ساری کے نام خط/عامر حسینی

پیاری ساری
آج 24 نومبر ہے  اور اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ یہ تمہاری پسندیدہ شاعرہ کا جنم دن ہے۔پروین شاکر کا۔ساری! تمہیں پروین شاکر کا جنم دن مبارک ہو۔اگرچہ میں تمہارے جنم دن پہ تمہیں مبارکباد دینا بھول گیا تھا جبکہ مرا اپنا جنم دن بھی اسی مہینے میں آتا ہے جس میں تمہارا آتا ہے۔ویسے تمہیں یاد دلاؤں ایک ایسا واقعہ جس نے تمہاری پروین شاکر سے بے انتہا محبت کا رازساری یونیورسٹی کو بتادیا تھا۔وہ یونیورسٹی میں پروین شاکر مہمان خصوصی تھیں اور اس دن ایک معروف ادیب نے سٹیج پہ ان کی شاعری پہ اظہار خیال کرتے ہوئے یہ کہہ دیا،” پروین شاکر نسائی احساسات کی ترجمان شاعرہ ہے” تو تم ایک دم اپنی سیٹ سے اٹھیں اور تم نے چلا کر کہا! شٹ اپ ۔۔۔۔ بکواس بند کریں، احساسات کی جینڈر بنیاد پہ تقسیم عورت دشمنی اور مرد بالادستی کا ایک اور اظہار ہے،یہ پروین شاکر کی تعریف نہیں بلکہ ان کی شاعری کی توہین ہے” میں نے دیکھا کہ ہال میں بیٹھی لڑکیوں نے تالیوں سے آسمان سر پہ اٹھالیا تھا اور دو درجن مردوں کے ہاتھ بھی تالیاں بجانے پہ مجبور تھے،اور پروین شاکر مسکرا رہی تھیں،میں نے ان کے چہرے پہ مسرت کے گلاب کھلتے دیکھے تھے۔تم ساری عمر اس بات پہ لڑتی رہی ہو کہ احساسات کو “نسائی اور مردانہ ” کے درجوں میں تقسیم کرنا ایک اور طرح کا مردانہ تعصب اور شاؤنزم ہے۔

اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ تم نے اس تقریب کے بعد فلاسفی ڈیپارٹمنٹ کے سامنے مجھے کہا تھا کہ عاشق مرد ہو یا عورت اس کے ہاں نمانتا،عاجزی، انتہا کی انکساری اور قربان ہونے کے جذبے کے ساتھ پیاسے ہونے کی شدت کا اظہار ہوا کرتا ہے اور یہ کمزوری کی علامت نہیں ہے اور جب ایسے جذبوں کو ‘نسائی احساسات ‘ کہا جاتا ہے تو اصل میں اس کے پیچھے عورت کے “کمزور ہونے” اور اس کے ‘ناقص العقل ‘ ہونے سمیت وہ سارے تعصبات کھڑے ہوتے ہیں جو ‘میل شاؤنسٹ’معاشرے کا وصف ہیں اور تم نے مجھے یہ کہہ کر حیران کردیا تھا،”پروین شاکر کی شاعری کی اکثر مرد اس لئے تعریف کرتے ہیں کہ ان کے مردانہ احساس برتری کی ان جذبوں کی میل شاؤنسٹ تعبیرات سے تسکین ہوتی ہے۔جبکہ یہ جذبے اگر مرد عاشق کے اپنے معشوق عورت کے لئے ہوں تو احساس کا فارمیٹ یہی بنے گا جو پروین کے ہاں ہے”۔پروین شاکر کی شاعری کی ایسی فیمنسٹ تعبیر تو پہلے میں نے کسی سے سنی نہیں تھی۔اور پھر تم نے مجھے سیمون دی بووا سمیت کئی ایک فیمنسٹ عورتوں کے معاشقے اور ان معاشقوں سے ابھرنے والی کیفیات بارے پڑھایا تو مجھے احساس ہوا کہ تم کتنی ٹھیک تھیں۔تم نے مایاکوسکی کی ایک نظم کی کچھ لائنیں مجھے سنائی تھیں جن کو میں نے لکھ لیا تھا۔آج ڈائری کھول کر ان لائنوں کو پڑھا،
“Gentle souls!
You play your love on the violin.
The crude ones play it on the drums violently.
But can you turn yourselves inside out, like me
And become just two lips entirely?”
― Vladimir Mayakovsky
اور تم نے کہا تھا کہ پروین شاکر بھی مایا کی طرح ‘جسٹ ٹو لپس ان ٹائرلی’ ہے محبت کے باب میں۔ویسے تم نے ایک بار اس کے بارے میں یہ بھی کہا تھا کہ اندر سے وہ ایک ‘بہاری عورت ‘ تھی جس نے ہمیشہ یہ چاہا کہ اس کا محبوب جتنے مرضی ستم کرلے لیکن اس کی وفا اور محبت کو شک کی نظر سے نہ دیکھے، اس کی خوبصورتی اور قابلیت کی وجہ سے کلیس پن میں مبتلا نہ ہو۔اور اس کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا نہ ہو۔ ساری! تیسری دنیا کی ذہین،خوبصورت اور قابل عورتوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ اکثر اپنی انہی صلاحیتوں اور قابلیتوں کے سبب دکھ بھوگتی ہیں،ان کی توہین کی جاتی ہے اور ان پہ اعتبار نہیں کیا جاتا۔پروین شاکر کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔اس کا خالہ زاد اس کا شوہر بنا اور اس کی بلند پرواز کے ساتھ اڑنے سے قاصر ہوا تو اس کو پرواز نیچی رکھنے کو کہا،اس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر پرواز نیچی بھی کی لیکن پھر بالکل ہی پرکاٹنے کی کوشش ہوئی تو پروین شاکر بھاگ کھڑی ہوئی اور اس دوران گھر سے باہر اس نے سانپ ہی سانپ دیکھے اور سب اندر اس کے خالہ زاد کے ہی ہم زاد تھے،
کہاں سے آتی کرن زندگی کے زنداں میں
وہ گھر ملا تھا مجھے جس میں کوئی در ہی نہ تھا
میں اتنے سانپوں کو رستے میں دیکھ آئی تھی
کہ ترے شہر میں پہنچی تو کوئی ڈر ہی نہ تھا

ساری! تم جیسی عورتیں میں نے وہاں پاکستان میں بہت کم دیکھی ہیں جنھوں نے ” نسائی احساسات کی شاعری” جیسی اصطلاحوں پہ احتجاج کیا ہو اور اپنے جذبوں کی جینڈر تقسیم کو رد کردیا ہو۔سیمون دی بوووا نے ایک بات نوٹ کی تھی جب اس نے مرد و عورت کی برابری کی عملی شکل اپنے افعال و حرکات کے ذریعے سے پیدا کرنا چاہی، اور وہ بات یہ تھی کہ جب وہ پبلک پلیس پہ سگریٹ پیتی، بار ایٹینڈیٹ کو ‘ہارڈ پیگ ودآؤٹ سوڈا’ بنانے کو کہتی تو اسے عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا اور اس کی ان حرکات کو ‘مردانہ’کہا جاتا،جب وہ کسی کی چاہت میں مبتلا ہوکر اس کی قربت ڈھونڈنے کے لئے اس سے اظہار کرتی تو اسے ‘مرد کی فتح’ خیال کیا جاتا، اور اسے وصول الیہ سمجھا جاتا،یعنی اسے “ریسیونگ انیڈ” خیال کیا جاتا اور اس میں کہیں بھی بھی ‘تفاعل’ یا ‘انٹریکشن’ ناسمجھا جاتا۔اس کی سارتر سے والہانہ وابستگی اور عشق کو ‘فیمنسٹ تصورات’کے خلاف تصور کیا گیا اور اس کی سارتر کے لئے نمانتا اور والہانہ عشق کو اس کے نظریات کے منافی کہہ دیا گیا اور ایسے ظاہر کیا گیا جیسے سارتر کے ہاں تو ایسی کوئی شئے سرے سے موجود تھی ہی نہیں، ساری! تم نے ان جیسے کلیشوں کو جیسے توڑا اور ان کی چیڑپھاڑ کی تھی ،ویسی چیڑپھاڑ کرنے والی عورتیں تو یہاں اب پیرس میں بھی نایاب ہوتی جاتی ہیں۔یہاں اکثر فیمنسٹ عورتیں محبت اور عشق کے والہانہ پن اور وارفتگی کو ہی غلامی کی نشانی خیال کرتی ہیں اور وہ اسے نارمل جذبہ خیال کرنے کی بجائے پدرسری معاشرے کی تشکیلات سمجھتی ہیں اور تب تم مجھے بہت یاد آتی ہو۔

یہاں میں ایک ایسی عورت سے ملا جو پیرس کے ایک اسلامی سنٹر کے باہر کسی مدد کی متلاشی تھی۔اور میں اس کی یہ مدد کرنے کے قابل ہوگیا،ہماری دوستی ہوگئی اور اس دوران میں نے دیکھا کہ وہ بار بار کہتی تھی کہ تعلق باہمی ایسا ہوکہ ہم یہ بھول جائیں کہ ہم عورت و مرد ہیں۔اور بالکل نارمل ہوکر ایک دوسرے سے ملیں۔میں نے ایک دن تنگ آکے اس سے کہا کہ ہم مرد اور عورت کی اس جینڈر بیسڈ تقسیم کو مان کر بھی ایک دوسرے سے نارمل ہوکر مل سکتے ہیں اور اگر اس دوران ہمارے درمیان کوئی وصل پہ مبنی کیمسٹری ڈویلپ ہوتی ہے جسے غیر معمولی سمجھا جاتا ہے تو وہ ابنارملٹی بھی نارملٹی کا حصّہ ہی رہے گی اور ہم اس کو مسئلہ بنانے پہ کیوں اصرار کرتے ہیں۔لیکن وہ عورت ایک مجرد،مطلق زمان و مکان کی بندشوں سے ماوراء تعلق کی متلاشی تھی جو اسے کہیں ملنے والا نہیں تھا،ہم مردوں کی اکثریت بھی اپنی مرکز توجہ بننے والی عورت سے کچھ ایسے ہی مطالبے کرتے ہیں اور بے جا تناؤ بھوگنے لگتے ہیں۔یہ ایک ایسی مابعدالطبعیاتی /میٹافیزیکل مرد /عورت کی تلاش کا سفر ہے جس میں ناکامی صاف صاف لکھی نظر آتی ہے۔پروین شاکر نے ایسے کسی بھی سفر کے خلاف بغاوت کی تھی اور اس نے زمین واد محبت کی ایک مساوات قائم کرنے کی سعی کی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ساری! تم بتاؤ بھلا کوئی کیسے کسی کے دلکش اور سوہنڑے ہونٹوں، آنکھوں کی گہرائی،مخروطی انگلیوں کی گرفت اور اس کی نزاکتوں سے فرار اختیار کرسکتا ہے؟اور یہ بات صرف ایک عورت کے باب میں ہی کیوں درست ہے،یہ مرد کے باب میں بھی اتنی ہی شدت سے ٹھیک ہے۔کیا مرد کی آنکھوں ،مرد کے ہونٹوں،مرد کی انگلیوں کے بارے میں یہی سب کچھ نہیں کہا جاسکتا، کیا مسیحائی صرف کوئی مرد کرسکتا ہے، روح تک مسیحائی کی تاثیر صرف مرد کی اںگلیوں کے لمس سے آسکتی ہے؟یہ بہت سادہ سے سوال لگتے ہیں لیکن مجھے یہ پوری زندگی اور وجود پہ محیط سوال لگتے ہیں جن کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ساری! ہمیں ایسی محبت کی تلاش ہے جو معمول اور غیر معمول دونوں کو ایک ہی بہاؤ میں رکھے ہوئے ہو اور ابنارملٹی جسے کہا جاتا ہے اسے بھی معمول بہ بنائے۔ساری! تم نے مجھے جینڈر کے تفاوت کے ساتھ شاؤنزم سے گريزاں ہوکر جینے کا ہنر سکھایا ہے،اس کے لئے میں تمہارا احسان مند ہوں۔اور تم نے مجھے ارض واد محبت کرنے کا راستہ دکھایا۔تمہیں یاد ہے کہ ہم نے ملکر ارجنٹائن کے اس میجکل رئیلزم کے فکشن کو چار چاند لگانے والے جارج لوئس بورخس کو دریافت کیا تھا اور اس نے محبت کے بارے میں کہا تھا،
To fall in love is to create a religion that has a fallible god
تو اگر مذہب محبت میں ‘فالی ایبل گاڈ’ نہ ہو اسے محبت کہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ایسا دیوتا جس سے غلطیوں اور غلط کاریوں کا امکان موجود ہو، اںگریزی میں اسے
Prone to err،capable of making mistakes or being wrong
اور یہ بورخس ہی تھا جس نے ہم دونوں کو یہ سمجھنے میں مدد دی کہ “حقیقت ایک ایسی شئے ہوتی ہے جس کے امکان کی پیشن گوئی کرنے کے ہم قابل ہوتے ہیں،اور یہ انڈرڈویلپنگ طرح کی شئے ہوتی ہے،محبت بھی ایک پیشن گوئی کے قابل شئے ہے،اور کبھی کبھی جب یہ مکمل طور پہ ہمیں بالغ نظر آرہی ہوتی ہے اس وقت بھی امکانات کا جہاں اس میں پوشیدہ ہوتا ہے جس کا ہم اکثر ادراک نہیں کرپاتے اور یہی ادراک نہ کرپانا ہمارا ہجر و فراق ہوا کرتا ہے جس میں ہمارا کلیجہ کباب بننے کو تیار رہتا ہے۔محبت ایک نظم ہی تو ہے جسے خاموشی سے یا آہستگی سے پڑھا ہی نہیں جاسکتا، اور جو تعلق خاموشی اور آہستگی میں بھی بلند آہنگ نہ ہو اسے محبت کہنا بہت مشکل ہے اور یہ لکھے ہوئے لفظوں کی بجائے ‘کرنے’کا کام ہے اور یہ ایک پریکٹکل آرٹ ہے جس کو بعد میں تھیورٹیائز کیا جاتا ہے، میں بورخس کے ایک قول کی مٹی پلید کرنے پہ معذرت خواہاں ہوں،تم اس گستاخی کو معاف کردوگی۔ویسے مجھے یہاں ایک شعر یاد آرہا ہے جس پہ اس خط کو تمام کررہا ہوں،
ناصح تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آجاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے،یوں ہے
فقط تمہارا
ع۔ح

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply