مراکش ایک صدی پہلے ،لارنس ہیرس کی کتاب کے آئینے میں۔۔منصور ندیم

مراکش سے عربی ترجمے میں پبلش ہونے والی یہ کتاب دراصل آج سے صدی پہلے کی یاد داشتیں ہیں, جو برطانوی صحافی و مصور لارنس ہیرس Lawrence Harris نے لکھی تھیں، اس کتاب کا نام تھا۔

With Mulai Hafid At Fez : Behind The Scenes In Morocco.

یہ یاد داشتوں کی کتاب اس وقت کے عہد میں جب ذرائع ابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ کتاب ہی تھی، اس وقت مراکش میں ہونے والی عہد ساز تبدیلی، اور فرانسیسی تسلط کو ایک یورپ کے سامنے ایک نئے رخ سے لایا گیا تھا، بطور صحافی Journalist لارنس ہیرس Lawrence Harris نے ستمبر سنہء ۱۹۰۸ میں مراکش کا سفر کیا تھا، اس وقت اس کی صحافتی ذمہ داریوں میں سلطان “مولائے” (بادشاہ کا مقامی اعزاز) عبد الحفیظ کی تصاویر کھینچنا اور ان کے ساتھ پریس انٹرویو کرنا تھا۔ لارنس ہیرس نے اپنی یادداشتوں میں مراکش پہنچنے کی مشکلات کا بھی ذکر کیا تھا، جن کا سامنا اسے مراکش میں ہوا تھا اور اس نے یہاں کے کسٹم کے مسائل اس کے ماحول، مراکش کی آب و ہوا کے علاوہ مراکش میں سفر کرنے کی مہم جوئی کے بارے میں لکھا ہے۔

ان یاد داشتوں میں عبد الحفیظ کی اقتدار میں آمد کے منظر نامے، فرانس و مراکش کانفرنسز کے اثرات، اور اس کے بارے میں معلومات کے علاوہ مراکش پر فرانسیسی تحفظ کے نفاذ یا یوں کہہ لیں جبری تسلط کی ابتدائی حالات لکھے ہیں، جس کے بعد ۳۰ مارچ سنہء ۱۹۱۲ میں فرانس اور مراکش کے درمیان ہونے والے با ضابطہ  طور پر The Treaty of Fes (فیس کا معاہدہ) جو شریفین سلطنت اور فرانسیسی پروٹیکٹوریٹ کی تنظیم کے لیے طے پایا گیا تھا، یہ ایک ایسا معاہدہ تھا جس پر مراکش کے سلطان عبد الحفیظ نے جبر کے تحت دستخط کیے تھے اور French diplomat Eugène Regnault (فرانسیسی سفارت کار یوگین ریگنا) نے اسے مراکش پر ۳۰ مارچ سنہء ۱۹۱۲ نافذ کردیا تھا۔

مزید لارنس ہیرس کی یاد داشتوں میں جو دلچسپی کے مظاہر نظر آئیں گے ان میں سلطان (مولائی) عبدالحفیظ سے اپنی ملاقاتوں میں مراکش کی تاریخ کے اس انتہائی حساس حالات میں بیعت کی رسموں کا تذکرہ، جب کہ ملک میں حالات خراب ہونے کے بعد سلطان “مولائی” عبدالعزیز سے اقتدار اپنے بھائی سلطان (مولائی) عبدالحفیظ کو منتقل ہوا۔ لارنس ہیرس ان یاد داشتوں میں بادشاہوں اور امراء سے ملنے کے واقعات، ان کا رہن سہن، مقامی سطح پر غریبوں اور عام لوگوں کی کہانیاں سننے کے واقعات، چائے کے ایک کپ اور چرس کے دھوئیں کے ساتھ گزارے گئے لمحوں کو قید کیا ہے۔ ایک صحافی جس طرح کسی بھی خطے کی عام زندگی کو بخوبی دیکھ سکتا ہے لارنس ہیرس نے ویسے ہی مراکش کی زندگی کو اس عہد میں دیکھا اور انہیں اپنی یاد داشتوں میں محفوظ کیا۔

یہ کتاب انہیں عام طور پر “عرب” کی صورت حال کے بارے میں ایک ایسے عہد میں جب یورپ بہت زیادہ تیزی سے بدل رہا تھا، وہاں کے سماج میں بہت تبدیلیاں آرہی تھیں اس وقت جو لوگ مراکش میں فرانسیسی تسلط کے آغاز سے پہلے کے دور میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہوں، اور فرانسیسی تسلط سے پہلے وہاں پر یہودیوں کے رہن سہن، غلاموں کی زندگی، اسلام میں مرد کا عورت کے تعلقات کا مقامی، سماجی و معاشرتی زندگی کیسی تھی، یہ کتاب بہت عمدگی کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ مراکش کی تاریخ کے ان خاموش واقعات کو یہ دستاویز ایک جاندار مشاہدات کی طرح پیش کرتی ہے، لارنس ہیرس سو سال پہلے مراکش کے ایک عام شخص کی شخصیت میں گھسنے میں کامیاب ہو گیا تھا، تاکہ وہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے درمیان مراکش کے لیے نوآبادیاتی مقابلے کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کر سکے۔ اس نے وہاں کی عام زندگی میں رہ کر بادشاہوں سے لے کر چرواہوں اور عام مراکشی شہریوں سے ملاقاتیں کیں۔

لارنس ہیرس نے یہ یادداشتیں سنہء ۱۹۰۹ میں میں لکھی تھیں، جسے پہلی بار عربی زبان ترجمے کے طور پر بین الاقوامی کتاب میلے کے آخری ایڈیشن میں شائع کیا گیا تھا جب بین الاقوامی کتاب میلے کی میزبانی رباط شہر نے کی تھی۔ لیکن اب اسے ایک مراکشی صحافی یونس جنوحی نے دوبارہ ترجمہ کیا ہے، جو گزشتہ ہفتے شائع ہوا ہے اور مراکش کی تاریخ کے حوالے سے ایک اہم عنوان ہے ۔ اس کتاب کو “مع مولائی عبدالحفیظ فی فاس ۱۹۰۹” کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ خیر عربی کتاب تو شائد پاکستان میں رہنے والوں کے لئے پرکشش نہ رہے، مگر اصل کتاب جو انگریزی میں موجود ہے، تاریخ کے طالب علموں کے لئے انتہائی اہم موضوع ہوسکتا ہے، خصوصاً ان کے لئے جو لوگ عام طور پر عرب دنیا کی تاریخ کے ایک بڑے حصے کی تاریخ میں دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی نادر اور تاریخی دستاویز رہی جس پر عرب و برصغیر میں محققین یا صحافیوں نے بالکل کام نہیں کیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

لارنس ہیرس کی انگریزی کتاب پی ڈی ایف میں آن لائن کئی لائیربریوں میں دستیاب ہے، خصوصا ان طالب علموں کے لئے جو فرانس کے مراکش پر تسلط قائم ہونے والے عہد کی تاریخ کو اس عہد کے مطابق سمجھنا چاہتے ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply