خدا ہے /تبصرہ: علی رضا کوثر(1)

اس کتاب کا پہلے باب کا مطالعہ مکمل ہوا۔ اس کتاب کے کل دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں انتھونی فلو کا “انکارِ خدائی” ہے جبکہ دوسرے حصے میں “تلاشِ خدا” ہے۔ پہلا حصہ تین ابواب پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ سات ابواب پر مشتمل ہے۔ مترجم نے اس کتاب کا محور سقراط کے اس قول کو کہا ہے “دلیل کی پیروی کرو، چاہے جہاں وہ تمہیں لے جائے”۔

دیکھا جائے تو انسان ازل سے کسی نہ کسی “حقیقت” کا متلاشی رہا ہے۔ کوئی دنیا کا متلاشی تو کوئی دھرم کا۔ یہ حقیقت کی تلاش عقل و خرد سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ عقائد و تقلید سے۔ مصنف بھی اس پہلے باب میں خدا کے  انکار کا سہرا عقل و ادراک کے سر ڈالتا ہے۔ مصنف کا والد عیسائی مبلغ اور پادری جبکہ اسکا بیٹا جوانی میں ہی ملحدانہ سوچ کا مالک۔ اس نے کبھی بھی اپنے باپ کے دھرم کو نہیں مانا۔ اور یہ بات وہ اپنے خاندان سے چھپاتے رہے مگر 23 سال کی عمر میں یہ راز، راز نہ رہا۔اور باپ کو معلوم ہوا کہ بیٹا ملحد ہوچکا ہے۔
وہ بالکل کٹر ملحد ہوگیا۔ اس نے الحاد کو ڈیفینڈ کرنا شروع کیا۔ کئی کتب لکھیں۔ کئی تو الحاد کے حق میں حرف آخر ثابت ہوئیں۔ چند کتب کے نام ہیں؛
۔ Theology and Falsification
۔ New Essays in Philosophical Thelogy
۔ God and Philosphy
۔ The Presumption of Atheism
۔ The Logic of Mortality
اس وقت ایک فلسفہ عام تھا جسے “فلسفہء ایجابیت” کہتے تھے جس کا مفہوم یہ تھا کہ ‘کسی بھی چیز کو بامعنی تب کہا جائے گا جب وہ حواس کے تجربے میں آئے۔ یعنی جسکی سچائی یا جھوٹ کو تجزیاتی جھوٹ پر پرکھا جاسکے(مثلاً سائنسی منہج پر)۔ مصنف بھی اسی فلسفے کا قائل تھا۔
مصنف نے پہلا مقالا لکھا جس کا نام تھا
Theology and Falsification
اس مقالے کو وہ فلسفہء ایجابیت اور الحاد کے دفاعی تابوت میں آخری کیل تصور کر رہے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے “میں نے مکمل فتح حاصل کرلی ہے اب مزید مباحثے کیلئے کوئی جگہ نہیں چھوڑی”
مصنف کی الحاد کے حق میں لکھی گئی کتابیں سب زبردست لکھی ہوئی تھیں ،جسے پڑھ کر پڑھنے والے کئی لوگ انکے خیالات اپنا لیا کرتے تھے۔

مصنف کی کتاب
New essays in philosophical theology
کو پڑھ کر جے۔این فنڈے نے کہا تھا “خدا کے وجود کو ثابت نہیں کیا جاسکتا” مگر بعد میں وہ بھی خدا پر یقین کرنے لگا اور اپنی کتاب میں لکھا کہ “ذہن، شعور، حکمت اور ارادہ خدا کی انتہا پر ختم ہوجاتا ہے۔ وہ واجب الوجود ہے جسکی عبادت اور غیر مشروط تسلیم کے ہم مقروض ہیں”۔

مصنف نہ صرف خدا سے انکاری تھے بلکہ جنت جہنم اور زندگی بعد الموت کا بھی انکاری تھے۔ وہ ہر طرح کے دینی ادب سے دور تھے۔ دینی رسموں سے بھی دور۔ وہ کسی دین و دھرم میں نہیں مانتے تھے۔ وہ کہتے ہیں “مذہبی رواج میرے لئے ڈیوٹی کے معاملات تھے۔ مجھے کبھی بھی خدا سے ملنے کی معمولی سی خواہش بھی نہیں ہوئی۔
مگر اب وہ لکھتے ہیں ” میں خدا کی غیر موجودگی کے بارے میں اپنے نتیجے پر بہت جلد، بہت آسانی سے اور جسکا بعد میں اندازہ ہوا کہ کچھ غلط وجوہات کی بنا پر پہنچا تھا”۔
مصنف نے خدا کا انکار پندرہ برس میں ہی کردیا تھا۔وہ لکھتے ہیں “جب میری  اپنی پندرھویں سالگرہ تھی، تب میں نے یہ تھیسز مسترد کردیا تھا کہ کائنات کو ایک اچھے ، طاقتور خدا نے تخلیق کیا ہے۔”
لیکن الحاد کو ترک کرنے کے بعد وہ “ڈی۔ازم”(Deism) کے قائل ہوگئے۔ ڈی۔ازم وہ عقیدہ ہے جس میں خدا کے وجود کا اقرار کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی اقرار کیا جاتا ہے  کہ کائنات کو خدا نے خلق کیا اور اب وہ اس میں دخل اندازی نہیں کرتا۔

مصنف اپنے بچپن ہی سے ملحدانہ تصورات رکھتا تھا اور ان تصورات اور عقل و ادراک کی وجہ سے وہ آگے چل کر کٹر ملحد بنے۔ الحاد کا پرچم ہاتھ میں اٹھا کر باقائدہ اسکو نصف صدی تک ڈیفینڈ کیا۔ مگر آخر کار وہ خدا کو  ماننے لگے۔

انتھونی فلو ایک مشہور ملحد تھا جو ساری زندگی خدا کا انکار کرتا رہا۔ مگر آخر میں وہ انکار، اقرار میں بدلتا ہے۔ انکی یہ کتاب انکارِ خدا سے اقرارِ خدا کے بارے میں ہے۔ یعنی یہ کتاب الحاد سے اعتقاد کا سفر ہے۔
انتھونی فلو شروع سے ہی سقراط کے اس قول کا قائل تھا کہ
“دلیل کی پیروی کرو، چاہے وہ تمہیں جہاں لے جائے”
اور واقعی وہ اس قول کا سچا پیرو نکلا۔ پچاس سال سے زیادہ الحاد کی تبلیغ کرنے کے بعد جب اسے خدا کے وجود کی دلیل ملی تو اس نے بلا جھجھک دلیل کو سینے سے لگا کر سالوں کے انکار کو اقرار  میں بدل  دیا۔ (ورنہ اپنے عقائد سے دستبردار ہونا کافی مشکل کام ہے)
یہ تحریر کتاب کے دوسرے اور تیسرے باب پر مشتمل ہے جس میں فلو بتاتا ہے کہ اس نے خدا کا انکار کن وجوہات کی وجہ سے کیا تھا۔

انتھونی فلو  آئیڈیالزم کو سائنس کے لئے مہلک سمجھتا ہے۔ آئیڈیالزم یعنی ‘تمام حقیقتیں مکمل طور پر ذہنی ہیں، اور یہ کہ صرف ذہن اور اجزائے ذہن وجود رکھتے ہیں’۔ (آئیڈیالزم کو تصوریت بھی کہتے ہیں۔ اور مذاہب بھی تصوریت کے قائل ہوتے ہیں کیونکہ مذاہب میں کئی چیزیں تصور پر مبنی ہوتی ہیں)
فلو اس بات کے بھی قائل تھے کہ فلسفہ کے مسائل کو آسان کر کے پیش کیا جانا چاہیے کہ جیسے عام انسان بھی سمجھ سکے۔ وہ کہتے ہیں،
“ضرورت ان مسائل پر توجہ دینے کی ہے جو فلسفے سے نابلد لوگ بھی آسانی سے سمجھ سکیں بجائے اسکے کہ فلسفیانہ خیالی باکسنگ میں قوت ضایع کی جائے”

مصنف انتھونی فلو کی الحاد کی طرف زیادہ توجہ سوکریٹک کلب(Socratic Club)کے آخری ایام میں ہوئی جب ان دنوں کانٹ کے فلسفے کے تین اہم سوالات پر گفتگو ہونا شروع ہوئی۔ وہ تین سوال خدا، آزادی اور بقائے دوام کے بارے میں تھے۔
مگر مصنف نے جو اس کتاب میں اپنے الحاد کی وجہ بتائی ہے وہ دو مسائل تھے۔ ایک “شر” کا مسئلہ دوسرا “آزادیء ارادہ” کا مسئلہ۔ وہ کہتا ہے کہ اگر خدا مکمل خیر اور قادر مطلق ہے تو ‘شر’ کیوں پیدا کیا گیا۔ اور اگر انسانوں کو ارادے کی آزادی نہیں تو یہ بھی ایک ذمہ دار خالق کا تصور اجاگر نہیں ہونے دیتا۔ ان دونوں مسائل کا نتیجہ مصنف کے ملحد ہونے میں نکلا۔
جیسا کہ ہم نے قسط اول میں بتایا تھا کہ مصنف کا پہلا مقالا جو اسکی مشہوری کا باعث بنا وہ تھا
Theology and Falsification
اس مقالے پر آکسفورڈ کے اخلاقیات کے فلسفی مسٹر ار۔ایم۔ہار نے ردِ عمل کرتے ہوئے کہا کہ “مذہبی گفتگو کی ترجمانی بیانات کے بجائے انکے اظہار کے ذریعے ہونی چاہیے۔” وہ مزید کہنا چاہتے تھے کہ خدا کے تصور کی نہ تصدیق کی جاسکتی ہے نہ تکذیب۔
ایک اور فلسفی جو افلاطون پر اپنے کام سے مشہور تھا جس کا نام تھا آئی۔ایم کرومبی۔ اس نے کہا “آپ مذہبی بیانات کو صرف اس صورت میں سمجھ سکتے ہیں جب آپ ان دعوؤں کے ساتھ انصاف کرسکیں:

خدا پرستوں کے خیال میں خدا ایک ماورائی ہستی ہے اور خدا کے بارے میں بیانات خدا پر لاگو ہوتے ہیں نہ کہ دنیا پر• وہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا ماورائی ہے لہذا سمجھ سے بالاتر ہے• خدا ایک اسرار ہے لہذا اسے مرکز توجہ بنانے کیلئے قابل فہم انداز میں بات کرنی ہوگی• ہم خدا کے بارے میں صرف تمثیلوں کے ذریعے بات کرسکتے ہیں ۔ مذہبی بیانات خدائی سچائیوں کے انسانی نقوش ہیں جنہیں تمثیل کی صورت میں ظاہر کیا جاسکتا ہے”۔

انتھونی فلو پر کئی لوگوں نے تنقید کی تھی اور وہ ہر نقاد کی تنقید پر ٹھنڈے دل سے سوچتے تھے۔ فلو پر چند دیگر نقادوں کے ساتھ ساتھ ‘باسل مچل’ کا اثر زیادہ ہوا۔ مچل نے اسے خیر اور شر کے متعلق بتایا اور اسے مخالفت اور اختلاف کے درمیان فرق کرنا سکھایا۔
فلو کا یہ بھی سوال تھا کہ خدا کی شناخت کیسے کی جائے؟ یعنی ایک بغیر جسم والی ہستی جو ہر جگہ موجود ہو اسکی تصدیق کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب پروفیسر ‘سوئن برن’ نے دیا۔ پروفیسر نے کہا “اگر ہم نے صرف O دیکھا ہے تو یہ سمجھنا کہ X کے وجود سے یوں مربوط نہیں کہ صرف O ہی وجود رکھتا ہے اور X کا کوئی وجود نہیں ہے۔” (وہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی ملحد خدا کو نہیں مانتا تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ خدا ہے ہی نہیں)

اسی سوال پر مورخ فلسفہ ‘فریڈرک کوپلسٹن’ نے کہا “میرا نہیں خیال کہ انسانی ذہن سے یہ مطالبہ مناسب ہے کہ وہ خدا کے وجود کو اس طرح گرفت میں لینے کے قابل ہوجائے جیسے تتلی کے شوکیس میں قید کیا جاتا ہے”

پھر آگے چل کر یہ بحث چھڑتی ہے کہ خدا کے ہونے نہ ہونے کی دلیل دی جائے۔ اور کئی لوگوں نے بشمول انتھونی فلو کے یہ کہا کہ خدا کے ہونے کا ثبوت خدا پرستوں کو دینا چاہیے۔ جس پر ایک فلسفی ‘رالف میکینری’ نے جواب دیا کہ “انسانوں کا خدا پر یقین فطری ہے۔ ثبوت کی فراہمی کا بوجھ ملحدوں پر پڑنا چاہیے” (مگر کتاب میں  کوئی ثبوت لکھا نہیں ہوا)

فلو کے جہاں دیگر سوال و مسائل تھے وہاں ایک مسئلہ تقدیر کا بھی تھا۔ وہ کہتا ہے “میں ہمیشہ تقدیر کے عقیدے سے پسپا ہوا تھا۔جس کے مطابق خدا نے بیشتر انسانوں کا عذاب پہلے ہی لکھ دیا ہے” یعنی اب آپ اچھا کام کریں یا برا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی اب سارے قلم ٹوٹ چکے ہیں اور سب تحریریں رقم ہو چکی ہیں۔

تیسرے باب کے آخر میں مصنف اپنے مباحثوں کے بارے میں لکھتے ہیں جن میں مشہور ملحد رچرڈ ڈاکنز سے بھی ان کی  بحث ہے۔ وہ ڈاکنز کیلئے لکھتے ہیں ” ڈاکنز کیلئے انسانی طرزِ عمل(کردار)، جو کہ بامعنی طور پر انسان سے منسوب ہوتا ہے، جینز کی خصوصیت سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر جینز نہ ہمارے طرز عمل کو بناتے ہیں نہ بنا سکتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ بے رحمانہ خودغرضی اور قربانیوں کی دردمندی کا کوئی منصوبہ تیار کرنے، درکار حساب کتاب اور تفہیم کے قابل ہیں”
گویا ڈاکنز انسانی عمل کو، چاہے وہ قربانی ہو یا خودغرضی وغیرہ، جینز سے وابستہ کر رہا تھا مگر فلو نے اسے غلط قرار دیتے ہوئے کہا کردار/عمل کا تعلق جینز سے نہیں۔ ایسے چند مباحثوں پر ہی تیسرا باب ختم ہوتا ہے۔ اب چوتھے باب سے لیکر آخری باب تک وہ خدا کی تلاش کے بارے میں لکھتے ہیں۔ جو کہ ہم اگلی اقساط میں لکھینگے۔
جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ جستجوگروپ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply