رقصِ مرگ۔۔۔فوزیہ قریشی/افسانہ

ایک عجیب سی بے بسی کا امڈتا ہوا سمندر اس کی آنکھوں سے عیاں تھا۔ چہرے پر انمٹ صدمات کی دھول عمیق اداسیوں کی مہر ثبت کر چکی تھی۔
اب تو شاید، اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی بوڑھی ہو چکی تھیں.اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا۔
کسی کھوئی ہوئی بے نشاں منزل کے لیے بھٹکتے ہوئے شکستہ پا، دل گرفتہ وہ کیا کرے؟ کہاں جائے؟
اپنے دکھوں کی گٹھڑی اٹھائے وہ نہ جانے کتنے برسوں سے اک انجانے سفر میں تھا-
یوں تو وادی میں ہر طرف شور برپا تھا لیکن اس کے کان جیسے بند تھے۔ اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہاں موجود اکثر لوگوں کا یہی حال تھا۔
اس کے ہوش و حواس شل اور وجود خلا میں معلق تھا۔۔۔ دہشت ، وحشت ، بربریت اور خوف کے سائے وجود کے ریشوں میں اتر چکے تھے۔۔ارد گرد افراتفری ، آگ ، دھواں ، گولیاں، بمباری ، خون اور بھگدڑ کا عالم تھا۔
اسے بھی اک انجانی منزل کی طرف بھاگتے ہوئے نجانے کتنے برس بیت چکے تھے!
نا یافت مسافت کی بے پناہ تھکن نے اس کی روح تک کو گھائل کر دیا تھا۔ روح تو جیسے ایک آزاد پنچھی کی طرح زندگی کے مرغزاروں سے دانہ دنکا چن کر کھلے آسمانوں پر اپنے خوشنما پر کھولے پروازکے لئے بے قرار تھی۔۔۔ امن و سکون کے خوابوں کو زندہ دفنا کر اپنے مردہ جسم کو گھسیٹتے گھسیٹتے، اب وہ بہت تھک چکا تھا۔
اس کے بیوی ، بچے اور بوڑھے والدین سب ہی اس سے جدا ہوچکے تھے لیکن رومان تو اس کے ساتھ تھی-
کدھر گئی میری بچی؟ کیا وہ بھی کھو گئی؟ کیا میں تنہا زندہ بچ گیا ہوں؟
وہ خود سے ہی گویا ہوا.
“رومان میری جان ، میری بچی۔۔ ابھی تو یہیں تھی، کدھر گئی میری بچی؟”
وہ کافی دیر تک رومان ، رومان پکارتا رہا۔ پھر اچانک قریب روتے بلکتے بچوں میں سے ہی اک پیاری سی نیلی آنکھوں والی بچی کو گود میں اٹھا کر چومنا شروع کردیا۔ میری بچی، لیکن یہ کیا؟ سفید گالوں پر جمے ہوئے خون کی تہیں کھرنڈ کی شکل میں ابھری ہوئی تھیں۔ بھورے بال گرد کی تہہ میں کہیں چھپ چکے تھے اوربھیگی ہوئی نیلی آنکھوں میں وحشت کے سائے منڈلا رہے تھے.
ماما ، ماما پکارتی وہ ننھی گڑیا روئے جا رہی تھی۔
بچی کے آنسو دیکھ کر،عبداللہ کو کچھ ہوش آیا تو اس نے غور کیا۔۔ “یہ تو اس کی رومان نہ تھی لیکن رومان جیسی تھی۔”
اس نے بچی کے آنسو صاف کئے اور اسے پیار سے پچکارتے ہوئے، ابھی مل جائے گی ماما۔۔
“روتے نہیں گڑیا! میں ڈھونڈوں گا تمہاری ماما کو-” وہ بچی کو تسلی دے رہا تھا جبکہ وہ یہ بھی جانتا تھا۔ ایسا نا ممکن ہے کیونکہ وہ خود بھی کتنے برسوں سے اپنوں کی تلاش میں بھٹک رہا تھا-
اس کے اپنے، جن کی اسے برسوں سے تلاش تھی، کچھ تو مر چکے تھے اور باقیوں کی کوئی خیر خبر نہیں تھی۔ زندہ بھی تھے یا نہیں۔
اس نے نیلی آنکھوں والی اس معصوم بچی کا ہا تھ تھاما۔ جس کی عمر لگ بھگ چار برس تھی۔ اس کی پھٹی فراک، گرد اور خون سے اٹی ہوئی تھی۔ جسم پرخراشیں اورجا بجا زخم تھے۔ سبھی بچ جانے والوں کا کچھ ایسا ہی حال تھا۔
وہ لوگ بے سروسامان ننگے آسمان کے نیچے اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے ۔ کشمکش اور بے بسی کے اس عالم میں وہ موت کی دعائیں مانگ رہے تھے.
کیوں نہ مانگتے؟ یوں بھی تو وہ نہ زندوں میں سے تھےاور نہ ہی مردوں میں ۔۔
ان ہی میں سے کچھ کے بچے ، عورتیں ، بوڑھے اور جوان ملبے کے ڈھیر تلے دبے ہوئے آدھے اندراور آدھے باہر، شکستہ وجود کے ساتھ خون سے لت پت، شدت و تکلیف سے کراہتے ہوئے۔ ،سوائے آہ و بکا کے اورکر بھی کیا سکتے تھے؟

بچی کا ہاتھ تھامے وہ بغیر سوچے سمجھے پھر سے اک انجانی منزل کی طرف چل پڑا۔ راستے، تباہ شدہ بازار، گھر اور محلے سب کھنڈر بن چکے تھے۔۔۔ کچھ لوگ گروہ کی شکل میں سامان باندھے گھبرائی ہوئی حالت میں مدد کے منتظر تھے۔ اور کچھ شہر سے باہر جانا چاہتے تھے۔ چند لوگوں کے ہاتھوں میں خون سے لتھڑی ہوئی ہسپتال کے ملبے سے نکالی جانے والی چند لاشیں اور معصوم بچے تھے۔۔چند بچوں کے نازک وجود کے ساتھ لٹکی ہوئی ٹوٹی پھوٹی، گرد آلود، خون سے بھری ڈر پس اور پلستر تھے۔۔یوں تو چند کلو میٹر کے فا صلے پر اسے، اسی طرح کے تباہ حال لوگوں کے قافلے مل جاتے تھے۔ جو محفوظ مقام اور پناہ گاہ کی تلاش میں تھے۔۔
وہ بھی ان سب کی طرح اس ننھی سی گڑیا کے لئےاب محفوظ مقام اور پناہ کی تلاش میں تھا۔ لیکن محفوظ مقام تھا کہاں؟
چاروں طرف تو لاشیں بکھری پڑی تھیں ۔ جن کی انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں اور ان کے پیارے اپنی متاع حیات کے لئے ماتم کناں تھے.
اس بدنصیب کے بھی والدین، بہن بھائی، بچپن کے سارے سنگی ساتھی اور اہل خانہ اس سے بچھڑ چکے تھے۔
وادی میں ہر طرف موت رقصاں تھی. بارود سے متعفن فضا میں ہر سو تازہ اور باسی خون کی بو بھی سمائی ہوئی تھی۔
ان کی آنکھوں میں وحشت ، دہشت اور خوف کے سائے ہمہ وقت لرزاں رہتے تھے۔ ان کے ذہنوں میں اندیشوں اور خدشات کے ناگ پھن اٹھائے پھرتے تھے.
کوئی نہیں جانتا تھا، ان میں سے کب ، کون، کہاں مارا جائے؟
دور دور تک صرٖف کھنڈر بنی عمارتیں  تھیں۔
اس کا اپنا خوبصورت ہنستا بستا گھربھی تباہ ہو چکا تھا۔ بیوی ، بچے سب   بچھڑ چکے تھے۔ اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ وہ سب زندہ بھی ہیں یا سبھی شہید ہو گئے۔ یہ ایک بہت عجیب سی صورتحال تھی کہ مرنے والے تو شہید تھے ہی ، مارنے والے بھی خود کو “غازی اور برحق “سمجھتے تھے۔ معصوم نہتے اور کئی روز کے فاقوں سے نڈھال یہ بچے، بوڑھے، عورتیں اور جوان جب ان غازیوں کے شکنجے میں پھنس جاتے تو ایک ایک نہتے پر پانچ پانچ غازی ٹوٹ پڑتے تھے انہیں خون سے غسل کروانے کے بعد ان کی لاشوں کو ملبے کے ڈھیر پر کوڑے کرکٹ کی طرح پھینک جاتے تھے۔
یہ لاشیں کٹے پھٹے ٹکڑوں سمیت ادھر ادھر پڑی رہتی تھیں۔ ان پر منڈلاتے گدھ ،چیلیں ، آوارہ کتے اور جنگلی جانور ہمہ وقت دعوت شیراز  اُڑاتے تھے اور کبھی کبھی ہر سمت رواں دواں خون کی وہ ندیاں بہہ کر جم بھی جاتی تھیں ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی تباہ و برباد علاقے میں چند مسیحا بھی تھے جو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر دوسروں کی جانیں بچاتے پھرتے تھے۔ وہ اب انہیں مسیحاؤں کی تلاش میں تھا۔ تاکہ اس معصوم سہمی ہوئی بچی کو ان کے حوالے کر سکے۔۔
” ہم کہاں جا رہے”؟
،مجھے ماما کے پاس جانا ہے، میری ماما ادھر ہے.” وہ روتے ہوئے بولی –
بچی کا اشارہ پیچھے کی جانب تھا۔ جہاں سے وہ اسے ملی تھی لیکن وہاں اب چاروں طرف تباہ شدہ ، چلی ہوئی بوسیدہ عمارتیں  تھیں۔ جن میں سے کچھ تو بمباری کے بعد  ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں اور کچھ قبرستان۔ جس میں دفن ہونے والی زندہ لاشوں کو کبھی کبھار ملبہ ہٹا کر نکالا جاتا تو بچنے والے خوش نصیوں کی سسکتی بلکتی آوازوں کو محسوس کر کے خوشی کے نعرے لگائے جاتے۔ پھر اسی سہمی ہوئی خاموشی کا راج ہو جاتا۔ جسے بموں کے دھماکے اور گولیوں کی بوچھاڑ کی آوازیں توڑ دیتی تھیں۔ وہ اس غیرمحفوظ مقام پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے وہ چلتا جارہا تھا۔۔
آخرکاروہ بچی کے ساتھ بڑی شاہراہ تک کسی نہ کسی طریقے سے بچتا بچاتا پہنچ ہی گیا۔۔ گاڑیوں کی آمدو رفت جاری تھی۔ سڑک کے پار ہی ایک ایمبولنس کھڑی تھی جس میں چند مسیحا، رنگ، نسل، مذہب اور اپنی جان سے بے پرواہ ان معصوم بچوں کی مرہم پٹی میں مصروف تھے ۔بچوں کے جسم اور چہروں پر جمے خون کی صفائی کے بعد انہیں کھانے کے لئے جوس، بسکٹ اوردودھ کے ڈبے بھی دئیے جاتے تھے۔
اس نے ایک مسیحا سے کہا: سنو تم اس بچی کا خون بعد میں صاف کرنا۔ پہلے اسے کھانے کو کچھ دے دو۔ نہ جانے کتنے دنوں کی بھوکی ہے!
اس آدمی نے اس کی طرف دیکھا اورکہا، “صبرکرو، اس کو بھی دیتے ہیں۔شکر کرو تمہاری بچی تمہارے ساتھ ہے ان بچوں کو دیکھو جن کا کوئی بھی نہیں بچا۔۔”
“یہ میری بچی نہیں ہے لیکن میری بچی جیسی ہی ہے، ان سب بچوں کی طرح”۔ عبداللہ نے کہا –
” اوہ اچھا ! یعنی یہ بھی بے آسرا ہے۔” اس آدمی نے جواب دیا۔
“کیا آپ لوگ اسے، کسی محفوظ مقام تک پہنچا سکتے ہیں؟” عبداللہ نے امید بھرے لہجے میں پوچھا –
” جی، ہم ان بچوں کو مہاجر کیمپوں تک بھی پہنچاتے ہیں۔ جہاں سے کچھ خدا ترس ان کو سرحد پار کسی نہ کسی محفوظ مقام تک چھوڑ آتے ہیں. تم اگر چاہو تو، تم بھی اس کے ساتھ جا سکتے ہو.”مسیحا نے جواب دیا۔
“نہیں، نہیں مجھے ابھی واپس جانا ہے۔ میری بچی، مجھے ڈھونڈ رہی ہوگی۔ نجانے میری بچی کس حال میں ہوگی! “عبداللہ نے جلدی سے کہا – “اوراس جیسے بہت سارے نہتے ، معصوم اور بے سہارا بچے بھی میرے منتظر ہیں۔ مجھے ہر حال میں ان کے پاس واپس جانا ہوگا۔”
بچی کو ان کے سپرد کر کے وہ واپس لوٹ گیا۔۔ اک بار پھراسی انجانی منزل کی طرف۔۔
وہ اب بھاگتے بھاگتے بے حد تھک چکا تھا۔ اس کی جنگ نہ شہیدوں کے لئے تھی نہ ہی غازیوں کے لئے۔ وہ تو بس اپنے خاندان کی تلاش میں اور ناتواں جانوں کو بچانے کی غرض سے ان بھول بھلیوں میں برسوں سے بھٹک رہا تھا۔
اگرچہ وہ ایک مقامی شخص تھا جسے قسمت کے ہیر پھیر نے شاید اس موت کی وادی میں پیدا کر دیا تھا ۔ دن رات وہی بھیانک منظر اس کی آنکھوں میں پھرتے تھے۔۔ جب وہ سب حملہ آوروں کے ڈر سے اپنے ہی گھر کے کونوں کھدروں میں چھپ جاتے تھے۔۔ خون کے پیاسے انہیں کسی نہ کسی طرح ڈھونڈ نکالتے تھے۔ اسے وہ دن آج بھی نہیں بھولتا تھا۔ جب ظالموں نے بڑی بے دردی سے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بڑے بیٹے علی کو گولی مار دی تھی۔۔ اس کی بیوی اور دو سالہ بیٹے محمد کو، بالوں سے گھسیٹ کر بکتر بند گاڑی میں بٹھایا تھا۔ وہ سب چیختے، پکارتے، بلکتے اور دہائیاں دیتے اپنی جانوں کی بھیک مانگتے رہے۔۔ ان ظالموں کے قدموں سے لپٹ کر رحم کی التجائیں بھی کرتے رہے لیکن ان کو رحم نہ آیا اوروہ ظالم اس کے خاندان کو اس سے چھین کر لے گئے ۔۔۔۔۔ رومان خوف کے مارے اس وقت ایک کونے میں دبک گئی تھی۔ لیکن حالیہ بمباری نے اسے بھی عبداللہ سے جدا کر دیا تھا۔ بے بس ، لاچار، بے یقینی اور بے چینی کے عاللم میں وہ کچھ بھی نہ کرسکا۔۔
“پتا نہیں، ان ظالموں نے اس کے خاندان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا۔؟”
یہ سوچ کر اس کی آنکھیں بھرجاتیں، اوسان خطا ہوجاتے اور حواس معطل۔
دلگداز اداسی میں وہ اکثر یہی سوچتا تھا کہ وہ سب کیسے ہونگے؟
زندہ بھی ہونگے یا انھیں اذیتیں دے دے کر، تڑپا، تڑپا کر مارا ہو گا؟۔
” آہ، سب کے سب اس سے بچھڑ گئے اور وہ اکیلا رہ گیا۔”
اس کا وجود اب ایک زندہ لاش بن چکا تھا اور اس کی وادی ملبے کا ڈھیر۔۔
کتنے بھیانک منظر اس کی گنہگار آنکھوں نے دیکھے تھے! ، لیکن وہ کچھ بھی نہ کر سکا۔ اتنے بھیانک مناظر دیکھ کر بھی بچ جانے والے اسی دھرتی کے مقامی۔۔۔ ابھی بھی کسی مسیحا کے منتظر تھے لیکن اس دنیا میں کوئی ایک بھی تو نہیں تھا ان کی آہ و پکار سننے والا۔ ایک بھی نہیں۔۔
اس کی روح میں بھی اب دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہو کر وہ اس بیاباں میں کبھی اک کونے میں پناہ لیتا تو کبھی کسی کھنڈر میں جا چھپتا تھا۔ ان بھول بھلیوں سے نکلنے کی شاید اب کوئی راہ ہی سجھائی نہیں دیتی تھی
کتنے عرصے سے وہ اس کٹھن سفر میں تھا؟
ایسا سفر جس کی نہ کوئی منزل تھی، نہ ٹھکانہ۔۔ اپنے ہی وطن میں بے گھر ہو کراب وہ اپنی زندگی سے بھی نا امید ہو چکا تھا.اسے معلوم تھا کہ مزید چند دنوں میں وادی کے بچے کھچے نیم زندہ انسان چن چن کر مار دئیے جائیں گے اوراس دن رات کی بمباری سے انھیں موت کی نیند سلا دیا جائے گا۔ ملبے کو صاف کر کے یہ زمین پھرسے ہموار کی جائے گی۔۔ شاید وہ بھی اسی ملبے میں دفن ہو جائے گا۔ پھر وہاں نئے بیج بوئے جائیں گے اور نئے درخت اگیں گے۔ ان کے لہو سے سینچ کر اور ان کی ہڈیوں کی کھاد پا کر یہ اجڑی بنجر دھرتی پھر سے ہری ہو جائے گی۔۔
یہاں کے پھل کھائے جائیں گے۔ جن کے رس میں ان سب کے خون اور شدت تکلیف کی مٹھاس شامل ہوگی. سکھ اور سچائی کے نئے مینارتعمیر کئے جائیں گے، امن و آشتی کے پل باندھے جائیں گے ۔ پھر وہ خواب بنے جائیں گے جن کی آبیاری انہی  بے بسوں کے لہو سے کی گئی تھی۔۔
ہائے وہ امن اور آزادی کا خواب۔۔۔۔۔۔۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوس کہ  وہ آزادی ان معصوم ، بے بسوں اور ناحق جان گنوانے والوں کے لئے نہیں ہوگی-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply