• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) تیرا نام لکھوں اور عقیدت کی شمع جلاؤں-قلم قبیلہ سے ملاقات- دانیال خاتون/سلمیٰ اعوان(آخری قسط21-الف)

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) تیرا نام لکھوں اور عقیدت کی شمع جلاؤں-قلم قبیلہ سے ملاقات- دانیال خاتون/سلمیٰ اعوان(آخری قسط21-الف)

میونسپل پبلک لائبریری کے دروازے پر جن دو اصحاب نے استقبال کیا ان میں سے ایک معمر اور دوسرا نوجوان تھا اول الذکر محمد اشرف اور موخر الذکر شیر باز علی برچہ تھے۔ پبلک لائبریری کے گیسوؤں کی آرائش و زیبائش کسی طرح دار الھڑا ماڈرن نازنین جیسی نہ تھی۔ بلکہ یہ انداز سادہ لوح گھریلو خاتون کا سا تھا۔
دو کمروں ایک بڑے اور دوسرے چھوٹے پر مشتمل یہ لائبریری جتنی پرانی ہے۔ اشرف صاحب کی خدمات کی تاریخ اس سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ ایک نوزائیدہ بچے کی طرح اس کی دیکھ بھال کرتے ہوئے انہیں نے اسے بلوغت کی حدوں میں داخل کر دیا ہے۔ اگر اوپر والوں نے ان کی خواہشات کے مطابق انکی شنوائی کی تو ممکن ہے اس کی جوانی خاصی اثر انگیز ہو۔
بڑے کمرے میں سادہ نمدہ بچھا ہوا تھا۔ اطراف میں شیشے کی الماریوں میں کتابیں سجی تھیں۔ ملحقہ چھوٹے کمرے میں بڑی میز کے گرد چند کرسیاں تھیں۔
چائے اور بسکٹوں سے تواضع ہوئی۔ شیر باز گورا چٹا ‘خوبصورت نقش و نگار والا ‘درمیانی قامت کا نوجوان ہے۔ لکھنے پڑھے سے گہری دلچسپی رکھتا ہے اور دو تین کتابیں بھی تخلیق کر چکا ہے۔
پرانے رسائل اور کتابوں کی ورق گردانی کرتے کرتے دفعتاً میں نے سر اٹھا کر شیر باز کی طرف دیکھا۔
شیر باز فاتح گلگت کے بارے میں اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ۔
اور میں نے محسوس کیا تھا شیر باز کی آنکھوں کی چمک فاتح گلگت کے ذکر پر دو چند ہو گئی تھی۔ کرنل مرزا حسن خان تاریخ گلگت کے صفحات پر جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ اس نام کی رعنائی و دلکشی نے مجھے بار بار کچھ جاننے پر مائل کیا تھا۔ میں نے سر کو جھکا دیا تھا اور شیر باز کہیں دور خلاؤں میں دیکھتے ہوئے گویا اپنے آپ سے باتیں کرتا تھا۔
وہ دن بڑا سرد تھا۔ برفیلی ہواؤں میں جارحانہ کاٹھ تھی۔ گلگت کے رونو خاندان کے ایک گھرانے میں اس روز جو بچہ پیدا ہوا وہ خاصا کمزور تھا۔ رشتہ دار خواتین فکر مند تھیں کہ کہیں کوئی بے احتیاطی نہ ہو جائے۔ بچہ موسم کی شدت کا شکار نہ ہو جائے۔ مرزا تاج محمد نے بیٹے کو دیکھا۔ اس کی پیشانی پر ہاتھ پھیرا۔ وجدان نے جیسے سرگوشی کی۔ یہ بچہ غیر معمولی ہے۔
بچپن میں جب بھی باپ سے کہانی کی فرمائش کی۔ تاج محمد نے سینے سے چمٹا کر خالد بن ولید کے کارنامے سنا ڈالے۔ حضرت علی شجاعت اور دلیری کی کہانیاں کانوں میں انڈیل دیں۔بس تو معمول ٹھہرا تھا کہ جب رات ڈھلتی وہ باپ کی ٹانگوں سے چمٹ کر انہی کہانیوں کی فرمائش کرتے۔ یوں بچپن ہی سے ان کے کان تلواروں ‘اسلام کے دشمنوں’ جنگوں’ جنگ کی حکمت عملی اور پسپائی جیسے الفاظ سے آشنا ہو چکے تھے۔
وہ ماں کے گلے میں بانہیں ڈالتے اور چلاتے۔
اجے میں خالد بن ولید بنوں گا۔ میں اسلام کا سپاہی بنوں گا۔
ابتدائی تعلیم گلگت میں ہوئی۔ ہر امتحان میں اول آنا انہوں نے اپنے لئے مخصوص کر رکھا تھا۔ مڈل کے بعد میٹرک پونچھ سے کیا۔ پونچھ مجاہدوں اور غازیوں کی سرزمین ہے۔ اسلام سے محبت یہاں کے لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ پیدائشی سپاہی‘ بے پنا ہ‘جوشیلے’ مہمان نواز اور سادہ لوح لوگ حسن خان کی شخصیت پر بہت اثر انداز ہوئے۔
میٹرک بہت امیتازی حیثیت سے پاس کیا۔ پونچھ کے چاروں ہائی سکولوں میں سرفہرست رہے۔ فسٹ ائیر کے لئے سری نگر آنا پڑا۔ سری نگر کو بار بار دیکھا اور اس کے گرویدہ ہو گئے۔ اور تھرڈ ائیر تک بہت نمایاں رہے۔ درجہ دوم ان کے لئے کبھی قابل قبول نہ تھا۔ ابھی فورتھ ائیر میں تھے کہ فوجی بننے کا جنون سر میں سما گیا۔
‘‘بی اے کر لو’’۔ کسی خیر خواہ نے مشورہ دیا۔
‘‘میں کشمیر کو ڈوگروں سے آزاد کرانا چاہتا ہوں۔ ’’
اور جب مہاراجہ کے سامنے انٹرویو کے لئے پیش ہوئے ۔ اس نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ ریاست کی بجائے انڈین آرمی میں کیوں نہیں گئے؟
کمال ذہانت سے انہوں نے کہا۔
‘‘ہزہائی نس کا اقتدار اعلیٰ گلگت پر بدستور ہے۔ عارضی طور پر اسے دہلی کے زیر اثر کیا گیا ہے۔ ہمارے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ان کے کشمیر کی ریاستی فوج میں شمولیت سے فرعون و موسیٰ کے واقعے کی یاد تازہ ہوتی تھی۔
کچھ ہی ماہ بعد انہیں مزید تربیت کے لئے انڈین آرمی میں بھیج دیا گیا۔ تربیت
مکمل ہوئی برما کے محاذ پر جانے کا حکم ملا۔ یہاں کئی معرکوں میں بے مثل جراء ت کا مظاہرہ کیا۔ جاپانی فوجی مقابلے پر تھی۔ اور قم رم پر قبضہ کر لیا۔
اسی رات کی بات ہے۔ پیٹ کے دائیں جانب سخت درد ہوا۔ ڈاکٹر نے اپنڈکس کے شُبے میں A.D.S بھیجا جہاں بیمار لوگوں کا علاج ہوتا تھا۔ وہاں امیر عبداللہ نیازی (لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ) بھی تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان انگریز افسر زخمیوں اور بیماروں کی عیادت کے لئے آیا۔ وہ میجر تھا۔ اس کی شان آن نرالی تھی۔ اس کے سینے پر ملٹری کراس جگمگاتا تھا۔ ہر بیڈ پر لیٹے ہر انگریز اور ہندوستان افسر اور جوان کی نگاہیں اس کے سینے پر تھیں۔ تب انہوں نے اپنے آپ سے کہا۔
میں زندہ رہوں یا مر جاؤں مگر یہ تمغہ ضرور سینے پر سجاؤں گا۔ بھلا اس کے بغیر کیا لطف؟
اور سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ سے کیا ہوا یہ وعدہ خوب پورا کیا۔ کینڈی پیک پر قبضے کے بعد تلیل ائیرپورٹ پر قبضہ کیا۔ مکٹیلا کا معرکہ جس انداز میں سر ہوا یہ ان کی عسکری زندگی کا ایک درخشاں کارنامہ تھا۔ ایسے کئی اور معرکے سر کرنے پر بالاخر انہیں ملٹری کراس سے نواز گیا۔
دوسر عالمگیر جنگ اپنے اختتام پر پہنچی۔ وطن واپسی ہوئی۔ جموں توی ریلوے اسٹیشن پر انہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کا رویہ دیکھاجو کشمیر انفنٹری بٹالین کو خوش آمدید کہنے کے لئے بذات خود وہاں موجود تھے۔ مسلمان فوجیوں کے لئے مہاراجہ کا انداز استقبال روایتی سا تھا۔ مگر ڈوگروں کو دیکھ کر وہ خوشی سے کھلے جا رہے تھے۔ کرنل مرزا حسن خان سے جب مصافحہ ہوا سرد مہری کی ایک منجمد لہران کے رگ و پے میں دوڑ گئی۔
‘‘میں ا سکا انتقام لوں گا’’۔ انہوں نے یہ اپنے دل میں کہتے ہوئے دانت پیسے۔
۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان اور ہندوستان دو آزاد مملکتوں کی صورت میں وجود
میں آئے۔ حکومتی سطح پر کوئی ردّعمل نہیں تھا۔ مرزاحسن خاں مضطرب تھے۔ کسی کام کے سلسلے میں وہ گلگت آئے۔ اس وقت گلگت میں واحد مسلمان افسر کرنل سعید درانی تھے۔ حسن خان نے انہیں مچھلی کے شکار کی دعوت دی۔ دونوں گھوڑوں پر سوار کار گاہ نالہ چلے گئے۔ یہاں تنہائی میں انہوں نے سعید درانی سے برصغیر کی سیاسی صورت حال اور خصوصاً جموں و کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے اس وقت مجاہدانہ کردار ادا نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ تب انہوں نے جبیب سے قرآن پاک نکالا۔ سعید درانی سے کہا ۔
‘‘آؤ درانی ہم قسم کھاتے ہیں کہ اپنی زندگیاں جموں و کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی خاطر قربان کریں گے۔‘‘
کارگہ نالہ سے واپسی پر وہ اور سعید درانی کرنل غلام حیدر اور میجر محمد خان سے ملے اور ان سے تبادلہ خیال ہوا۔ کرنل غلام حیدر نے فوراً قسم اٹھائی کہ وہ عہد کرتے ہیں کہ اگر مہاراجہ کشمیر نے ریاست کا ہندوستان سے الحاق کرنے کی کوشش کی تو ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ ایسا ہی عہد محمدخان نے بھی کیا۔
اگلی صبح گلگت سکاوٹس کے انچارج کیپٹن بابر سے ملاقات کی۔ بابر اصلاً نسلاً راجہ فیملی سے تھا۔ ان کی توقع کے برعکس بابر نے فوراً تعاون کی حامی بھری اور قسم بھی کھائی کہ وہ ہر صورت انقلاب کی راہ ہموار کرے گا۔
ابھی عہد و پیمان کے یہ مراحل طے ہو رہے تھے جب کیپٹن بابر خان نے گلگت سکاوٹس کے ذمہ دار افراد کی طرف یہ فیصلہ تحریری صورت میں مرزا حسن خان تک پہنچایا کہ گلگت سکاوٹس کے سب سردا رپاکستان سے الحاق کریں گے۔ گروپ کے افسران نے نعرہ ہائے تحسین بلند کئے۔ ابتدائی مرحلہ پر ہی یہ بابر کا ایک عظیم کارنامہ تھا۔ کیونکہ مقامی سیاسی رقابت جو مختلف ریاستی حکمرانوں کے درمیان پائی جاتی تھی سکاوٹوں کی کارکردگی پر اثر انداز
ہو سکتی تھی۔
انقلاب کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ فیصلہ ہو اکہ مرزا حسن خان کی کمانڈ میں بونجی اور گلگت میں کارروائی عمل میں لائی جائے۔
بونجی تاریخ اہمیت کا محاذ تھا۔ یہ ایک طرح جنگ آزادی کا سنگ میل تھا۔ زمانوں سے بونجی جنگی نقطہ نگاہ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ چار دروّں کا سنگم ہے۔ اس کے جنوب مشرق کی طرف وادی استور جنوب کی طرف وادی یا غتان‘ شمال مشرق کی طرف وادی حراموش‘ بلتستان اور شمال مغرب کی طرف وادی گلگت کے درے واقع ہیں۔ اسکے پہاڑوں اور وادیوں میں صدیوں پرانی تہذیب کے آثار ملتے ہیں۔ کورو پانڈو کی لڑائیوں میں بھی بونجی اہم تھی۔ انگریزوں اور ڈوگروں کی مہموں میں بھی بونجی چھاؤنی اہمیت کے لحاظ سے سرفہرست تھی۔
بونجی پہنچ کر کرنل حسن خان نے چند سرکردہ لوگوں سے ملاقات کی۔ انہیں آزادی کے متعلق بتایا نیز ان پر یہ بھی واضح کیا کہ سب سے زیادہ لڑائی کا خطرہ بونجی میں ہی ہو گا۔ آخر میں ان سے پوچھا کہ کیا وہ اس جدوجہد میں ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں؟۔
سرکردہ عمائدین کا جوش و جذبہ قابل دیدنی تھا۔
‘‘مرزا حسن خان قدم اٹھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔’’ انہوں نے بیک آواز کہا۔
مسلمانوں کے وسائل محدود تھے۔ دشمن طاقتور اور جدید جنگی ساز و سامان سے لیس تھا۔ مگر مسلمان افسروں نے ذہانت سے منصوبہ بندی کی۔ جوانوں اور عوام نے اس جہاد میں سرفروشی سے حصہ لیا اور یوں مرزا حسن اس خطے کو آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئے۔
اس جہاد میں شاہ خان’ صفی اللہ بیگ’ غلام مرتضیٰ’ احسان علی’ مجاہد بختاور’ اسلم خان کے کردار بہت نمایاں رہے۔ گلگت‘ بلتستان آزاد ہو کر پاکستان کے زیر انتظام آچکے تھے اور
جنگ کا دائرہ گریز تک پھیل چکا تھا اور حسن خان فتوحات میں مصروف تھے۔جب ہائی کمان کی طرف سے انہیں ترا گبل میں پیغام پہنچا کہ فوراً پنڈی رپورٹ کرو۔
یہ سنگین غلطی تھی۔ حسن خان کے اس محاذ سے جانے کے فوراً بعد تراگبل دشمن کے قبضے میں چلا گیا۔ ہماری بدقسمتی کہ سینیر افسران اس سازش کا شکار ہو گئے کہ حسن خان سری نگر تک پہنچ کر جنگ کا سارا کریڈیٹ خود لے گا۔ شخصی ٹکراؤ نے بیڑے کے پیندے میں سوراخ کر دئیے تھے۔
ایک بج رہا تھا۔ اشرف صاحب نے آکر کھانا کھانے کے لئے کہا۔
میں سرفرشوں اور جیالوں کی دنیا میں سانس لے رہی تھی۔
سری نگر فتح ہو سکتا تھا۔ جموں پر پاکستان کا پرچم لہرا سکتا تھا۔ فتح تو چند قدموں پر تھی پر حسن جیسے کئی جری جوانوں کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ جنگ کشمیر کو فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا۔
کیوں؟ کیوں ؟کیوں ؟کس لئے؟
میرے سارے وجود میں ان الفاظ کی بچوں جیسی بالک ہٹ کی اتھل پتھل تھی۔ سریر سر سے پاؤں تک اس شور میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسے میں اشرف صاحب کی پکار سنائی دیتی۔
انہوں نے قریب آکر پھر کہا تھا۔
‘‘اٹھیے وگرنہ کھانا ٹھنڈا ہو جائے گا۔’’
شیر باز برچہ کھڑا ہوا۔ شفقت کھڑی ہو گئی۔ تب کہیں میں نے کرسی چھوڑی۔ چھوٹے سے دسترخوان پر قیمہ آلو اور تنوری روٹیاں رکھی ہوئی تھیں۔ کٹا ہوا موٹا موٹا پیاز اور ٹماٹر موجود تھے۔ اچار کی شیشی بھی تھی۔
کھانا بہت خاموشی سے کھایا گیا۔
قہوہ پینے کے بعد میں نے شیر باز سے مختلف کتابیں اور رسائل لے جانے کی بات کی۔ کتابوں کے پلندے کے ساتھ جب ہم عثمان صاحب کے گھر پہنچے۔ اس وقت ڈھائی بج رہے تھے۔ برآمدے میں مسز عثمان کے بھائی ایک پیچیدہ گتھی سلجھانے میں مصروف تھے۔
بچیوں نے ہمیں دیکھتے ہی خوشی سے شور مچایا۔ مسز عثمان گلے ملیں۔ بڑی بیٹی بولی
‘‘اللہ ہم تو اتنے فکر مند تھے۔ حالات ویسے بھی پرسکون نہیں۔’’
میں ہنس پڑی۔
‘‘ادیبہ ہم محبتوں کے سفیر ہیں۔ ہمیں کسی نے کیا کہنا ہے؟’’
مسزعثمان کی والدہ کا حج کے لئے قرعہ اندازی میں نام نکل آیا تھا۔ ان کے بھائی انہیں رخصت کرنے نیچے تک جا رہے تھے۔ وہ بہن کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ عثمان صاحب سے اجازت کا مرحلہ درپیش تھا۔ ایک بار وہ انکار کر چکے تھے۔
‘‘ارے یہ کون سی مشکل بات ہے؟ اتنے جوان بچوں کی ماں ۔ سارے بچے بیک آواز باپ سے کہیں۔ بھلا کیسے نہیں مانیں گے وہ’’؟
میں نے رئیس اور ادیبہ کی طرف دیکھا۔
دونوں عثمان صاحب کے جواں سال بچے تھے۔
رئیس نے میری طرف صرف خاموش نظروں سے دیکھا۔ مگر ادیبہ نے بولنا ضروری سمجھا۔
‘‘آنٹی ہم ابو کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کرتے’’۔
‘‘یا اللہ ’’میں نے اپنا سر پکڑ لیا تھا۔
‘‘کمبخت میرے بچوں جیسے۔’’
جب بچے چھوٹے تھے اور ہم میاں بیوی کسی گھریلو مسئلے یا کسی فضول اور نکمّی بات پر جھگڑ پڑتے۔ تب اس لڑائی کا اختتام ہمیشہ میرے آنسوؤں پر ہوتا۔ چھم چھم بہتے پانی کے اس پردے کے پیچھے مجھے ہمیشہ اپنے بچوں کی صورتیں نظر آتیں جو جیسے مجھے دلاسا دیتی ہوں کہ ہمیں بڑا ہونے دو۔اور پھر وہ بڑے ہو گئے۔
جب یونہی ایک دن پانی پت کا میدان گرم ہوا۔ میں نے بچوں کی طرف آس بھری نظروں سے دیکھا۔ وہاں خاموشی تھی۔ بے رخی اور بے نیازی تھی۔ ایک جامد سناٹا تھا۔ ہمیشہ کی طرح پسپائی کے بعد میں نے انہیں کوسنے دیتے ہوئے کہا۔
‘‘کم بختو تمہیں میری حمایت میں کچھ کہنا نہیں چاہیے تھا۔ تمہارا باپ صریحاً زیادتی پر تھا۔
‘‘پلیز امّی آپ ہمیں فریق مت بنائیں’’۔ بیٹی نے بے اعتنائی سے کہا۔
‘‘آخر آپ بحث کیوں کرتی ہیں۔ تھوڑی سی دیر کے لئے خاموش نہیں رہ سکتیں’’۔ بڑا بیٹا بولا۔
میں نے توقعات کے اس بت کو جسے میں جانے کب سے گھڑتی چلی آئی تھی۔ اٹھا کر فرش پر پٹخا اور چکنا چور کر دیا۔
بھلا مجھ میں اور مسز عثمان میں کیا فرق تھا؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply