ریاستی اداروں سے بھرپور کارروائی کی درخواست کی گئی تھی۔آج پھر سے علمائے کرام نے مل بیٹھ کر دہشت گردی کے خلاف ایک بھر پور اور متفقہ فتویٰ جاری کیا ہے جسے پیغام ِ پاکستان کہا گیا۔پاکستان کا پیغام بے شک بڑا واضح اور شفاف ہے۔ پاکستان عشروں سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑ رہا ہے اور اس لڑائی میں پاکستان کی قربانیاں کسی بھی دوسرے ملک، قوم یا معاشرے سے زیادہ ہیں۔میری التجا البتہ یہ ہے کہ وہ افراد، ٹھکانے اور درس گاہیں جو کسی نہ کسی شکل میں انتہا پسندی اور نفرتوں کے فروغ میں معاون رہیں ان پر بھی کڑی نظر رکھیجائے۔کہاوت یہی ہے کہ ” چور چوری سے جائے مگر ہیرا پھیری سے نہ جائے” اس فیصلہ کن مرحلے پر اگر کسی بھی طرح کی فکری،معاشی و سماجی ڈھیل دی گئی تو دہشت گردوں کے سہولت کار پھر سے اپنے وحشیوں کو یکجا کرنے کی منصوبہ بندی کریں گے۔بے شک دہشت گرد اس وقت شکست کھا چکے ہیں اور ان کے حمایتی افسردہ ہیں۔اس افسردگی کے بطن سے کوئی نیا فتنہ بھی کھڑا ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ صرف فتووں کی چادر کو ڈھال بنا کر نہ زندہ رہ سکتا ہے نہ ترقی کر سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مذہبی،اور سماجی ہم آہنگی انسان کی اولین ضرورتوں میں سے ہے۔یہی ہم آہنگی پر امن معاشروں کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ فتووں کی لاٹھی سے پیدا کی جانے والی ہم اآہنگی دیرپا نہیں ہوتی۔اس کے لیے ریاست اور سماج کے دیگر طبقات کو نئےزاویے تلاش کرنا ہوں گے ۔ علما نے اپنے حصے کا کام کر دیا،دہشت گردی کے خلاف فتویٰ آجانا اس عہد کی زریں کامیابی ہے، لیکن یہ کلی کامیابی نہیں۔دہشت گردوں کو مسلح میدان میں شکست دینے کے ساتھ ساتھ انھیں فکری شکست بھی دینا ہوگی۔ دنیاالبتہ یہ جان لے کہ پاکستان اپنے تمام فکری،عسکری،سیاسی،مذہبی، معاشی اور سماجی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہے۔ یہی پاکستان کا پیغام ہے کہ دنیا میں جہان کہیں بھی دہشت گردی ہو گی پاکستان اس دہشت گردی کے خلاف دامے، درہمے، قدمے ،سخنے بلند ہمت و بلند آواز ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پیغام ِ پاکستان فتویٰ۔۔۔طاہر یاسین طاہر

Leave a Reply